حیدرآبادی فن تعمیر کا ورثہ - دونوں شہروں میں تقریباً 160 ہریٹیج عمارتیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-12-16

حیدرآبادی فن تعمیر کا ورثہ - دونوں شہروں میں تقریباً 160 ہریٹیج عمارتیں

حیدرآباد
منصف نیوز بیورو
اگر حکومت تلنگانہ کی جانب سے دونوں شہروں حیدرآباد اور سکندر آباد میں ہیریٹیج بلڈنگس کو منہدم کرنے کے اپنے منصوبے کو روبہ عمل لائے تو دونوں شہروں میں قدیم اور ورثہ عمارتوں کا وجود باقی نہیں رہے گا۔ اس سلسلہ میں حال ہی میں ایک جی او جاری کیا گیا ہے۔ جس کے تحت قانون میں ترمیم کی راہ ہموار ہوگئی ہے تاکہ حکومت ورثہ عمارتوں جیسے عثمانیہ ہاسپٹل ، ایرہ گڈہ، چیسٹ ہاسپٹل، آئی اے ایس آفیسرس کالونی وغیرہ کو منہدم کیاجاسکے گا ۔ جس کے بعد حیدرآباد کے لئے یہ خطرہ پیدا ہوجائے گااور یہاں رفتہ رفتہ ورثہ عمارتوں کو وجود ختم ہوجائے گا ۔ اعداد و شمار کے مطابق حیدرآباد اور اطراف کے علاقوں میں تقریبا160ورثہ عمارتیں ہیں اور ان میں سے زیادہ تر خانگی افراد کی ہے اور وہ ان عمارتوں پر اپنے حقوق رکھتے ہیں ۔ اپوزیشن پارٹیوں اور تلنگانہ جے اے سی چیرمین پروفیسر کودنڈارام نے بھی حکومت کے اس فیصلہ کی شدید مخالفت کی ہے ۔ حتی کہ ٹی آر ایس پارٹی میں بھی بعض قائدین اس کی مخالفت کررہے ہیں ۔ حیدرآباد اربن ڈیولپمنٹ اتھاریٹی( ایچ یو ڈی اے) کی جانب سے جوبلی ہلز میں واقع قیمتی اراضیات کا ہراج کیا گیا جس کے بعد بھی بعض حلقوں سے اس کی مخالفت کی۔ اس موقع پر ٹی آر ایس کے نوجوان قائد جو کہ اب وزیر کے عہدہ پر ہیں اس انہدامی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے مظاہرہ کیا تھا اور کہا تھا کہ بعض افراد تلنگانہ کے عوام کے اثاثوں کو حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں جن کا تعلق عام طور پر ریاست کے باہر کے افراد سے ہوا کرتا ہے ۔ ریاستی حکومت کی جانب سے عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کو منتقل کرنے کی کوششیں جارہی ہیں اور اس سلسلہ میں حکومت نے فیصلہ بھی کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ سکریٹریٹ کو بھی دوسرے مقام پر منتقل کرنے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں جب کہ شہر کے مرکزی مقام پر واقع ہے ۔ راج بھون روڈ پر واقع عمارتوں کو بھی منہدم کرنے پر غور کیاجارہاہے ۔ اس طرح اگر قدیم اور ورثہ عمارتوں کو منہدم کردیاجائے تو شہر حیدرآباد کو ورثہ عمارتوں کے شہر کا موقف حاصل نہیں رہے گا ۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ راج بھون روڈ پر حکومت کی جانب سے فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ اس مقصد کے لئے وہاں قائم قدیم اور ورثہ عمارتوں کو منہدم کرنے پر غور کیاجارہا ہے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ ایک طرف نظام کی حکومت کی ستائش کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود قدیم عمارتوں کو منہدم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سکریٹریٹ کے گرانڈ جی بلاک، سیف آباد پیالس، ارم پیالیس ، ایرہ گڈہ فن تعمیر کے بہترین نمونے ہیں ۔ اس کے علاوہ راج بھون روڈ پر بھی کئی عمارتیں ہیں جو کہ فن تعمیر کا نمونہ ہیں ۔ ان عمارتوں کو حیدرآباد اور تلنگانہ کی ثقافتی نشانیاں سمجھاجاتا ہے ۔ ان عمارتوں کی تاریخی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ یہ عمارتیں ایک کنٹرکٹر کو نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی کسی دوسرے گروپ کو یہ فراہم کی جاسکتی ہیں کیونکہ اگر ایسا کیاجائے تو قدیم اور تاریخی عمارتوں کا وجود خت ہوجائے گا۔ بیلا وسٹہ جو کے فرنچ آرکٹیکٹ کی فن تعمیر کا نمونہ ہیں اور اب اس میں اڈمنسٹریٹیو اسٹاف کالج آف انڈیا کے دفاتر کام کررہے ہیں۔ یہ بھی اپنی تاریخی اہمیت رکھتا ہے ۔ اس عمارت میں پرنس مکرم جاہ اور پرنس مفخم جاہ نے بچپن گزارا ہے ۔ راج بھون، نظام کے وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ تھی جہاں کئی تاریخی سیاسی مباحث ہواکرتے تھے ۔ سابق ریاست حیدرآباد کے انڈین یونین میں انضمام کے تعلق سے بھی راج بھون میں ہی غوروخوض کیا گیا۔ چیف منسٹر شہر کے تعلق سے اپنا کچھ نظریہ پیش کرسکتے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخی اور ورثہ عمارتوں کی اہمیت کو بھی پیش نظر رکھاجائے ۔ کئی عمارتیں میٹرو ریل پر اجکٹ کی وجہ سے منہدم کردی گئی ہیں یا پھر منہدم کی جانے والی ہیں ۔ اگر واستو کی وجہ سے سکریٹریٹ کو کسی دوسرے مقام پر منتقل کردیاجائے تو اس کی وجہ سے حکومت پر کہیں زیادہ اخراجات کا بوجھ پڑے گا اور تقریبا150روپے درکار ہوں گے ۔ جس کے بعد نئی سکریٹریٹ کی تعمیر ہوسکے گی ۔1981میں ہیریٹیج کنزرویشن کمیٹی تشکیل دی گئی جو ہدا کے تحت کام کررہی ہے۔ یہ کمیٹی مختلف عمارتوں سے متعلق امور کا جائزہ لے رہی ہے ۔ اس کمیٹی نے160عمارتوں کی فہرست تیار کی ہے جو کہ ورثہ کی اہمیت رکھتی ہیں جبکہ تقریبا70فیصد ورثہ عمارتیں سرکار ی ملکیت کے تحت نہیں ہے اور یہ دوسرے افراد کی ملکیت ہیں ۔

160 Heritage structures in Hyderabad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں