کیا صحیح اور غلط کا فیصلہ اب وحشی بھیڑ کرے گی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-10-21

کیا صحیح اور غلط کا فیصلہ اب وحشی بھیڑ کرے گی

insurgency-of-wild-crowd-in-India
وطن عزیز آج کل تشدد اور نفرت انگیزی کے عبرتناک ماحول سے گزر رہا ہے، ایک منظم سازش کے تحت جھوٹی افواہ کا بازارگرم کر کے قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے۔ قانون ، پولیس اورعدلیہ مصنوعی بھیڑ کے پاگل پن کے آگے بازیچہ اطفال ثابت ہو رہے ہیں۔
بولنے کی آزادی چھینی جا رہی ہے اور سچ بولنے کی ضد پر ان کے خلاف انتہائی اقدام کرتے ہوئے انہیں ٹھکانے بھی لگا دیا جا رہا ہے۔

برسر اقتدار جماعت کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی نے ملک کی موجودہ صورتحال پر حقیقت بردوش تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ : ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے!
دادری سانحہ پر یہ کہہ کر اپنی رائے کا اظہار کرنے سے انکار کر دیا کہ اٹل جی (ان کا اشارہ مودی کی طرف تھا) کو اچھا نہیں لگے گا اور وہ ناراض ہو جائیںگے ۔
ملک میں جاری تشدد کے واقعات تھمنے کے نام نہیں لے رہے ہیں۔ دادری میں ایک منظم بھیڑ کے ہاتھوں اخلاق کا بہیمانہ قتل اور ان کے اہل خانہ کی ظالمانہ پٹائی کے بعد بین الاقوامی میڈیا میں ہندوستانی جمہوریت کو بدترین نشانہ بنایا گیا اور اس واقعے سے پوری دنیا میں ہندوستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔ یہاں تک کہ صدرجمہوریہ ہند پرنب مکھرجی کو بھی اپنی خاموشی توڑنی پڑی جس کے بعد کہا جا رہا تھا کہ اب ایسا واقعہ نہیں ہوگا۔
لیکن ابھی اخلاق کی قبر کے پھول خشک بھی نہیں ہوئے ہوںگے کہ شملہ میں ایک اور اخلاق یعنی مویشی تاجر محمد زاہد کو جنونی بھیڑ نے قتل کر دیا۔ ممبئی میں مشہور پاکستانی گلوکار غلام علی کا پروگرام صرف اس لئے رد کرنا پڑا کیوںکہ شیوسینا اس پروگرام کی مخالفت پر کمربستہ ہو گئی تھی۔
اسی ممبئی میں سابق پاکستانی وزیرخارجہ کی کتاب کی رونمائی کی تقریب میں شامل ہونے پہنچے بی جے پی لیڈر سدھیندر کلکرنی کے چہرے پر سیاہی مل دی گئی جبکہ اس پروگرام میں شریک مشہور اداکار نصیر الدین شاہ کو سوشل میڈیا پراس قدر نشانہ بنایا گیا کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ہمیں محض مسلمان ہونے کی بنیاد پر ذلیل کیا جا رہا ہے۔
یہی نہیں اسی ممبئی میں ہند و پاک کرکٹ کی بحالی کیلئے ہونے والی بی سی سی آئی اور پی سی بی کی میٹنگ میں شیوسینا کے کارکنوں نے اشتعال انگیز ہنگامہ کیا اور اسی دن دہلی میں پریس کانفرنس کرنے پہنچے جموں و کشمیر کے رکن اسمبلی انجینئر رشید کے چہرے پر بھی سیاہی پوت دی گئی۔ ان کا قصور یہ تھاکہ جموں و کشمیر میں سپریم کورٹ کی جانب سے تین مہینے تک گائے ذبیحہ پر سے پابندی ہٹانے کے حکم کے بعد انہوں نے بیف پارٹی کی تھی جس کے بعد انہیں جموں و کشمیر اسمبلی میں بی جے پی ارکان نے قانون اور اصول کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے بری طرح پیٹا تھا۔

ہنگامہ خیز حالات پر مرکزی حکومت کی مجرمانہ خاموشی کے خلاف ملک کے ادباء اپنے ایوارڈ مع انعامی رقم واپس کر رہے ہیں ، صدائے احتجاج بلند کرنے والے ادباء و شعرا میں ہندی ، اردو اور انگریزی سمیت دیگر علاقائی زبانوں کے نمائندہ ادبا و شعرا شامل ہیں ۔ مودی حکومت کی نااہلی کے خلاف پہل کرنے والے ادبا و شعراء کی ایوارڈ واپسی کو بھی سیاسی عینک سے دیکھا جانے لگا ہے اور بی جے پی اسے سیاسی رنگ دے کر اپنی شرمندگی چھپانے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔

ایسے سنگین حالات میں یہ سوالات بڑے معنی خیز ہو جاتے ہیں کہ کیا ملک میں قانون اور انصاف نام کی کوئی چیز رہ گئی ہے یا پولیس اور عدالت کے کام جنونی بھیڑ کے حوالے کر دیے گئے ہیں؟ اور کیا ایک عظیم جمہوری ملک کے تانے بانے بکھرنے کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں؟
کیا ہندوستان میں بقول اڈوانی ایک بار پھر ایمرجنسی عود کر آئی ہے؟ موجودہ ملکی تناظر میں مذکورہ سوالات کے جوابات تلاش کرنا بہت ہی اہم ہے کیوںکہ اس کے بغیر ملک کی جمہوریت کا قبلہ طے نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی مذہب و ثقافت کے نام پر اکثریتی طبقہ کی جانب سے جاری واردات پر روک لگانے کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔

وقت کا نمرود ایک بار پھر سر ابھار رہا ہے اور اس کے ظلم و جبر کے آگے انسانیت بےبس و مجبور کھڑی ہے۔ مذہب اور سیاست کا یہ کون سا فلسفہ ہے جس کی رو سے ایک جانور کی حفاظت کیلئے کئی انسانی جانوں کی بلی چڑھانےسے گریز نہیں کیا جا رہا ہے؟
آخر سپریم کورٹ کے سبکدوش جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو کے اس سوال پر اکثریتی طبقہ سنجیدگی سے غور کرنے کیلئے کیوں تیارنہیں ہے کہ ایک گائے انسان کی ماں کیسے ہو سکتی ہے ؟ اورانسان گائے کی اولاد کیسے ہو سکتا ہے ؟
اس طرح کے سوالات صرف جسٹس کاٹجو کے ہی نہیں ہیں بلکہ بہتیرے ہندو دانشوران بھی یہ پوچھ رہے ہیں لیکن سرکاری سرپرستی میں آر ایس ایس قاتل بھیڑ کے ہاتھوں اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل میں مصروف ہے اور ریاستی حکومتیں خاموش ہیں۔ آخر ایسے معاملات میں راشٹرپتی بھون اور چھوٹے چھوٹے معاملوں پر ازخود نوٹس لینے والی عدلیہ مداخلت سے اب تک خود کو کیوں روک رکھی ہے؟ یہ بات بھی سمجھ سے پرے لگ رہی ہے۔

بات اگر اکا دُکا اور معمولی واقعات کی ہوتی تو اسے وقتی اشتعال کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا تھا لیکن یہاں تو ملکی مفاد کا سوال پیدا ہو گیا ہے۔ اپنی رنگا رنگ تہذیب کے سبب جمہوری دنیا میں امتیازی شناخت رکھنے والے ملک کا مستقبل داؤ پر ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں عوامی غصہ کی شکل میں اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ ایسے میں اگر ملک کے حساس شہری احتجاج درج کرا رہے ہیں تو اسے سیاست کی آمیزش سے لبریز کر کے اس کی اہمیت گرانے کی حکومتی سعی کی جا رہی ہے۔ لیکن کیا اس بات سے آنکھیں چرائی جا سکتی ہیں کہ آج ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہو چکی ہے اور غیر کی حفاظت کے نام پر ایک مخصوص طبقہ کو دانستہ نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔

اب تک فرقہ وارانہ فساد کی آڑ میں مسلمانوں کی نسلی تطہیر کی جاتی رہی اور آزادی کے 67 برسوں بعد فرقہ وارانہ سیاست کی آنچ کم ہو گئی تو پھر گائے ذبیحہ کو عقیدت کے دوپٹے سے باندھ دیا گیا اور اب اس کے بہانے وہی کارنامے انجام دئے جارہے ہیں۔ نئی نسلوں کےکچے دماغ میں نفرت کا زہر بھرا جا رہا ہے مگر حیرت اس بات پر ہے کہ گلوبلائزیشن اور ترقیاتی چمک دمک کے اس دور میں بھی تعلیم یافتہ نسل کا آسانی کے ساتھ سیاسی استعمال کر لیا جا رہا ہے ۔

ہندوستانی جمہوریت آج اس موڑ پر جا کھڑی ہوئی ہے جہاں سے صرف تباہی کے راستے وا ہوتے ہیں اس لئے اگر وقت کے رہتے ہوش کے ناخن نہیں لئے گئے تو جمہوریت کا جنازہ نکلتے دیر نہیں لگے لگی۔ قومی دارالحکومت میں جموں و کشمیر کے رکن اسمبلی انجینئر راشد نے اپنے چہرے پر لگی سیاہی کو دکھاتے ہوئے اس طرح حقیقت کی ترجمانی کی کہ :
یہ گاندھی کا ہندوستان نہیں ، مودی کا ہندوستان ہے ، دنیا کہتی ہے کہ پاکستان میں طالبان ہے مگر اب ہندوستان میں بھی طالبان پیدا ہو گئے ہیں۔

فرقہ پرست تنظیموں کے ارادوں سے واقف امن پسند شہری سخت اضطراب میں ہے اور انہیں اب فکر شدت کے ساتھ پریشان کرنے لگی ہے کہ اگر انہیں بروقت نہیں روکا گیا تو ملک کا جمہوری ڈھانچہ تباہ ہوجائےگااور اس کے بعدجوکچھ بچے اس کی حیثیت ایک مشت خاک کے سواکچھ نہیں ہوگی لیکن ان کے پاس بھی کوئی تدبیر نہیں ہے۔ باستثنائے چند، ملکی میڈیا حکومت کا غلام بن گیاہے اورصحافی کھنکتے ہوئے چندسکوں میں اپنے ضمیرکا سوداکررہےہیں جس کی وجہ سے ان کے منہ سے زبان چھن گئی ہے۔
ایسے ماحول میں ملک کی حقیقی صورتحال سے عوام کوروشناس کرانے کا بھلا کون ساطریقہ بچ جاتا ہے؟

آج امن پسندعوام کی ذمہ داری دوہری ہوگئی ہے اورانہیں مصلحت پسندی کےاصول سے بغاوت کرکے سڑکوں پرآنا ہوگا ورنہ پاگل بھیڑ جب اندھی ہوجاتی ہے تواسے کچھ سجھائی نہیں دیتا ہے اوروہ دوسرے کا گھرکرسمجھ اپنا خانماں بھی بربادکرلیتی ہے۔ تشددسے تشددکی ایک نئی شکل جنم لیتی ہے ؛ختم نہیں ہوتی ،اس بات کو نوجوان نسلوں کے ذہن میں بٹھاناہوگا ورنہ اس کے نتائج بہت ہی بھیانک برآمدہوںگے ۔
عدم تشددکی علامت بن چکے موہن داس کرم چند گاندھی کے ہندوستان کی ایسی حالت ہوگی اوراتنی جلد ی ہو گئی؟
پاگل بھیڑکے ہاتھوں داردی میں محمد اخلاق اور شملہ میں محمد زاہدکے بہیمانہ قتل اور حکومت کی مجرمانہ خموشی کے بعدایسا لگا لگنے لگا ہے کہ ملک میں قانون ،پولیس اورعدلیہ کے بے معنی ہوگئے ہیں
کم ازکم یہ بات توکسی نے نہیں سوچی ہوگی ۔

ہندوستان اس اعتبارسے بہت خوش قسمت ملک ہے کہ جس کی اکثریتی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اوراس کا براپہلویہ ہے کہ اس کا نوجوان شہری پڑھا لکھاجاہل،دانشوری کی دولت سے محروم اورپاگلوں کی صف میں کھڑا ہےجس کی وجہ سے سیاسی طبقے اس کی صلاحیتوں کوملکی مفادمیں استعمال کرنے کی بجائےنفرت کی تشہیر اورتشددکی نئی تعبیر کیلئے کررہےہیں۔

مسلمانوں کو بھی نوشتہ دیوارپڑھ کرقدم بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ دشمنوں کوکوئی موقع فراہم نہ ہو۔ مصلحت، دانشمندی اور تدبرتومسلمانوں کے چوکھٹ کی کنیز رہی ہے لیکن نہ جانے کیوں آج مسلمان اس سے محروم نظرآتاہے حالاںکہ سیرت نبوی کے روشن پہلو ہمیں بدترسے بدترحالات میں بھی سلیقہ مندانہ زندگی گزارنے کی رہنمائی کرتے ہیں۔

***
sabirrahbar10[@]gmail.com
موبائل : 9470738111
صابر رضا رہبر

The current scenario of insurgency of wild crowd in India. Article: Sabir Raza Rahbar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں