قومی عدالتی تقررات کمیشن غیر دستوری - سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-10-17

قومی عدالتی تقررات کمیشن غیر دستوری - سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

نئی دہلی
پی ٹی آئی
سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ میں آج قومی عدالتی تقررات کمیشن( این جے اے سی) کے قیام سے متعلق دستوری ترمیم کو کالعدم کردیا ہے ۔ اور اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقررات کے لئے کالجیم سسٹم دوبارہ لا نے کی ہدایت دی ۔ اس فیصلہ پر مرکزی وزیر قانون ڈی وی سدانند گوڑا اور وزیر مواصلات روی شنکر پرساد نے شدید تنقید کی جب کہ دیگر گوشوں سے اس کی ستائش کی گئی ۔ اعلیٰ عدلیہ میں تقررات سے متعلق22سال قدیم کالجیم نظام کو بحال کرتے ہوئے پانچ رکنی دستوری بنچ نے کہا کہ ججوں کے تقررات پر حکومت کا قانون غیر دستوری ہے ۔ یہ بنچ جسٹس جگدیش سنگھ کیہر، جسٹس جے چلمیشور، جسٹس مدن بی لوکر ، جسٹس کریان جوزف اور جسٹس مدن بی لوکر، جسٹس کریان جوزف اور جسٹس آدرش کمار گوئل پر مشتمل ہے ۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مرکزی حکومت کو ایک بڑا دھکہ ہے۔ پارلیمنٹ میں گزشتہ سال این جے اے سی قانون منظور کیا تھا تاکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کے تقررات میں حکومت کو بھی عمل دخل کا موقع ملے ۔ فیصلہ پر حیران گوڑا نے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے100 فیصد ارکان نے ترمیم کی تائید کی تھی جو عوام کی مرضی کا مظہر ہے ، وزیر قانون نے کاہ کہ وزیر اعظم، کابینی رفقاء اور ماہرینق انون سے مشاورت اور فیصلہ کا مطالعہ کرنے کے بعد مستقبل کا لائحہ عمل طے کیاجائے گا۔ عدالت نے اس فیصلہ میں کئی اہم ریمارکس کئے ہیں ۔ جسٹس لوکر نے کہا کہ این جے اے سی قانون کے ذریعہ صدر جمہوریہ کو ڈمی بنایا گیا اور چیف جسٹس آف انڈیا کو نظر انداز کردیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ99ویں دستوری ترمیم نے عدلیہ کی آزادی کو خطرہ میں ڈال دیا ہے ۔ ججوں کے تقرر میں صدر کا عملا کوئی رول نہیں رہا جب کہ چیف جسٹس آف انڈیا نظر انداز کردئے گئے ۔ جسٹس جوزف کرین کالجیم سسٹم میں شفافیت احتساب اور معروضیت کے فقدان کا اعتراف کیا اور اسے بہتر بنانے پر زور دیا تاہم انہوں نے قانون کالعدم کرنے کے فیصلہ میں خود کو دوسرے ججوں کے ساتھ رکھا۔ مرکزی وزیر قانون کو این جے اے سی کے غیر سرکاری رکن کی حیثیت سے شامل کرنے پر جسٹس کیہر نے کہا کہ اس سے عدلیہ کی آزادی کے اصولوں سے ٹکراؤ ہوتا ہے ساتھ ہی اختیارات تقسیم ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں شخصی طور پر اس نتیجہ پر پہونچا ہوں کہ قانون کی دفعہ124a(1)کی شق(C) دستور کی دفعات کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اس کے ذریعہ قانون و انصاف کے وزیر کو این جے اے سی کا غیر سرکاری رکن بنایا گیا ہے۔ میرے خیال میں اس سے عدلیہ کی آزادی کے اصولوں سے ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے ۔1030صفحات پر مشتمل فیصلہ میں440صفحات تحریر کرنے والے جسٹس کیہر نے کہا کہ کمیشن کے ارکان کی حیثیت سے دو ممتا ز شخصیتوں کو شامل کرنے سے بھی دستور کے بنیادی ڈھانچہ کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا میری ذاتی رائے یہ ہے کہ دفعہ124a(1)کی شق(a)تا(d)تمام شقیں کالعدم کردی جانی چاہئیں۔ چنانچہ انہیں کالعدم کیاجاتا ہے ۔ سپریم کورٹ نے این جے اے سی قانون کو چیلنج کرتے ہوئے داخل کی گئی درخواستوں کو9یا زائد ججوں کی بنچ سے رجوع کرنے حکومت کی درخواست کو مسترد کردیا ۔ معاملہ کی سماعت3نومبر تک ملتوی کردی گئی ۔ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقررات سے متعلق نئے قانون کو کالعدم کردینے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے حکومت نے آج قدیم کالجیم سسٹم کی شفافیت پر سوال اٹھایا ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے قدیم کالجیم سسٹم بحال ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر واضح طور پر عدم رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے کہا کہ یہ پارلیمانی خود مختاری کو ایک دھکا ہے ۔ پرساد نے جنہوں نے وزیر قانون کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں این جے اے سی بل پیش کیا تھا کہا کہ اس فیصلہ سے پارلیمنٹ کی خود مختاری پر سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے جس نے متفقہ طور پر اس قانون سازی کو منظور کیا تھا اور20 ریاستی اسمبلیوں نے بھی اس کی توثیق کی ۔ انہوں نے آج ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے اصول کو بے حد احترام سے برقرار رکھتے ہوئے میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ پارلیمانی خود مختاری کو آج دھکا لگا ہے ۔ پارلیمانی خود مختاری پر سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔1030صفحات پر مشتمل اس فیصلہ کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد حکومت مستقبل لائحہ عمل طئے کرے گی۔

SC declares National Judicial Appointments Commission unconstitutional

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں