تو ایک سچ ہمارا سن نہ سکا ۔۔۔ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-11-25

تو ایک سچ ہمارا سن نہ سکا ۔۔۔

عامر خان کے انٹرویو پر ملک بھر میں ہنگامہ مچا ہوا ہے اور ہنگامہ کرنے والے وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ملک میں عدم تحمل کہیں نہیں ہے ۔ پھر وہ یہ انٹر ویوکیوں برداشت نہیں کررہے ہیں؟

جب ہم نے ایک معاصر انگریزی اخبار میں عامر خان کا انٹر ویو پڑھا جو انہوں نے ایک صحافتی ایوارڈ کی تقریب میں مختلف میڈیا ہاؤس اور اشاعتی اداروں سے وابستہ صحافیوں کے مختلف سوالات کے جواب میں دیا تھا تو ان کی سوجھ بوجھ اور نپے تلے انداز گفتگو پر داد دینے کے علاوہ یہ بھی محسوس کیا تھا کہ ان کے انٹر ویو سے ایک دو جملے نکال کر فرقہ پرست ان پر ہنگامہ مچا سکتے ہیں اور یہ خدشہ درست ثابت ہوا ۔ دفتر پہنچنے تک اس طرح کی خبریں موصول ہونے لگیں کہ عامر خان کے انٹر ویو پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے اور سوشل میڈیا سے لے کر گلی کوچوں تک ان کے خلاف احتجاج جاری ہے۔حالانکہ ذرا سی سمجھ رکھنے والا کوئی بھی شخص اگر ان کے انٹر ویو کو دیکھ لے یا پڑھ لے تو ان کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ ان سے انڈین ایکسپریس کے سربراہ اننت گوینکا نے ملک میں جاری عدم حمل کے واقعات سے متعلق سوال کیا تھا ۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا تھا”کرن (ان کی بیوی)اور میں نے اپنی ساری زندگی ہندوستان میں گزاردی لیکن گزشتہ دنوں زندگی میں پہلی بار کرن نے مجھ سے کہا کیا ہمیں ہندوستان چھوڑ دینا چاہئے؟ یہ کرن کے لئے سب سے بڑی اور سب سے خوفناک تھی جو اس نے مجھ سے اب تک کی تھی۔ وہ اپنے بچوں کے لئے فکر مند ہے ، وہ اس ماحول سے خوفزدہ ہے جو ہمارے آس پاس پیدا ہورہا ہے ۔ روزانہ اخبار کھولنے سے ڈرتی ہے ۔ ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اطراف میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے ۔ اب جو لوگ عامر کے خلاف ہنگامہ کررہے ہیں ان سے یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ ملک چھوڑ کر جانے کی بات عامر نے نہیں بلکہ ان کی بیوی کرن نے کی ہے جو کہ ہندو ہیں( یہ لکھنا یہاں مناسب نہیں ہے لیکن ضروری ہے) تو اس پر بھی وہ عامر پر غصہ کیوں اتار رہے ہیں ۔ اور اگر احتجاج کرنے والوں کے مطابق واقعی ملک میں عدم برداشت کا ماحول نہیں ہے تو پھر وہ عامر کے انٹر ویو کو برداشت کیوں نہیں کررہے ہیں؟ وہ عامر کے خلاف ہنگامہ کرنے کے بجائے ان کے پاس جاکر انہیں سمجھاتے کیوں نہیں کہ انہیں اور ان کی بیوی بچوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ، وہ یہاں محفوظ ہیں۔ درا صل احتجاج کرنے والوں نے اپنی حرکتوں سے عامر کی بیوی کے خوف کو مزید پختہ کردیا ہے ۔ عامر سے اگلا سوال یہ کیا گیا کہ ملک بھر میں ادیبوں، فن کاروں اور سائنسدانوں کی جانب سے ایوارڈ واپس کرنے کا سلسلہ جاری ہے اس پر وہ کیا رائے رکھتے ہیں تو اس سنجیدہ اور پروفیکشنسٹ( کمال پرست) اداکار نے کہا تخلیق کاروں کے لئے ضروری یہ ہے کہ وہ جو کچھ محسوس کرتے ہیں اسے آواز عطا کریں ۔ متعدد تخلیق کاروں کو ایک مخصوص احساس نے گھیر لیا ہے ۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ اس احساس کو ظاہر کریں ۔ اپنی بے اطمینانی یا مایوسی کے اظہار کے لئے وہ مختلف راستوں میں سے کسی ایک رراستے کو اختیار کرسکتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایوارڈ واپس کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں؟تو انہوں نے کہا تھا کہ وہ ہر اس احتجاج کی حمایت کرتے ہیں جو عدم تشدد کے راستے پر چلتے ہوئے کیا جائے ۔ ان کے الفاظ تھے ۔ جب تک آپ تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرتے تو آپ کو احتجاج کا حق ہے ۔ ہر فرد کو احتجاج کا حق حاصل ہے اور وہ اس کے لئے وہ راستہ اختیار کرسکتا ہے جو اسے مناسب لگے ۔ اور یقینی طور پر یہ (ایوارڈ کی واپسی) تخلیق کاروں کو مناسب راستہ لگا ہوگا۔ شاید یہی وہ جواب ہے جس کے سبب سب سے زیادہ ہنگامہ ہورہا ہے ۔ دراصل ایوارڈ واپس کرنے تخلیق کاروں کو ایک مخصوص احساس نے گھیر لیا ہے ۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ اس احساس کو ظاہر کریں ۔ اپنی بے اطمینانی یا مایوسی کے اظہار کے لئے وہ مختلف راستوں میں سے کسی ایک راستے کو اختیار کرسکتے ہیں ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایوارڈ واپس کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا تھا کہ وہ ہر اس احتجاج کی حمایت کرتے ہیں جو عدم تشدد کے راستے پر چلتے ہوئے کیاجائے ۔ ان کے الفاظ تھے ۔ جب تک آپ تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرتے تو آپ کو احتجاج کا حق ہے ۔ ہر فرد کو احتجاج کا حق حاصل ہے اور وہ اس کے لئے وہ راستہ اختیار کرسکتا ہے جو اسے مناسب لگے ۔ اور یقینی طور پر یہ(ایوارڈ کی واپسی) تخلیق کاروں کو مناسب راستہ لگا ہوگا۔ شاید یہی وہ جواب ہے جس کے سبب سب سے زیادہ ہنگامہ ہورہا ہے ۔ دراصل ایوارڈ واپس کرنے والے فنک کاروں اور سائنسدانوں کی حمایت کا مطلب ہے بی جے پی حکومت کی مخالفت کرنا۔ لیکن بی جے پی لیڈران نے اس بار خود آگے بڑھنے کے بجائے بی جے پی کے رحم و کرم پر مراعات حاصل کرنے والے فنکاروں کو آگے کردیا۔ انوپم کھیر، روینہ ٹنڈن اور پریش راول ان میں اہم نام ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں انہیں بی جے پی سے اتنی ہمدردی کیوں ہے۔ عامر خان نے غلط نہیں کہا کہ بحیثیت ایک فرد اور شہری وہ بھی خوف میں مبتلا ہیں ۔
ان کے الفاظ ہیں” میں اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ بحیثیت ایک فرد، بحیثیت ایک شہری میں خود دہشت زدہ ہوں ۔ اس کا سبب گزشتہ کچھ عرصہ میں رونما ہونے والے واقعات ہیں ۔ انہوں نے کہا تھا کہ بحیثیت ہندوستانی ہمیں احساس تحفظ پیدا کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے دو تین باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو انصاف کا یقین عام آدمی کے دل میں احساس تحفظ پید اکرتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ جو عوامی نمائندے ہیں چاہے وہ ریاستی سطح پر ہوں یا مرکز میں، جب کبھی عدم تحمل سے متعلق کوئی واقعہ رونما ہوتو ان کے لئے لازمی ہے کہ جب وہ دیکھیں کہ لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ سخت اقدامات کریں اور سخت بیانات جاری کریں اور ایسے معاملات میں تیزرفتاری سے قانونی کارروائی کریں ۔ چاہے وہ کسی پارٹی کے نمائندے ہوں ۔ یہاں تک ٹھیک تھا لیکن شاید عامر کا سب سے بڑا’گناہ’ تھا کہ انہوں نے بی جے پی کا نام بھی لے لیا ، ٹی وی پر ہونے والے مباحثوں میں میں دیکھتا ہوں کہ بی جے پی جو اس وقت حکمراں جماعت ہے ، اس کے نمائندے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ1984ء میں کیا ہوا تھا؟ لیکن اس سے وہ باتیں درست قرار نہیں دی جاسکتیں جو آج ہورہی ہیں۔1984ء میں جو کچھ ہوا تھا وہ بھی قابل مذمت تھا لیکن آج جو کچھ ہورہا ہے وہ درست نہیں ہے۔ چاہے ایک فرد واحد قتل ہو یا پھر ہزاروں لوگوں کا یہ قابل مذمت ہے ۔ لیکن ایسے حالات میں جب ہم اپنے لیڈران کی جانب دیکھتے ہیں تو ہمیں ان کے بیانات سے مایوسی ہاتھ لگتی ہے ۔
اس انٹر ویو میں عامر خان سے صرف ملک کے حالات پر ہی سوالات نہیں کئے گئے تھے بلکہ عالمی دہشت گردی پر بھی بہت کچھ پوچھا گیا جس کا انہوں نے کھل کر جواب دیا ۔ اسلام اور دہشت گردی سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کا تعلق مذہب سے نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص مسلمان ہے اور وہ دہشت گردی میں ملوث ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اسلام کی پیروی نہیں کرتا ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ہندو ہے اور وہ کسی دہشت گردانہ کارروائی میں ملوث ہے تو وہ بھی ہندو ازم کی پیروی نہیں کرتا۔ اگر آپ کسی کو دہشت گردی میں ملوث دیکھیں تو اسے مسلم ، ہندو یا عیسائی کہنے کے بجائے صرف دہشت گرد کہیں۔ اس پر سے مذہب کا لیبل ہٹا دیں ۔ یہ سب سے پہلی غلطی ہے کہ ہم دہشت گردوں پر لیبل لگا دیتے ہیں ۔ وہ صرف دہشت گرد ہیں جن کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ عامر سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا اس طرح کے دہشت گردانہ واقعات کے سبب آزاد خیال مسلمانوں کے لئے مشکلات کھڑی ہورہی ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا اگر میں غلطی نہیں کررہا ہوں تو کم از کم ہندستان کی سطح پر تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ تقریبا ساری ہی مسلم تنظیموں نے داعش کی مخالفت کی ہے ۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے بیانات کو ایک مسلمان کا بیان سمجھنا دراصل انہیں مشکل میں ڈال دیتا ہے۔ ان کے الفاظ تھے میں کون ہوتا ہوں کسی کی نمائندگی کرنے والا اور اگر میں کسی کی نمائندگی کرسکتا ہوں تو میں سب کی نمائندگی کیوں نہیں کرسکتا؟ صرف مسلمان کیوں؟ میں پیدائشی طور پر بھلے ہی مسلمان ہوں لیکن میں ہر کسی کے لئے بات کرتا ہوں ۔
اتنے واضح اور مفصل جواب کے بعد بھی اگر بعض لوگ ان کے بیانات کو مذہبی رنگ دینا چاہتے ہیں تو اس میں ان کی تنگ نظری بلکہ ان کی نیتوں میں خلل کے علاوہ اور کیا کہاجاسکتا ہے ؟ دہشت گردی پر سوالات کا سلسلہ یہیں نہیں رکا ان سے ایک سینئر خاتون صحافی نے یہ بھی پوچھا کہ پیرس میں حملے میں شامل دہشت گردوں نے اپنی کارروائی کو اسلام کی رو سے درست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ظاہر ہے اس سوال کا واضح مطلب یہ تھا کہ پھر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ؟ اس پر عامر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ اگر ایک شخص اپنے ہاتھ میں قرآن شریف لے کر لوگوں کو قتل کررہا ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ یہ سمجھتاہو کہ وہ یہ سب کچھ اسلام کے لئے کررہا ہے لیکن بحیثیت مسلمان میں سمجھتا ہوں کہ وہ کوئی اسلامی کام نہیں کررہا ہے ۔ وہ اپنے آپ کومسلمان سمجھتا ہوگا لیکن ہم ایسا نہیں سمجھتے ۔ مجھے داعش سے پریشانی نہیں ہے ، پریشانی ہے اس کے نظریات سے ۔ آج داعش ہے کل اس کی جگہ کوئی اور ہوگا ۔ یہ انتہا پسندی ہے جس کی مجھے فکر ہے ۔
اگر دیکھا جائے تو ملک میں قائم عدم تحمل کی فضا اور بین الاقوامی سطح پر دہشت گردانہ کارروائی پر ہونے والی بحث کے معاملے پر یہ ایک انتہائی غیر جانب دار اور متوازن انٹرویو ہے جس میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا سوائے ان لوگوں کے جو عدم برداشت یا دہشت گردی والے واقعات میں ملوث ہیں ۔ آپ عامر کی مخالف کرنے والوں کے ناموں پر غور کیجئے وہ انہیں میں سے ہیں جو دادری سانحہ اور کلبرگی کے قتل پر کوئی نہ کوئی جواز رکھتے ہیں ورنہ عام ہندوستانیوں کو عامر خان کے انٹر ویو سے کوئی بیر نہیں ہے اور وہ ان کے بیانات سے متفق ہیں ۔

Why Aamir Khan expressed alarm regarding growing intolerance in India. Article: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں