دورِ جدید کے ممتاز نظم گو شاعر سے دہلی میں معصوم مرادآبادی کا لیا ہوا ایک یادگار اِنٹروِیو
بشکریہ: روزنامہ اُردو ٹائمز، ممبئی کا ادبی صفحہ ، اتوار 20۔ نومبر2015
***
اخترالایمان (1915-1996) کا شمار جدید اُردو نظم کے معماروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے شاعری کے علاوہ فلمی دُنیا میں کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کئے۔ سال رواں ان کی پیدائش کی صدی تقریبات کے طور پر منارہے ہیں۔کئی مو ¿قر جریدوں نے اخترالایمان کے صد سالہ یوم پیدائش پر خصوصی گوشے شائع کئے ہیں۔ زیر نظرانٹرویو اُن کی زندگی کے کئی گوشوں کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ انٹرویو فروری 1989 کی ایک سرد صبح کو نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں ریکارڈ کیاگیا تھا اور ادبی انٹرویوز کے میرے مجموعے ’بالمشافہ ‘(اشاعت 1996) میں شامل ہے۔ اخترالایمان کے صد سالہ یوم پیدائش کے حوالے سے قارئین کی دلچسپی کے لئے اس انٹرویو کو شائع کیا جارہاہے۔
٭م ۔م
معصوم مرادآبادی:
عام طور پر کوئی خوبصورت واقعہ یا حادثہ شاعری کا سبب بنتا ہے۔ کیا آپ کی زندگی میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا جس نے شاعری کی طرف آپ کی رہنمائی کی؟
اختر الایمان:
میرے ساتھ جو کچھ ہوا، اسے حادثہ کہہ سکتے ہیں نہ واقعہ۔ ہوا یہ کہ دہلی کی جامع مسجد پر اشفاق نام کا ایک آدمی گا گا کر غزلیں بیچا کرتا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر شاعری یہ کرسکتا ہے تو ہم بھی کرسکتے ہیں۔ اگرچہ ہم نے گا کر نہیں بیچی مگر شاعری شروع کردی۔ اس کے نتائج بعد میں اچھے نکل آئے ۔وہ الگ بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حادثے یا واقعے مجھ سے تخلیقی کام نہیں کراتے۔
سوال:
آپ نے کہا تھا کہ زِندگی نے مجھ سے محبت تو بہت کی لیکن برتاؤ ہمیشہ سوتیلا کیا۔ اس کا کچھ پس منظر بتائیے؟
جواب:
دیکھئے میں خود کو ایک کامیاب آدمی کہہ سکتا ہوں، لیکن ایسا نہیں تھا کہ زندگی نے مجھے آغوش میں لے کر اور کوئی پھولوں کی راہ سجا کردی ہو۔ بلکہ زندگی میں مشکلیں آئیں، دھکے بھی کھائے، کسی نے میری مدد بھی نہیں کی۔ ایسا بھی کوئی آدمی نہیں ہے جس کا نام میں لوں کہ اس نے مجھ پر احسان کیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ زندگی میں بہت سے نشیب و فراز آئے۔ مثلاً فلموں میں گئے تو برسوں کوئی کام نہیں ملا۔ کہیں سے صبح دو روپے مل گئے تو سارا دِن اسی دوڑ دھوپ میں نکل گیا۔ مثلاً شاعری کرنی شروع کی تو چالیس برس تک کسی نے داد ہی نہیں دی۔ کہیں ذکر ہی نہیں کیا۔ کسی نے نام ہی نہیں لیا۔ خواہ وہ نقاد ہوں، صحافی ہوں یا ادیب۔ اسی کو میں سوتیلے پن کا برتاؤ کہتا ہوں۔ جس طرح آج لوگ کہتے ہیں کہ آپ سب سے اچھے شاعر ہیں توسر پر اُٹھالینا چاہیے تھا۔
سوال:
یعنی آپ کو اپنی پذیرائی نہ ہونے کا شکوہ ہے؟
جواب:
نہیں بالکل شکوہ نہیں ہے۔ میں چاہتا بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو۔ اس لئے کہ اگر کوئی میری بہت تعریف کرنے لگے تو مجھے بڑی اُلجھن ہونے لگتی ہے۔ یہ میرا مزاج ہے۔ مَیں مشاعروں میں مصرعے بھی نہیں دُہراتا بلکہ جلدی سے آگے بڑھ جاتا ہوں۔ دیکھئے ایک چیز ہوتی ہے خود احتسابی۔ میں نے جب سے شاعری شروع کی ہے تو مجھے معلوم تھا کہ یہ صحیح ہے اسی لئے لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی اور ذکر بھی نہیں کیا۔ تو میری خود احتسابی ہمیشہ ایسی ہوتی ہے یا مجھ میں خود کو سمجھنا اتنا رہا ہے کہ میں کسی کا انتظار نہیں کرتا کہ وہ مجھے داد دے گا یا میری ستائش کرے گا۔
سوال:
پندرہ برس کی مختصر عمر میں جب آپ نے گھربار چھوڑا تھا تو آپ کے ذہن میں مستقبل کا کیا خاکہ تھا۔؟
جواب:
دیکھئے میں نے مستقبل کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ مستقبل تو وہ لوگ بناتے ہیں جو اچھے درجوں پر ہوتے ہیں۔ جنہوں نے زندگی میں بہت کچھ دیکھا ہو اور خود بھی بڑے آدمی ہوں۔ ہم جیسے لوگ جو پیدا ہوتے ہیں، بڑے ہوتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ وہ خود کبھی پلاننگ نہیں کرتے بلکہ ان کا یہ کام خود زندگی کرتی ہے اور انہیں انگلی پکڑ کر لے جاتی ہے اِدھر چلو یااُدھر چلو۔ اگر میں آپ کو اپنی زندگی کی کہانی سناؤں تو اس میں کہیں پلاننگ ہے ہی نہیں۔ میرے والد مولوی، حافظ، قاری اور امام تھے۔ پنجاب کی مسجدوں میں امامت کیا کرتے تھے۔ میں بھی وہیں رہ کر قرآن حفظ کیا کرتا تھا۔ اس کے بعد یہاں سے وہاں مختلف جگہوں پر پھرتے رہے۔ ایک جگہ جاکر انہوں نے وہ کام چھوڑ دیا اور میونسپلٹی میں ملازمت کرنے لگے۔ اس کے بعد ہم انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ چونکہ وہ ذرا سخت طبیعت کے تھے۔ اس کے بعد ہم دہلی آگئے، یتیم خانے میں چلے گئے۔ پھر ریفامیٹری میں گئے ۔ اس میں پلاننگ کہاں ہے۔ زندگی جہاں لے گئی وہاں چلے گئے۔ یتیم خانے میں لے گئی وہاں چلے گئے۔ ریفارمیٹری میں لے گئی وہاں چلے گئے۔
سوال:
کیا آپ کے والد اپنی طرح آپ کو مولوی اور امام بنانا چاہتے تھے؟
جواب:
جی ہاں! ہمارے باپ یہ چاہتے تھے کہ ہم بھی ان کی طرح مسجد میں نماز پڑھائیں، لیکن ہمارے لئے زندگی نے جو کچھ پلان کر رکھاتھا وہ تو یہ نہیں تھا۔ ہم نے یہ تھوڑی سوچا تھا کہ ہم شاعری کریں گے۔ یتیم خانہ سے نکلے تو پڑھنے لگے۔ حالانکہ اس کا بھی کوئی امکان نہیں تھا۔ اس لئے کہ فیس کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ دہلی کے فتحپوری اسکول میں گئے۔ ہیڈ ماسٹر سے کہا کہ ہمیں پڑھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آجاؤ فیس معاف کردیتے ہیں، لیکن ساڑھے تین آنے گیم کی فیس ہے، وہ معاف نہیں کریں گے۔ اس کے لئے پھر ہم ٹیوشن کرنے لگے۔ اس کے بعد دِلّی کالج گئے، وہاں کا پرنسپل ایک انگریز تھا۔ ہم نے اُن سے کہا کہ ہمیں پڑھنا ہے، لیکن فیس کے پیسے نہیں ہیں۔ پرنسپل نے ہمارے اُستاد آفتاب صاحب اور مرزا محمود بیگ صاحب سے کہا کہ دیکھو یہ پڑھنا چاہتا ہے تم کسی طرح اس کی مدد کرو۔ بعد کو دونوں اُستاد محبت سے پیش آئے اور انہوں نے مدد کی۔ آفتاب صاحب نے میری بہت مدد کی، مثلاً یہ کہ مجھے کالج سے نکال دِیا جانا چاہیے تھا چونکہ میرے اوپر ایک لااُبالی پَن کا دور آیا جب میں شراب پی کر کلاس میں جایا کرتا تھا۔
سوال:
کیا آپ نے اتنی کم عمری ہی میں شراب پینا شروع کردی تھی؟
جواب:
عمر تو میری بہت ہے، میں سمجھتا ہوں کہ کئی سو سال سے زندہ ہوں۔ میں اس حالت میں کلاس میں ہوتا اور وہ دیکھ لیتے تو کلاس چھوڑ دیتے تھے کہ آؤ کمرے میں بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ پھر کہتے تھے سناؤ تم نے کچھ نیا کہا ہے اور اس طرح وہ باتیں کرتے اور نظمیں سنتے رہتے تھے۔ اس کے بعد کہتے تھے کہ اب جاؤ کل سے ٹھیک طرح کلاس میں آنا۔
سوال:
آپ کے مجموعوں ’گرداب‘ سے ’بنتِ لمحات‘ تک’ وقت‘ آپ کی نظموں کا خاص محور ہے، اس کا کیا سبب ہے؟
جواب:
اس لئے کہ وقت ہی تو چیزوں کا فیصلہ کرتا ہے۔ وقت ہی آپ کو جو کچھ لیتا یا دیتا ہے بناتا یا بگاڑتا ہے۔ وہ ایک ایسا عنصر ہے جسے آپ خدا بھی کہہ سکتے ہیں۔ پروردگار بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن میں اس کے لئے وقت کو زیادہ صحیح لفظ سمجھتا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں کہ تقدیر یا قسمت کچھ ہے کہ نہیں، مگر چیزوں کو مٹانے، بگاڑنے یا سنوارنے میں وقت کا بڑا اہم ہاتھ ہے۔ وہ بڑا اہم کردار اداکرتا ہے۔
سوال:
آپ کی نظموں میں شدت اظہار کے ساتھ شدت الفاظ بھی بہت ہے اور آپ عربی وفارسی کے مشکل الفاظ کو بڑی چابکدستی سے استعمال کرتے ہیں؟
جواب:
یہ صحیح ہے کہ عربی فارسی کے الفاظ میرے یہاں بہت ہوتے ہیں لیکن وہ عربی فارسی کے نہیں بلکہ خالصتاً اُردو کے لفظ ہیں۔ اس لئے کہ اگر کسی عرب سے ان کا مفہوم پوچھا جائے تو میں نے انہیں جن معنوں میں استعمال کیا ہے، عرب انہیں ان معنوں میں استعمال نہیں کرتا۔ فارسی کے لفظ جس طرح اُردو میں استعمال ہوتے ہیں وہ اسی طرح فارسی میں استعمال نہیں ہوتے۔ یہ الفاظ عربی فارسی سے ضرور آئے ہیں، لیکن یہ عربی فارسی کے نہیں بلکہ اُردو کے الفاظ ہیں۔
سوال:
1944 میں جب آپ فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے تو اس وقت اس لائن کو بڑا معیوب سمجھا جاتا تھا؟
جواب:
میں نے تو سارے ہی کام معیوب کئے ہیں۔ شاعری کو کون سا بہت اچھا کام سمجھا جاتا تھا۔ ہم نے اب تک ایسا کوئی کام ہی نہیں کیا جو لوگوں کو پسند ہو۔ بزرگ جب یہ سنتے تھے کہ یہ لڑکا شاعر ہے تو پٹائی کرتے تھے اور کپڑے اُتار کر ننگا چھوڑ دیتے تھے۔
سوال:
ایک مولوی زادہ ہونے کے ناطے فلمی دُنیا کی طرف جاتے ہوئے کہیں آپ کے قدم لڑکھڑائے ہوں یا کسی چیز نے آپ کو پیچھے کی طرف کھینچا ہو؟
جواب:
کھینچتا کون؟ خود کو میں نے کسی کو پکڑنے ہی نہیں دیا۔ کسی کو ہاتھ ہی نہیں لگانے دیا۔ اپنی نظم ”سبزہ ¿ بیگانہ“ کی طرح ہمیشہ سبزہ بیگانہ رہا اور کسی کے ہاتھ ہی نہیں آیا۔
سوال:
آپ نے اپنی نظموں ایک لڑکا، یادیں اور باز آمد میں دیہی زِندگی کے مختلف پہلوؤں کو بڑی خوبی اور چابکدستی سے پرویا ہے۔ کیا آپ نے ان کے ذریعے آج کی مسموم فضا اور مصنوعی ماحول کے پس منظر میں فطرت کی معصومیت کو برقرار رکھنے اور ایک طرح سے ذہنی پناہ ڈھونڈھنے کی کوشش کی ہے؟
جواب:
ایسی بات تو نہیں ہے لیکن جب مجھے کوئی موضوع ایسا لگتا ہے کہ یہ بات کہنی چاہیے یا مجھے کوئی بات ذہنی طور پر پریشان کرتی ہے تو اسے کاغذ پر لے آتا ہوں۔ پناہ کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ آپ اس کے سائے میں بیٹھ گئے اور آگے نہیں گئے۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ پناہ نہیں بلکہ اظہار ہے اور اس وقت کی جو میری ذہنی پریشانیاں ہیں یا جو مسئلے میرے سامنے پیدا ہوئے ان سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔
سوال:
آپ کی اکثر نظموں میں ایک ڈرامائی کیفیت ملتی ہے۔ انہیں پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ اسٹیج پر واقع ہورہا ہے اور پھر نظم کے آخری بند یا مصرعے پر یک لخت پردہ گرنے کا احساس ہوتا ہے۔ یہ ڈرامائی عناصر آپ کی نظموں میں کیسے آئے؟
جواب:
اس کا تعلق میرے مزاج سے ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی تاثر پیدا کرنے کے لئے یہ ضروری بھی ہوگا اور یہ لکھنے کا ایک انداز بھی ہے۔
سوال:
کیا یہ فلم کا اثر ہے؟
جواب:
فلم کا بھی اثر ہوسکتا ہے لیکن یہ تو شروع سے ہے۔ کوئی نیا نہیں ہے۔ جب میں نے اپنی نظم ’موت‘ کہی تھی تو میں فلم میں نہیں تھا بلکہ یہاں دہلی میں پڑھتا تھا۔ مگر وہ پوری ڈرامائی نظم ہے۔ اس لئے یہ شروع ہی سے میرے مزاج کا خاصہ ہے۔
سوال:
ہند میں اُردو کی صورتحال پر آپ کا کیا تبصرہ ہے؟
جواب:
میں سنتا تو ہوں کہ اُردو روبہ زوال ہے۔ پڑھائی نہیں جاتی لیکن مجھ پر تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، میں تو شاعری کررہا ہوں اور لوگ سننے بھی آتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی آج شاید لوگ اسے کم پڑھتے ہوں گے۔ کل زیادہ پڑھنے لگیں گے اور حالات بہتر ہوجائیں گے۔
سوال:
لیکن بظاہر اس کے امکانات نظر نہیں آتے؟
جواب:
امکانات تو وہ لوگ پیدا کریں گے جن کی زبان ہے اور انہیں پر اس کی ذمہ داری ہے۔ رسول اللہ کے دادا عبدالمطلب کا لطیفہ ہے کہ جب ابرہا نے مکہ پر حملہ کیا تو ان کے اونٹ پکڑ لئے گئے۔ عبدالمطلب ابرہا کے پاس گئے کہ میرے اونٹ چھوڑ دو۔ ابرہا نے کہا کہ میں تو سمجھتا تھا کہ تم کعبے کے متولی ہو اس لئے کعبہ کے لئے آؤ گے کہ’ اس پر حملہ مت کرو۔‘ انہوں نے کہا کہ کعبہ تو اللہ کا ہے، وہ اس کی حفاظت خود کرے گا۔ زبان تو قوم کی ہے۔ شاعری میری ہے۔ اپنی حد تک میں کوشش کرتا ہوں، باقی اردو پڑھنے، لکھنے، بولنے والوں کا کام ہے۔
***
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی |
An interview with urdu poet Akhtar ul Iman. - Interviewer: Masoom moradabadi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں