ایک چراغ اور بجھا - مولانا سید نظام الدین صاحب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-10-18

ایک چراغ اور بجھا - مولانا سید نظام الدین صاحب

syed-nizamuddin
آج 17 ؍اکتوبر کی شام کو خبر آئی کی حضر ت مولانا سید نظام الدین صاحب بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انتقال کے وقت مولانا ملت اسلامیہ ہندیہ سے وابستہ اہم اور باوقار ذمہ داریوں اور امیر شریعت امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ اور جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جیسے کئی ایک معزز عہدوں پر فائز تھے ۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 88 سال تھی ، آپ کی ولادت با سعادت مورخہ 31 مارچ 1927ء محلہ پرانی جیل ، گیا بہار میں ہوئی تھی، مولانا کی رحلت کے ساتھ امت مسلمہ ہندیہ ایک سلجھے ہوئے، پرہیزگار ، بردبار اور امانت دار قائد سے اس وقت محروم ہوگئی جب کہ آپ جیسی قیادت کی ملت کو پہلے سے زیادہ ضرورت تھی ۔
مولانا کے والد ماجد قاضی سید حسیں صاحب ایک جید عالم دین،اور علامہ انور شاہ کشمیری کے شاگردوں میں تھے۔ آپ کی والدہ کی وفات 1930ء میں اس وقت ہوئی جب آپ نے ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا ، ابھی آپ کی عمر دودھ پینے کی تھی ، چار سال کی عمر ہوئی تو 1931ء میں بسم اللہ خوانی سے آپ کی تعلیم کا آغاز ہوا ، اور گھریلو تعلیم ختم کرنے کے بعد 1941ء میں بہار کی مشہور دینی درسگاہ مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں آپ کا داخلہ ہوا ۔ ابھی عمر پندرھویں سال میں تھی کہ والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔جس کے ایک سال بعد 1942ء میں آپ نے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا ، اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ ، مولا نا اصغر حسین ، وغیرہ اساطین علم سے کسب فیض کیا ، جون 1942ء میں آپ کو حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے شرف ملاقات حاصل ہوا ۔ 1946ء میں آپ کی فراغت ہوئی ۔ اور آپ نے شیخ الادب مولانا اعزاز علی کے زیر سایہ 1946ء میں تخصص فی الادب کی تکمیل کی ۔
فراغت کے بعد آپ ریاض العلوم ساٹھی ۔ چمپارن میں تدریس سے وابستہ ہوگئے ، جہاں آپ نے 1948ء سے 1962ء تک بحیثیت صدر مدرس خدمات انجام دیں ۔31 مارچ 1950ء کو آپ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے ۔
امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے تیسرے امیر مولانا ابو المحاسن سجاد صاحب کے انتقال کے بعد جب امارت جمو د اور انتشار سے دوچار ہوگئی تھی تو حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ اور دیگر اکابر کے اصرار پر مولانا منت اللہ رحمانی صاحبؒ نے امیر شریعت کا منصب قبول کیا ، جس کے بعد آپ نے 1957ء میں مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب کو قاضی شریعت کے جلیل القدر عہدے پر فائز کیا ، قاضی صاحب اس وقت نئے نئے دیوبند سے فارغ ہوکر آئے تھے ۔ اور عمر کے پچیسویں سال میں ابھی داخل نہیں ہوئے تھے ۔ 1958ء میں مولانا سید نظام الدین صاحب کی امیر شریعت مولانا رحمانی صاحب کے قائم کردہ ادارے میں آمد ہوئی ، اور یہیں پہلی مرتبہ حضرت امیر شریعت اور مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب سے آپکی ملاقات ہوئی ۔1960ء میں جامعہ رحمانیہ میں آپ کی دوبارہآمد ہوئی ،او ر 1963ء ۔ 1964ء میں آپ نے مدرسہ رشید العلوم چترا میں صدر مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ اس دوران قاضی صاحب سے آپ کا ربط و ضبط بڑھا۔جو 4 ؍ اپریل 2002 ء میں قاضی صاحب کی رحلت تک اس طرح قائم رہا جیسے دو جان ایک قالب ہوں ، اللہ تعالی نے ان دونوں کی رفاقت میں امت اسلامیہ ہندیہ کے بڑے بڑے کا م لئے ۔
1965ء میں قاضی صاحب کے مسلسل اصرار پر آپ نے ناظم امارت شرعیہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں ، 19 مارچ 1991ء کو امیر شریعت مولانا رحمانی کی رحلت کے بعد جب مولانا عبد الرحمن صاحب امیر شریعت بنے تو آپ کا بحیثیت نائب امیر شریعت انتخاب عمل میں آیا ۔ جن کی رحلت کے بعد آپ کو امیر شریعت بہار و اڑیسہ منتخب کیا گیا ۔ امارت شرعیہ سے یہ تعلق آخری دم تک قائم رہا ۔
قاضی اور ناظم کی جوڑی نے امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی صاحب کی زیر سرپرستی امارت شرعیہ کو اعتبار بخشنے اور اسے اوپر اٹھانے کی انتھک کوششیں کیں ،ان حضرات کی قربانیوں سے یہ ادارہ ایک کمرہ سے اٹھ کر ملک کا معتبر ترین ادارہ بن گیا ، اس کی عالیشان عمارت کھڑی ہوئی اور اس کے ماتحت کئی ایک ادارے قائم ہوئے جس نے مسلمانان بہار کی ترقی میں نمایاں خدمات انجام دیں ۔
مولانا سید نظام الدین صاحب مرنجان مرنج بزرگ تھے ، انہیں سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ہنر آتا تھا ، ساتھ ہی ساتھ نہایت ہی امانت دار اور دیانت دار تھے ۔ جب رہے امارت کی مالیات کا نظام اپنے ہاتھ میں رکھا ، جس کی وجہ سے چالیس سال پر محیط طویل عرصہ میں مالیات کے کسی تنازعہ نے امارت شرعیہ کو میلا ہونے نہیں دیا۔ قاضی و ناظم میں افہام و تفہیم کی روح کارفرما تھی ، لہذا ان کے تعلقات میں انا کی خلیج کبھی آڑے نہیں آئی، انہوں نے ملت کے مفاد کو ہمیشہ ہر مفاد سے بلند رکھا ،اور جس ادارے کی بارآوری کے لئے انہوں نے اپنا خون خشک کیاتھا ، اس پر آنچ نہ آنے دی ، ایسی رفاقت کی مثال شاذ و نادر ہی ملے گی ۔
اس کی بات کی اہمیت کا انداز ہ اس بات سے آپ لگا سکتے ہیں کہ مولانا سید نظام الدین صاحب کو امارت شرعیہ میں لانے والے قاضی صاحب تھے ، آپ بھی معاملہ فہمی اور ماہرانہ صلاحیت میں اپنی مثال آپ تھے ، جب تک زندہ رہے فقہی گتھیاں سلجھانے میں کم ہی لوگ ان کی برابری کرسکے ، ایک بڑا حلقہ مولانا منت اللہ رحمانی صاحب کی رحلت کے بعد آپ کو امیر شریعت کے منصب کا سب سے زیادہ حقدار سمجھتا تھا ، لیکن کسی تنازعہ سے بچتے ہوئے ایک بہ نسبت غیر معروف شخصیت کا انتخاب بحیثیت امیر شریعت عمل میں آیا ، اور مولانا سید نظا م الدین صاحب کو نائب امیر شریعت منتخب کیا آیا ، اس انتخاب سے ان حضرات کے تعلقات میں کوئی فرق نہیں آیا ، امارت شرعیہ کے امور بھی حسب سابق چلتے رہے ، کیونکہ عملا انہی دو حضرات کے ہاتھوں میں امارت شرعیہ کی باگ ڈور تھی ، پھریکم نومبر 1998ء کوامیر شریعت پنجم کی رحلت کے بعد آپ کو نیا امیر شریعت منتخب کیا گیا اور قاضی صاحب آپ کے نائب بن گئے ۔
28 ؍ ڈسمبر 1972ء کو ممبئی میں کل ہند مسلم پرسنل لا کنونشن بھٹکل کے جناب عبدالقادر حافظکا کی کنوینر شپ میں منعقد ہوا ، کنونشن کی
تحریک پر 8 ؍ اپریل 1973ء میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام عمل میں آیا ، حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ ا س کے اولین صدر منتخب ہوئے ا ور امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ اس کے جنرل سکریٹری ، بورڈ کے روز اول سے آپ نے قاضی صاحب کے ساتھ امیر شریعت کا سایہ بن کر خدمات انجام دیں، اور بورڈ کے مقاصد کے حصول اور اسے کامیاب کرنے کے لئے امکان بھر اپنی بھر پور صلاحیتیں صرف کیں ۔ لہذا امیر شریعت مولانا رحمانی کے انتقال کے بعد آپ کا مئی 1991ء میں بورڈ کا جنرل سکریٹری کی حیثیت سے انتخاب عمل میں آیا ۔ ان چوبیس سالوں کے دوران جو بحران اٹھے ، جن مسائل و مشکلات سے امت اسلامیہ ہندیہ دوچار ہوئی، بورڈ کو توڑنے اور کمزور کرنے کی جتنی سازشیں ہوئیں، مولانا نے کمال حکمت اور دانائی کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور بورڈ کی لڑی کو پروئے رکھنے کی کامیاب کوششیں کیں ۔
مولانا نے کبھی عہدوں کا پیچھا نہیں کیا ، عہدے ان کے پیچھے بھاگتے رہے ، 31 ڈسمبر 2000ء میں مفکراسلام حضرت مولانا سید
ابو الحسن علی ندوی صاحب کی رحلت کے بعد جب مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ بورڈ کے صدر منتخب ہوئے تو ایک موقعہ ایسا آیا جب کہ بورڈ کے صدر اور جنرل سکریٹری دونوں کلیدی عہدوں پر امارت شرعیہ کے عہدیدار ، ا میر شریعت اور نائب امیر منتخب ہوئے ، چونکہ بورڈ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے ، لہذا آپ کو احساس ہوا کہ ایک ہی حلقے سے کلیدی عہدیداران کا انتخاب بورڈ کی روح کے منافی ہے ۔ لیکن قاضی صاحب کے اصرار اور ممبران کی خواہش پر مولانا اپنے فرائض منصبی انجام دیتے رہے ۔ 4 ؍ اپریل 2002ء میں قاضی صاحب کی رحلت تک چند سال صورت حال یہ رہی کہ امارت شرعیہ میں مولانا امیر شریعت تھے تو قاضی صاحب نائب امیر ، اور پرسنل لابورڈ میں قاضی صاحب صدر تھے تو مولانا جنرل سکریٹری ، ا س طرح معاملات میں شخصیت کے ساتھ منصب کا احترام دوسری جگہ مشکل سے نظر آئے گا۔
مولانا نے قاضی صاحب کے رفاقت میں جن اداروں کے قیام میں حصہ لیا، ان میں نومبر 1988ء میں سجاد اسپتال کا قیام، اور اپریل 1989ء میں اسلامی فقہ اکیڈمی کا قیام، مئی 1996ء میں وفاق المدارس کا قیام ، 1998ء میں المعھد العالی للتدریب فی القضاء و الافتاء کی تاسیس بھی بہت اہم ہے ۔آپ 1996ء سے دارا لعلوم ندوۃ العلماء لکھنو ، اور 1997ء سے دارا لعلوم دیوبند کی مجلس شوری رہے ۔ مولانا نے جن شخصیات کے ساتھ کام کیا انہیں اپنا گرویدہ بنایا ۔بورڈ کے موجود ہ صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتھم کے ساتھ بھی آپ کی خوب جمی ،ان دونوں کے رجحانات اور فکری انداز اور تحمل اور براشت کی قوت نے امت کو بہت سہارا دیا ،یہ کہنا مشکل ہے کہ مولانا کے داغ مفارقت مولانا سید محمد رابع صاحب کے لئے بھی کتنا بڑا ذاتی نقصان ہے ۔
مولانا نے عمر طبعی پائی ، باوجود اس کے آپ کا جدا ہونا ملت اسلامیہ ہندیہ کیلئے ایک عظیم خسارہ ہے ، جس کی تلافی مشکل ہی سے ہوسکے گی ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مولانا نے اپنی زندگی میں اپنے اخلاق ، مروت ، صلاحیت ، للہیت اور قربانی کے جو چراغ جلائے تھے ، ان کی لو کبھی نہ بجھے ، چراغ سے چراغ جلتے رہیں ، اسی میں امت کی بھلائی ہے ، یہی ان کے درجات بلند سے بلند کرنے کا ذریعہ بھی ہے ، اللھم اغفرلہ وارحمہ ۔

***
Abdul Mateen Muniri
www.urduaudio.com
ammuniri[@]gmail.com
--

عبدالمتین منیری
Demise of Noted Islamic scholar Maulana Syed Nizamuddin. Article: Maulana Abdul Mateen Muniri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں