پی ٹی آئی
صدر کانگریس سونیا گاندھی نے ملک میں عدم رواداری کے حوالہ سے حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے الزام عائد کیا کہ دستور ہند کے اصول و امثال خطرات کے حصار میں ہیں اور ان پر عمدا ً حملہ ہورہا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دستوری عقائد سے دو ر اتفادہ افراد کے علاوہ اب ایسے تمام افراد بھی اس کی قسمیں کھارہے ہیں جن کا آئین کا مسودہ مرتب کرنے میں کوئی رول نہیں رہا ۔ وہ لوگ اب دستور کا پابند ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں جنہوں ںے کبھی اس پر یقین اور اعتبار کا اظہار بھی نہیں کیا ۔ آج ایسے ہی تمام افراد اس پر بحث کررہے ہیں اور اس کے پابند ہونے کا عہد بھی کیاجارہا ہے ۔ اس سے بڑا مذاق بھلا اور کیا ہوسکتا ہے ؟ لوک سبھا میں پابندی دستور ہند کے موضوع پر بحث کے دوران سونیا گاندھی نے بی جے پی پر حملہ کی ایک موثر راہ تلاش کرلی۔ وہ اس نکتہ پر بھی اٹل رہیں کہ ملک کے طول و عرض میں گزشتہ چند ماہ کے دوران جو دلخراش واقعات رونما ہوئے ہیں وہ دستوری اصول کے مغائر ہیں ۔ انہوں نے جدو جہد آزادی اور آئین سازی( دستور ہند کے مسودہ کی تدوین و ترتیب) میں کانگریس کی خدمات کو اجاگر کرتے ہوئے موجودہ حکومت کی نکتہ چینی کے دوران امبیڈ کر کے انتباہ کی یاددہانی بھی کرائی۔ انہوں نے کہا کہ امبیڈ کر نے کیا خوب کہا تھا کہ آئین و دستور جتنے بھی اچھے ہوں اگر ان کا نفاذ عمل میں لانے والے لوگ برے اور بد نیتی کے حامل ہوں تو اس کے اثرات بھی بلا شبہ برے ہی ہوں گے ۔ بی جے پی، امبیڈ کر کے وصیت کردہ عطیہ اور ورثہ کو غصب کرنے کوشاں ہے اور ایسے حالات میں سونیا گاندھی نے دستور ہند کے مسودہ کی تد وین میں کانگریس کی بے بہا خدمات کی ستائش کی بھی یاددہانی کرائی جس کا اعتراف خود امبیڈ کر نے بھی خصوصی طور پر کیا تھا ۔ انہوں نے پس پردہ الفاظ میں یہ بھی واضح کردیا کہ صرف کانگریس ہی اس پر دعویٰ کی مستحق ہے ۔ انہوں نے امبیڈکرکے الفاظ دہراتے ہوئے کہا کہ مجھے آئین سازی کمیٹی کا صدر نشین منتخب کیا گیا ہے اور میں اس انتخاب پر حیرت زدہ ہوں جب کہ کمیٹی میں مجھ سے بھی زیادہ تعلیم یافتہ ، قابل اور بہتر افراد موجود ہیں۔ ڈرافٹنگ کمیٹی( مسودہ ساز کمیٹی) دستور کی ہر دفعہ میں مکمل اطلاعات فراہم کرنے میں صرف اور صرف کانگریس کی خدمات اور اس کی رہنمائی کے سبب کامیاب رہی۔ صدر کانگریس نے یہ بھی کہا کہ کانگریس پارٹی ملک کی واحد سیاسی جماعت تھی جو امبیڈ کر کی بے مثال ہنر مندی اور صلاحیتوں کی شناخت کرسکی جو امریکہ ، برطانیہ اور جرمنی میں اعلیٰ تعلیم سے فارغ ہوکر وطن لوٹے تھے ۔ انہوں نے سیاسی نظریات اور معاشیات کی نہ صرف ڈگریاں حاصل کی تھیں بلکہ درج فہرست ذاتوں ، پسماندہ اور مظلوم افراد کے کاز کے لئے بھی خود کو وقف کر رکھا تھا ۔ انہوں نے یا ددہانی کرائی کہ26نومبر1949ء کی صبح دستور ہند با ضابطہ طور پر نافذ العمل ہوا تو ڈاکٹر راجندر پرساد نے ان الفاظ میں امبیڈ کر کی ستائش کی کہ ڈرافٹنگ کمیٹی کا صدر امبیڈ کر سے بہتر کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا ۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے ورثہ پر حملوں کے دوران صدر کانگریس سونیا گاندھی نے تاریخ کے اوراق کے حوالہ سے کہا کہ ڈرافٹنگ کمیٹی کی رہنمائی صرف4مستقل مزاجوں اور ہند مندوں نے کیا جو پر عزم تھا ۔ ان چار دانشوروں میں پنڈت جواہر لال نہرو بھی شامل تھے۔ مابقی افراد میں مولانا ابوالکلام آزاد ، سردار پٹیل اور ڈاکٹر راجندر پرساد شامل تھے ۔ انہوں نے ڈرافٹنگ کی8کمیٹیوں کے حوالہ سے بتایا کہ اس کے صدر نشین نہرو، پٹیل اور پرساد رہے۔ آزاد ان میں سے پانچ کمیٹیوں کے ممتاز رکن رہے ۔ دستور ہند کی تاریخ بہت قدیم ہے اور اس کا ایک سرا ملک کی جد وجہد آزادی سے مربوط ہے جس کے سبب اس کا تعلق کانگریس سے ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کانگریس نے مارچ1931ء میں کراچی میں نہرو کی زیر قیادت بنیادی اور معاشی حقوق سے متعلق ایک قرار داد پیش کی تھی ۔ اس پر جب چند بی جے پی ارکان نے احتجاج شروع کیا تو انہوں نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ وہ کہہ رہی ہیں وہ تاریخ کے حوالہ سے ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں جتا سکتا ۔ انہوں نے اس نکتہ کو بھی اجاگر کیا کہ بلاشبہ دستور میں ہر کس و ناکس اور ملک کے سیکولر اقدار کے حق میں آواز اٹھانے کا سب کو مساوی حقوق حاصل ہیں جس کے سبب جمہوریت میں ہر ایک کو نمائندگی کا حق حاصل ہے ۔ علا وہ ازیں اسی کے سبب حکومت بھی احتساب کے عمل کے دائرہ میں آتی ہے۔ دستور ہند کی عظمت کی ستائش کرتے ہوئے صدر کانگریس نے یہ بھی کہا کہ تمام ہنر مند اور دانشور، دستور کی تدوین و ترتیب میں مکمل طو رپر متفق تھے اور اس کی مثال دنیا میں بہت کم ملتی ہے ۔ ہمارے دستور میں نہ صرف لچک کی گنجائش رکھی گئی ہے بلکہ اس میں حالات کی مناسبت سے تقریبا100ترامیم ہوچکی ہیں۔
Constitution's ideals, principles under threat: Sonia Gandhi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں