تذکرۂ شعرائے کانپور - ایک اہم کتاب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-11-22

تذکرۂ شعرائے کانپور - ایک اہم کتاب


تذکروں کی ادب میں بڑی اہمیت ہے اور خواص و عوام میں یہ دلچسپی سے پڑھے بھی جاتے ہیں۔ اس وقت سلیم عنایتی اور فاروق جائسی کامرتب کردہ 346 صفحات پر مشتمل " تذکرۂ شعرائے کانپور" ہمارے ہاتھوں میں ہے۔
کانپور ہندوستان کے چند ممتاز اور اہم شہروں میں سے ایک ہے ۔ اس کی اپنی ایک تاریخ ہے، جدوجہد آزادی میں بھی اس شہر کے لوگوں کا نمایاں کردار رہا ہے۔ اسی کانپور کے حوالے سے ہمیں ایک کتاب " شہر ادب کانپور "کراچی میں دی گئی تھی۔ جہاں تک ہماری ناقص معلومات ہے سید سعید احمد کی یہ کتاب کانپور کے حوالے سے اپنی نوعیت اور اپنے موضوع پر اوّلین پیش کش تھی۔ جس میں صرف ادب ہی نہیں سماجی ، سیاسی ، صحافتی اورتعلیمی خدمات کا بھی تذکرہ کیا گیا تھا ۔
پیشِ نظر کتاب صرف شعرا کے حوالے سے ہے جس میں خاصی محنت سے موضوع پر کام کیا گیا ہے۔شعرا کے کوائف اور ان کے حالات وغیرہ ہی نہیں تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔
اس کتاب میں اُن کا تذکرہ بھی ہے جنہوں نے کچھ مدت کانپور میں گزاری ہے۔ اُن میں ادب کے مشاہیر بھی ہیں اور بعض وہ لوگ بھی جو مشہور تو نہیں ہیں مگر اُنکی اپنی ایک اہمیت ہے۔ کتاب کا پیش لفظ بھی خاصے کی چیز ہے۔ جس میں کئی باتیں ایسی ہیں جو ہماری نئی نسل کےلئے بڑی کار آمد ثابت ہوں گی۔ یہ تحریر سرسری چیز نہیں بلکہ اسے پڑھنے کے بعد اس کا احساس ہوتا ہے کہ محرر نے بہت کچھ پڑھنے کے بعد اسے رقم کیا ہے۔
یہ تذکرہ جہاں کتابِ ماضی کے اوراق ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے تو وہیں حال کے شعرا بھی اس میں اپنے اپنے محاسن کے ساتھ جلوہ بنے ہوئے ہیں۔ نئی نسل کو اسی کتاب سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ اُردو کے ممتاز شاعر مولانا فضل الحسن حسرت موہانی نے جب امتیازی طور پر ہائی اسکول پاس کیا تو گزٹ میں ان کا نام دیکھ کر سر ضیاءالدین نے اُن کو علیگڑھ مسلم یونی ورسٹی بلا لیا اور اسی یونی ورسٹی سے حسرت نے 1903ء میں گریجوشین کیا۔

کانپور کے ایک ممتاز تاجر حافظ محمد صدیق ہم نے جن کا صرف نام سن رکھا تھا اسی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ ان کا یہ مصرعہ
"جب تک رہے زمیں پَہ تہِ آسماں رہے"
ہمارے حافظے میں تو تھا مگر اس کا پتہ نہیں تھا کہ اس کے خالق صدیق کانپوری ہیں۔ حافظ صدیق کی ،علم وادب سے کس قدر دلچسپی رہی ہوگی کہ اُس زمانے میں انجمن ترقئ اُردو کو اُنہوں نے 25 ہزار وپے کا عطیہ دیا اور ایک بار نہیں۔ اسی طرح کانپور کی مشہور درس گاہ جو صدیق فیض عام انٹر کالج اور صدیق نسواں کالج کے طور پر مشہور ہیں وہ انہی حضرتِ صدیق کے جذبۂ خیر کی یادگارہیں۔ ہمیں اس کتاب ہی سے پتہ چلتا ہے کہ حافظ صدیق کانپور بلدیہ کے دس برس سے زائد مدت تک وائس چیرمین رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک زود گو اور قادر الکلام شاعر کے طور پر بھی ممتاز تھے۔ اس طرح کے تذکرے لکھنا ہر گز آسان نہیں اور اس میں کسی عام اور کسی خاص شخص کا ذکررہ جانا بھی عجب نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلے میں ہمارا تو خیال ہے مرتبین نے بسم اللہ کی ہے اب جو چا ہے ختم ِقرآن کر دے۔ہم سلیم عنایتی اور فاروق جائسی کو اس کام پر مبارک باد دیتے ہیں کہ انہوں نے ایک تاریخ کو کتاب بنا دیا ہے۔
اس تذکرے کو پڑھتے ہوئے ایک لفظ پر ہماری نگاہ ٹھہر گئی تومحسوس ہوا کہ حضرتِ کوثر جائسی مسکرا رہے ہیں اور کہہ رہے کہ :
" میاں! ہمارے زمانے میں لوگوں کو "اعتبار" ملتا تھا اور اب اگر " معتبریت" مل رہی ہے توآپ کو کیوں پریشانی ہے۔ کیا آپ محسوسیت، تحریکیت، فریبیت اور پیداواریت نہیں پڑھ رہے ہیں۔؟ ظاہر ہے شریف آدمی ایسی باتوں پر خموش ہوجاتا ہے، لہٰذا آپ بھی خموش رہیے ورنہ تو پھر آپ جانیں اور آپ کی 'لفاظی' !!"
ہم کانپور کے اپنے اس بزرگ کو کیا جواب دے سکتے تھے، لہٰذاچپ ہو کر رہ گئے۔ آپ بھی چپ رہیے ۔

کتاب تین سو روپے میں حاصل کی جاسکتی ہے۔
رابطے کے لئے
فاروق جائسی (کانپور)
موبائیل نمبر : 09839375197

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

A book on Urdu poets of Kanpur. Reviewer: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں