پیاز کے آنسو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-12-06

پیاز کے آنسو

Tears-of-onions
ہم پہلے یہ بتا دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ آزادی کے زمانے میں تو ہم اپنی مرضی کے مالک آپ ہوا کرتے تھے لیکن شادی ہوتے ہی ہمارا تعلق "غلام ونش" سے ہوگیا یعنی بیوی کی "جی حضوری"ہی ہماری زندگی کانصب العین بن گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسروں کی نظر میں ہم جتنے لائق اور سگھڑسمجھے جاتے تھے۔ بیگم ہمیں اتنا ہی نادان گرداننے لگیں اور ہم پر اتنی ہی کڑی نظر رکھی جانے لگی جتنی کسی ناسمجھ بچے پر۔
دیگر معاملات میں توخیر جو ہے سو ہے۔ لیکن سودا سلف لانے کے معاملے میں ہم قطعی نااہل قرار دئیے جاچکے ہیں چنانچہ جب ہم کوئی چیز بازار سے خریدنے کی غرض سے باہر نکلنے لگتے ہیں تو بیگم طرح طرح کی ہدایات کی یلغار کرتی ہوئی دروازے تک پیچھا کرتی ہیں مثلاً :
"ذرا دوچارد ُکانوں پر خوب دیکھ پرکھ کر خریدئے گا اور مول تول میں ذرا بھی غفلت نہ برتئے گا۔"وغیرہ وغیرہ
اور ہم بھی بازار کے لیے اسی تیور سے نکلتے ہیں گویا کوئی بڑا معرکہ سر کرنے جارہے ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ شاید ہی ہم کبھی بیگم کی پسنداور معیار پرپورے اُترے ہوں۔بازار سے خریدی گئی چیزوں کی چیکنگ عموماً اس طرح کے جملوں سے شروع ہوتی ہے۔
"آپ آنکھ بند کر کے ہی سامان اٹھا لاتے ہیں کیا؟پیکنگ پراتنا بڑا دھبہ آپ کو نظرہی نہیں آیا؟"
واضح رہے کہ یہ اس پیکنگ کی چیکنگ کا بیان ہے جسے فوراً ہی کوڑے دان کی نذر ہوجاناہے۔ہم ایک فرماںبردار شوہر کی طرح فوراً اس پیکٹ کو بدلنے کی غرض سے دکان پر واپس پہنچ جاتے ہیں۔
ہم یہاں یہ بتا دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ کوئی چیز خرید کر لانے کے بعداسے بدلنے کا رواج ہمارے یہاں اتنا جڑپکڑچکا ہے گویا اس چیز کی خریداری دربار میں یعنی ایک بار بدل لینے کے بعد ہی مکمل ہوتی ہے۔چونکہ بیشتر دکاندار ہماری پوزیشن سے واقف ہو چکے ہیں اس لیے کوئی سامان ہمیں دینے کے بعداس کا دوسرا پیس الگ نکال کر رکھے رہتے ہیں۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارا لایا ہوا پیس اکلوتا ہی ثابت ہوتا ہے۔

اب مسئلہ یہ آن کھڑا ہوتا ہے کہ بیگم ایک بار جو فرمان جاری کردیتی ہیں اسے واپس لینا اپنی شان کے خلاف سمجھتی ہیں۔ ایسی صورت میں ہم اسی پیکٹ پر ایک آدھ دوسری طرح کانشان بناکر واپس لاتے ہیں توبیگم کسی حد تک مطمئن ہوتے ہوئے فرماتی ہیں "چلئے اُس سے توغنیمت ہی ہے" اب توآپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ معاملہ صرف انا کی تسکین کا ہے کہ موصوفہ نے ایک سامان کے لیے ہمیں دوبار دوڑا کر ہی دَم لیا۔
یہاں یہ بتا دینابھی ضروری ہے کہ ہمارے ذریعے کیاگیا کوئی بھی کام "غنیمت "کی حد سے آگے کبھی نہ بڑھ سکا اور یہ سنہرا موقع بھی شاذو نادرہی آتا ہے لہٰذا ہم اب اسی غنیمت کو اپنے لیے "سپرب" یعنی شاندار سمجھنے لگے ہیں۔

دیگر معاملات کی بات چھوڑئیے، پر ساگ سبزی لانے کامسئلہ ہمارے لیے سب سے سنگین ہے کیونکہ اس مرحلہ سے توہمیں قریب قریب روز ہی گذرناپڑتا ہے۔اس سلسلے میں بیگم کا اسٹینڈنگ آرڈر ہے کہ ہم پہلے مرحلہ میں پوری سبزی منڈی کا ایک چکر اس طرح لگاڈالیں جیسے ہمیں وہاں مارکیٹنگ انسپکٹر کی حیثیت سے معائنہ کے لیے بھیجا گیا ہو۔ پھر مول تول والا مورچہ صرف ایسی دکانوں پر ہی کھولیں جہاں دُکاندار نسبتاً گاؤدی قسم کے نظرآئیں جنہیں ہم آسانی سے زیر کرلیں ،کوئی دُکاندار ہمیں زیادہ نہ ٹھگ لے اس کے لیے پیش بندی کے طور پر ہم بازار نکلتے وقت بیگم سے مطلوبہ شے کا تخمینی ریٹ دریافت کرلیتے ہیں اور اس مورچے پر پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں کہ کہیں بے خیالی میں ہم اس "منظور شدہ"ریٹ سے آگے نہ نکل جائیں لیکن کبھی کبھی معاملہ اس میں بھی پھنس جاتا ہے۔
مثلاً گزشتہ دنوں ہم مٹر کی پھلی خریدنے کے لیے سبزی منڈی پہنچے۔آج بیگم نے مٹر کا ریٹ چالیس روپئے بتایا تھا چنانچہ ایک دکان پر پہنچ کرمٹر کا بھاؤ پوچھاتو پیروں تلے زمین نکل گئی۔دُکاندار نے اسّی روپئے کلو ریٹ بتایا۔ہم نے چونکتے ہوئے کہا:
"کیا غضب کرتے ہویار! آج تومٹر چالیس روپئے میں بک رہی ہے۔"
اس نے ہم سے بھی زیادہ چونکتے ہوئے پوچھا: "کہاں مل رہی ہے صاحب چالیس روپئے میں؟"
ہم نے معصومیت سے کہا: "جہاں سے ہماری بیگم منگواتی ہیں۔"
"تو اپنی بیگم کی دکان ہی سے لے لیجئے" اس نے تڑسے جواب دیا۔
چنانچہ ہم نے پوری سبزی منڈی چھان ماری لیکن کہیں ایسی دکان نہ مل سکی جہاں اسّی روپئے سے کم میں مٹر مل پاتی۔ مجبور ہو کر ہم تھیلا اور منہ لٹکائے گھر میں داخل ہوئے جہاں مٹر پلاؤ پکانے کے جملہ لوازمات تکمیل کے مراحل میں تھے۔خالی تھیلے پر نظر پڑتے ہی بیگم دہاڑیں:
"اُڑ گئی مٹر بازار سے آج؟"
ہم نے سہم کر کہا "دکانیں توبہت سی ہیں لیکن ریٹ بہت زیادہ بتا رہے تھے۔"
"آخرکیا بھاؤ مل رہی تھی؟" لہجہ مزید سخت ہوا
"اسّی روپئے کلو کہہ رہے تھے کمبخت" ہم نے اقبال جرم کے انداز میں جواب دیا۔
"توکیا مفت ملنے کے چکر میں تھے آپ؟" بیگم نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔
"لیکن تم نے توچالیس روپئے کلو کا ریٹ منظور کیاتھا؟" ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
"وہی تومیں بھی کہہ رہی ہوں۔ آدھ کلو چالیس روپئے ہی میں تو بتایاتھا!"
"تو اب آدھ کلو ریٹ آؤٹ کیاجائے گا؟" بے خیالی میں ہم نے بھی چیخنے کی ہمت کر ڈالی۔
اس پر بیگم کا پارہ اور چڑھ گیا۔ ہاتھ نچاتے ہوئے بولیں: "فصل کے شروع میں کوئی چیز کلو بھر خریدی جاتی ہے کیا، جو میں کلو کا ریٹ آؤٹ کرتی ؟"
اس پر اپنی کم مائیگی کے احساس سے ہمارا سَرجھک گیا اور ہم پھر بازار کی طرف دوڑگئے۔

یہ باتیں تو عام حالات کی ہیں کوئی ایمرجنسی آجانے پر تومسئلہ او ربھی سنگین ہو جاتاہے۔مثلاً پیاز کامعاملہ ہی لے لیجئے!
اس سلسلے میں مزید تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ گزشتہ کچھ دنوں سے میڈیا میں پیاز کی خبروں کے نیچے باقی خبریں دب کر رہ گئی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فی الوقت ملک میں پیازکے علاوہ اور کوئی مسئلہ رہ ہی نہیں گیاہے۔ بہرحال اس ہنگامی صورتحال کے پہلے دن سبزی منڈ ی پہنچے توکسی نئی کہانی کے پلاٹ کی تلاش میں ایسے گم تھے کہ پہلے بھاؤ پوچھ لینے کا خیال ہی نہ آیا اور ہم نے ایک کلو پیاز لینے کے بعد دُکاندار کو پچاس روپئے کا نوٹ تھما دِیا۔کچھ دیر تک کھڑے ہم اسے تکتے رہے اور وہ ہمیں تکتا رہا تو مجبوراً ہمیں کہنا ہی پڑا کہ:
"بھیا باقی پیسے واپس کردو۔ اس پر وہ حیرت سے بولا: "آپ کو پیسے واپس کردوں؟"
ہم نے اکڑتے ہوئے کہا: "پچاس کا نوٹ دیاہے نا"
"توکیا ہوا؟" اس نے ہم سے زیادہ اکڑتے ہوئے کہا:
"پچاس روپئے اور نکالیے۔ سوروپئے کلو ہے پیاز!"

بیگم نے یہی ایک نوٹ دے کر کئی چیزیں لانے کو کہا تھا اورا ب معلوم ہوا کہ اس وقت ہم صرف ایک چیز یعنی پیازہی خریدنے کی پوزیشن میں نہیں تھے اس لیے مجبوراً آدھی پیاز واپس کر کے جان چھڑانی پڑی۔

پیاز کی بات پرہمیں یادآرہا ہے کہ یہ عجیب اتفاق ہے کہ پیاز پر قحط پڑنے سے پہلے لہسن پر اس سے بڑی آفت آئی تھی۔یہاں تک کہ لہسن تین سو روپئے کلو تک چڑھ جانے پر بھی وہ شہرت حاصل نہ کر سکا جو پیاز نے محض سو روپئے تک پہنچ کر حاصل کرلی۔ٹی وی چینلوں کی مہربانی سے دنیا کے کونے کونے میں بچے بچے نے پیاز کا جلوہ دیکھ لیا۔ اپنا اپنا مقدر ہے !
جہاں تک ہماری بات ہے توہم آپ سے سچ بتائیں کہ اتنے دنوں تک ٹی وی پر پیاز کے چرچے اور بار بار وہی مناظر دیکھتے دیکھتے ہمیں پیاز ہی سے نہیں ٹی وی سے بھی چڑ سی ہونے لگی۔خیر ٹی وی سے پیچھا توہم آسانی سے چھڑا سکتے ہیں لیکن پیاز سے بچ کر کہاں جائیں گے کہ یہ کھانے کا نہایت اہم جز ہے۔ بدیس سے مہنگے دام پرخرید خرید کر کام توکسی طرح چل ہی جائے گالیکن اب ہمیں بار بار یہ خیال پریشان کرنے لگا ہے کہ دُنیا کے سب سے بڑے زراعتی ملک کو کم از کم پیاز لہسن جیسی چیزوں میں تو خود کفیل ہو ہی جانا چاہیے۔

***
Fazl-e-Hasnain
فون : 07499178776

Tears of onions, humorous essay. Article: Fazl-e-Hasnain

1 تبصرہ: