مادی ترقی نے مہذب انسان کے لئے بے شمار ساز و سامان فراہم کر دئے ہیں اور جن میں سامان کم اور ساز زیادہ نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔ اور جو اکثر بے سرے ثابت ہورہے ہیں جس سے معیشت کی حالت اور مہذب انسان کی طبیعت نا ساز رہتی ہے ۔۔۔۔۔ سامان تو سو برس کا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ پل کی خبر نہیں ہے۔۔۔۔ جو پہلے کبھی کچھ کچھ ہوا کرتی تھی ۔۔۔اب تو سب کو پتہ نہیں کیا کچھ ہوتا چلا جارہا ہے۔۔۔۔۔ آخری پل کی خبر گیری لوگ کبھی کیا کرتے تھے اور ترجیحات میں اس کا نمبر اول نہ سہی لیکن آخری بھی نہ ہوا کرتا تھا۔۔۔۔ لیکن اب تو یہ عالم ہے کہ ترجیحات کی فہرست سے آخری پل ہی غائب ہے۔۔ کم از کم اسے ترجیحات کی فہرست کے آخر میں ہی رکھ دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔۔۔۔۔پتہ نہیں لوگ اپنی زندگی کے کلائمکس سین پر غور کیوں نہیں کرتے۔۔۔ جبکہ فلمی دنیا کا جادو ساری دنیا پر سر چڑھ کر بولتا ہے ۔۔۔۔جہاں سب کچھ کلائمکس پر منحصر ہوتا ہے۔۔۔جبکہ درمیان میں کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔یہی حال فلمی حضرات کا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔جنہیں مہذب نسل اپنا مستقبل سمجھتی ہے۔۔ ۔۔جو اہل دانش کی صف میں اب شمار ہوتے ہیں۔۔۔اور اہل سیاست کے مصاحب بننے میں جنہیں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔ کیا کیجیے گا کہ کچھ اہل دانش بھی تو اب انکی صف میں بخوشی شامل ہوکر شیر و شکر ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔۔ خیر اب مہذب انسان کرے بھی تو کیا ۔۔۔۔۔۔ اگر نو جوان ہے تو ستم ہائے روزگار اور پختہ عمر ہے تو سر گرم نالہ ہائے شرر رہتا ہے۔۔۔۔۔ شوہر حضرات کی ترجیحات کو ہی لے لیں۔۔ جس میں بیگمات کس نمبر پر ہیں کسے پتہ۔۔۔ان کا نمبر ہی لا پتہ ہوتا ہے اور جس کا شکوہ ہر ایک نیک بخت کو رہتا ہے کہ جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا ۔۔۔۔۔ادب نے بھی بیگمات کو پکارنے میں کسقدر سخاوت کا مظاہرہ کیا ہے اور بے شمار ترجیحات پیش کی ہیں۔۔۔ اور ان میں رفیق حیات، نصف بہتر جو نصف بد تر کی ضد واقع ہوئی ہے، نیز نیک بخت کہنے کا چلن بھی عام رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ انہیں نیک اور خود کو خوش بخت سمجھ سمجھ کر ہی شوہر نامدار اور بے نام اپنی زندگی گزار دیا کرتے تھے۔۔۔۔۔ لیکن اب ترجیحات بدل گئیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔اور فہرست بھی طویل ہوگئی ہے۔۔ بیگمات کی اپنی اور شوہر حضرات کی اپنی ۔۔۔۔۔۔۔کچھ اسی طرح والدین کی ترجیحات پر غور فرمائیں تو پتہ چلے کہ انکی ترجیحات میں اولاد کس نمبر پر ہے، جبکہ ترجیحات میں تہوار اور رسومات اول نمبر پر ہوتے ہیں اور انکو فرائض کا درجہ دے دیا گیا ہے۔۔۔۔۔ اور اس کے علاوہ ، کھانا پینا، روزگار، ٹی وی، موبائیل کی ترجیحات ۔۔۔۔ لیکن ان سب سے سوا بلوں اور قرضہ کی ادائیگی کی ترجیحات۔۔۔۔کس کو دیں اور کس کو نہ دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بر سر روزگار مہذب انسان کی ترجیحات میں کچھ ہو یا نہ ہو ایک گھرسر فہرست تا عمر رہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اسکے علاوہ گر کچھ اور رہتا ہے تو ٹرین اور بس کے پاس کے علاوہ موبائیل بل کی تجدید کا تخمینہ۔۔۔۔۔۔یعنی ترجیحات میں تجدید وفا ہو یا نہ ہو مصنوعات کی تجدید ضرور ہوگی۔۔۔۔۔۔اور جو کبھی وفا نہیں کرتی اور مسلسل تجدید کی پابند بنا کر رکھ دیتی ہے۔۔۔۔ بے روزگار حضرات کی ترجیحات میں صرف اور صرف موبائیل ریچارج اور اگر تعلیم یافتہ بھی ہے تو ادھار کا اخبار بھی شامل ہوگا۔۔۔۔دولتمند فارغ البال والحال حضرات کا المیہ یہ ہے کہ انکی ترجیحات کی فہرست اتنی طویل ہوتی ہے کہ ساری دنیا کم پڑتی ہے ۔۔۔۔۔۔ ہاتھوں سے چھوٹی جو جاتی ہے۔۔اور ان ترجیحات میں اول نمبر پر دو عالم کی سیر۔۔۔جس میں با قید حیات عالم بالا کی سیر بھی شامل ہے ۔۔۔۔۔ان میں دولتمند خواتین کی ترجیحات میں سماجی ملاقاتوں اور باتوں کی طویل فہرست بھی ہوتی ہے جو اب بالمشافه ملاقات کی محتاج نہیں رہی کہ اب چلتی پھرتی محفلوں کا چالان عام ہو گیا ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔ جہاں اب یہ خوف نہیں رہتا کہ کوئی ان سے کہے ۔۔۔ آپ پہلو میں جو بیٹھیں تو سنبھل کر بیٹھیں۔۔۔۔۔ایسے نظارے خاصکر مغرب میں دیکھنے لائق ہوتے ہیں۔۔۔ جبکہ مشرق میں اس ذوق و شوق کو ابھی ابھی ہوا لگی ہے ۔۔۔اور ابھی دامن تک نہیں پہنچی ہے ۔۔۔۔دامن داغ داغ ضرور ہے لیکن آگ آگ نہیں ۔۔۔
مہذب انسان کی ایک قسم ایسی بھی ہے جس پر قلم اٹھانے سے پہلے محرر کو اپنی ترجیحات پر سو بارغور کرنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ جسے عام فہم میں لیڈر کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔ ادب کے پاس انکی تعریف میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ۔۔۔۔سادگی پر انکی مرجانے کی حسرت دل میں ہے ۔۔۔۔۔بس نہیں چلتا کہ، پھر خنجر کف قاتل میں ہے۔۔۔۔۔سیاست دانوں کی ترجیحات کی بات کریں تو بات دور تک جائیگی۔۔۔۔۔۔۔اتنی دور کے واپسی ہی ممکن نہ ہو۔۔۔۔۔ یقین نہ آتا ہو تو ہندوستان میں بہار الکشن میں سیاستدانوں کی ترجیحات پر غور کر کے دیکھ لیں ۔۔۔۔۔امریکہ میں ہیلری کلنٹن کی ترجیحات دیکھ لیں۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں عمران خان کی اور نواز شریف کی۔۔۔۔۔ لندن میں کیمرون کی۔۔۔۔۔۔ چھوٹے سے میانمار میں سوچی بیگم کی ترجیحات دیکھ لیں۔۔۔۔اور ان سب سے الگ مودی راجہ کی ترجیحات پر غور فرمائیں تو پتہ چلے گا۔۔۔۔۔ترجیحات کہتے کسے ہیں۔۔۔عدم تحمل ہو یا عدم اعتماد یا عدم تعاون ۔۔۔سب کچھ ملک عدم کا عکاس نظر آتا ہے ۔۔۔۔چلتے چلتے جمہوریت عوام کی جملہ ترجیحات کا ذکر بھی کرتے چلیں کہ وہ اپنے اپنے رہنماؤں کے اعمال دیکھ دیکھ کر یہی کہتی ہے کہ ۔۔۔۔۔ وفا کیسی، کہاں کا عشق؟ جب سر پھوڑنا ٹہرا۔۔۔۔۔۔تو پھر اے سنگ دل! تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو۔۔۔۔اور بس بے چاری ہر بار اپنی ترجیحات بدلتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔لیکن سر پھوڑنا نہیں چھوڑتی جو انکی ترجیحات میں سر فہرست ہے۔۔۔۔
***
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com
The Preferences. Article: Zubair H Shaikh
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں