وسیع الاساس اور نمائندہ قومی عدالتی کمیشن کا قیام ضروری - سی پی آئی ایم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-10-17

وسیع الاساس اور نمائندہ قومی عدالتی کمیشن کا قیام ضروری - سی پی آئی ایم

نئی دہلی
یو این آئی، پی ٹی آئی
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ ( سی پی آئی ایم) نے سپریم کورٹ کے آج کے فیصلہ کے تناظر میں کہا ہے کہ ایک مزید وسیع الاساس اور نمائندہ قومی عدالتی تقرررات کمیشن قائم کرنے پارلیمنٹ میں تازہ قانون سازی کی جانی چاہئے ۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے آج قومی عدالتی تقررات کمیشن قانون کو کالعدم کردیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے پارٹی پولیٹ بیورو نے اپنے ایک بیان میں اس بات کو دہرایا کہ ججوں کے تقرر کے لئے ایک ادارہ ہونا چاہئے جو نہ تو عدلیہ اور نہ عاملہ کے زیر اثر ہو ۔ ججوں کے تقررات کے لئے کالجئیم نظام شفاف اور جمہوری عمل نہیں ہے۔ ایسا کوئی بھی عمل جو عاملہ کو ججوں کے انتخاب کا موقع دیتا ہو، عدلیہ کی دیانتداری اور آزادی کے لئے نقصان دہ ہے ۔ قبل ازین قانون کے تحت تشکیل دئیے گئے قومی عدالتی تقررات کمیشن( این جے اے سی) کو نمائندہ کردار اور آزادانہ موقف کے لحاظ سے غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے پولیٹ بیورو نے کہا کہ اس فیصلہ سے حاصل ہونے والے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پارلیمنٹ کو تازہ قانون سازی کرنی چاہئے تاکہ ایک مزید وسیع الاساس اور نمائندہ این جے ای سی تشکیل دیاجاسکے ۔ پی ٹی آئی کے بموجب عام آدمی پارٹی نے آج کہا کہ این جے اے سی کو غیر دستوری قرار دینے والے سپریم کورٹ کے فیصلہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ عدلیہ ہی بالا تر ہے۔ پارٹی نے اس فیصلہ کو این ڈی اے حکومت کے لئے ایک بڑا دھکا قرار دیا۔ بہر حال پارٹی نے اعلیٰ عدالتوں کے لئے ججوں کے تقرر کے22سال قدیم کالجئیم نظام میں اصلاحات اور عظیم تر شفافیت کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ عام آدمی پارٹی لیڈر اشوتوش نے کہا کہ این جے اے سی قانون پر عمل آوری کے لئے مرکز کی جلد بازی نے عدلیہ سے متعلق اس کے عزائم کے بارے میں شوکوک و شبہات پید اکئے ۔ عدلیہ کی آزادی سب سے زیادہ اہم ہے لیکن کالجئیم سسٹم کو بھی ججوں کے انتخاب میں عظیم تر شفافیت کو یقینی بنانا چاہئے ۔ سپریم کورٹ کو داخلی جانچ پڑتال اور کالجئیم سسٹم میں اصلاحات کرنا چاہئے تاکہ اسے مزید قابل بھروسہ بنایاجاسکے ۔ عام آدمی پارٹی کے ترجمان دیپک واجپائی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ججوں کے تقرر کے عمل میں عدلیہ کی آزادی کو کچلنے حکومت کی کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ ان قائدین نے کہا کہ فیصلہ کا مکمل مطالعہ کرنے کے بعد پارٹی اس مسئلہ پر بڑا فیصلہ کرے گی ۔ اشوتوش نے اپنے سلسلہ وار ٹوئیٹر پیامات میں الزام عائد کیا کہ موجودہ سیاسی حکومت کے تحت عدلیہ کی آزادی خطرہ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ این جے اے سی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی ہے ۔ یہ فیصلہ مرکزی حکومت کے لئے ایک بڑ ادھکہ ہے جو عدلیہ کو پابند بنانے کی کوشش کررہی ہے ۔ اس حکومت نے چیف جسٹس آف انڈیا کو گورنر بنایا ہے جو شرمناک ہے ۔ واضح رہے کہ عام آدمی پارٹی لیڈر سابق چیف جسٹس آف انڈیا پی سداشیوم کو کیرالا کا گورنر بنائے جانے کا حوالہ دے رہے تھے ۔ علیحدہ اطلاع کے مطابق مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے آج کہا کہ اعلیٰ عدلتوں کے لئے ججوں کے تقرر کے کالجئیم سسٹم کو بہتر بنانے کے بارے میں تجاویز قبول کرنے سپریم کورٹ کی آمادگی ظاہر کرتی ہے کہ اس عمل میں کچھ نہ کچھ غلطی ضرور ہے ۔ فیصلہ کی میرٹ میں جانے سے انکار کرتے ہوئے انہوں نے کہا سپریم کورٹ نے کاہ ہے کہ وہ3نومبر سے کالجئیم سسٹم کو بہتر بنانے کے مسئلہ کی سماعت کرے گا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کالجئیم سسٹم میں کچھ غلط ہے ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے این جے اے سی قانون کو منسوخ کرنے عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے نامہ نگاروں سے کہا کہ قومی عدالتی تقررات کمیشن قانون ملک میں عدالتی اصلاحات کا ایک حصہ تھا جسے تمام پارلیمنٹ اور اہم ارکان جیوری کی تائید حاصل تھی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اچانک نہیں کیا گیا تھا ، دستور پر نظر ثانی کے کمیشن عدالتی اصلاحات کمیشن اور پارلیمانی اسٹانڈنگ کمیٹیوں نے اپنی تین رپورٹس میں ایسے قانون کی سفارش کی تھی۔ پرساد گزشتہ سال اس بل کو مرکزی کابینہ کی جانب سے منظوری دئیے جانے اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظور کئے جانے کے وقت وزیر قانون کے عہدہ پر فائز تھے۔ اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے قومی عدالتی تقررات کمیشن قانون کو منسوخ کئے جانے کے بعد کہا کہ کالجئیم سسٹم آج سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد بحال ہوگیا ہے لیکن دستور میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے اور غیر شفاف نظام ہونے کی وجہ سے یہ مناسب بھی نہیں ہے۔ تاہم روہتگی نے اس معاملہ پر درخواست نظر ثانی داخل کرنے کے امکانات کو مستر د کردیا اور کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ اس معاملہ میں نظر ثانی کی درخواست داخل کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ یہ ایک تفصیلی فیصلہ ہے اور ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے ۔

Left pitches for a National Judicial Commission

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں