پی ٹی آئی
پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے آئی ایس آئی ایس کے عناصر سے تقابل کرتے ہوئے ، جو اسلام کے نام کا غلط استعمال کرتے ہیں، مطالبہ کیا ہے کہ ہندو ازم کے نام پر سر گرم انتہا پسند عناصر کو روکا جائے ۔ انہوں نے یہاں ہندوستان ٹائمز لیڈر شپ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک کی رواداری ہی ملک کی طاقت ہے اور اگر ہم ان نام نہاد انتہا پسند عناصر کو نہ روکیں تو پھر (وہی صورتحال پید اہوگی جو) شام، افغانستان اور عراق کی ہے۔ وہاں بھی انتہا پسند عناصر، اسلام کے نام کا غلط استعمال کررہے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسے عناصر ہیں جو ہندو ازم کے نام کا غلط استعمال کرتے ہیں اور اس کا قوم پرستی سے تقابل کرتے ہیں ، جو مزید بد تر صورت ہے ۔ محبوبہ مفتی نے جن کی پارٹی پی ڈی پی جموں و کشمیر میں بی جے پی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت چلا رہی ہے ، کہا کہ بہار انتخابات نے انتہا پسند عناصر کے لئے اچھا کام کیا ہے ، جو ہندو ازم کے نام کا غلط استعمال کررہے تھے اور اس کا تقابل قوم پرستی سے کررہے تھے ۔ ریاستی چیف منسٹر مفتی محمد سعید کی دختر سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ جب ایسی باتیں پاکستان پہنچتی ہیں جن میں چند مرکزی وزراء کے بیانات بھی شامل ہیں تو وہ کس طرح انہیں حق بجانب ٹھہراتی ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ وہاں بھی وہی ذہنیت ہے ۔ دراصل طرز فکر اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ انہوں نے پاکستان کے مرحوم وزیر ذوالفقار علی بھٹو کا قول دہرایا تھا جنہوں نے کہاتھا کہ ہندوستان ، افرا تفری اور شوروغل کی جمہوریت کی وجہ سے پروان چڑھ رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب لوگ بڑھتی قیمتوں سے لڑنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ جنہیں پیاز نہیں ملتی۔ اچانک کوئی یہ کہنا شروع کردیتا ہے کہ انہیں کون سا گوشت کھانا چاہئے اور کون سا نہیں ، یہ ناقابل قبول ہے ۔ اس سوال پر کہ آیا اس کا اثر ریاست کے پی ڈی پی ۔ بی جے پی اتحاد پر ہورہا ہے ۔ جہاں انتہا پسند عناصر نے ایک نوجوان ٹرک ڈرائیور کو موت کے گھاٹ اتار دیا تو انہوں نے کہا کہ قاتلوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور سخت کارروائی کی گئی ہے ۔ یہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ بیانات تو وہاں بھی دئے جاتے ہیں لیکن اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ آخر کار کیا کارروائی کی جاتی ہے ۔ محبوبہ مفتی سے سوال کیا گیا کہ بحیثیت چیف منسٹر اپنے والد کی جانشین بننے کے کیا امکانات ہیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں اس سوال کا جواب دینا پسند نہیں کروں گی میں اس بارے میں سوچنابھی پسند نہیں کرتی ۔ میں عوام کے لئے کام کررہی ہوں اور ایسا کرتی رہوں گی۔
دریں اثناء سری نگر سے یو ین آئی کی علیحدہ اطلاع کے بموجب جمو ں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلہ کو طول دینے سے ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو ہی سب سے زیادہ مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑ ا ہے اور آج بھی کشمیری اس چکی میں پس رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ کی وجہ سے ہزاروں بے گناہ لوگ اپنے جانیں گنواں بیٹھے۔ بستیوں کی بستیاں خاکسٹر ہوئیں، قبرستانوں کے قبرستان بھر آئے ، بے نام اور گم نام قبرستان بھی وجود میں آئے ، ایسا کوئی گھر نہیں جو پرآشوب دور میں متاثر نہ ہوا ہو، ہندوستان اور پاکستان نے چار جنگیں لڑیں لیکن کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوا اگر کچھ ہوا تو وہ صرف تباہی اور بربادی تھی ۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار آج نیشنل کانفرن سے بانی شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کی100ویں برسی کے موقع پر شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کناروں پر واقع شیخ عبداللہ کے مقبرہ نسیم باغ حضرت بل میں ایک بڑے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہاکہ مسئلہ کشمیر کے تمام فریقین کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بات چیت کے سوا اس مسئلے کا حل نہیں نکالا جاسکتا کیونکہ مذاکرات کے سوا جو بھی طریقے تھے وہ سراب ثابت ہوئے ۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کو جموں و کشمیر کو اندرونی خود مختاری دیکر سرحدوں کو بے معنی کرنا چاہئے ، یہی مسئلہ کشمیر کا بہترین اور سب کے لئے قابل قبول حل ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم لیاقت علی خان سے لے کر آنجہانی پنڈت نہرو اور جنرل پرویز مشرف تک اس فارمولہ کی خواہش ہندوستان اور پاکستان کے صف اول کے رہنماؤں بھی کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس سے بھی بہتر حل سامنے آتا ہے جو آر پار جموں و کشمیر کے تمام خطوں ، عوام اور طبقوں کو منظور نیشنل کانفرنس اسے سرخم کرکے تسلیم کرے گی۔ ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ نیشنل کانفرنس ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے باوقار اور با عزت حل کی متمنی رہی ہے اور ہمیشہ اس کے لئے وکالت کرتی آئی ہے۔ انہوںنے ہندو پاک کے سربراہوں کی پیرس میں ملاقات کو باعث مسرت بتاتے ہوئے کہا کہ اللہ کرے یہ بات چیت پائیدار امن، خصوصاً مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سود مند ثابت ہو۔ ریاست کی موجودہ سیاسی اور انتظامی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ریاست اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے، سیلاب کے ساتھ ہی جہاں ریاست کو اقتصادی، بحران نے اپنی لپیٹ میں لیا تھا وہیں پی ڈی پی بھاجپا مخلوط حکومت کے قیام کے ساتھ ہی یہاں سیاسی انتشار اور خلفشار بھی پروان چڑھتا گیا۔
Check Hindu fringe elements: Mehbooba Mufti
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں