تلنگانہ اسمبلی میں کسانوں کی خود کشی واقعات پر طوفانی مباحث - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-09-30

تلنگانہ اسمبلی میں کسانوں کی خود کشی واقعات پر طوفانی مباحث

حیدرآباد
آئی اے آین ایس، یو این آئی، منصف نیوز بیورو
تلنگانہ اسمبلی کے دونوں ایوانوں میں آج کسانوں کی خود کشی واقعات پر طوفانی بحث کا آغاز ہوا۔ تیز و تند مباحث، اپوزیشن اور حکمراں جماعت کے ارکان کے ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات سے اسمبلی دہل گئی ۔ خود کشی کے موضوع پر بحث کے دوران حکومت نے کہا کہ کسانوں کی بہبود اور انہیں انتہائی اقدام سے باز رکھنے کے لئے ہر ممکنہ اقدامات کئے گئے ہیں۔ دونوں ایوانوں میں وقفہ سوالات اور دیگر امور کو معطل کرتے ہوئے کسانوں کی خود کشی واقعات پر بحث شروع کی گئی ۔ قانون ساز کونسل میں اپوزیشن نے مہلوک کسانوں کی یادیں دو منٹ خاموشی منانے کا مطالبہ کیا جسے چیر مین سو امی گوڑ نے مسترد کردیا۔ وزیر زراعت پوچارم سرینواس ریڈی نے اس دوران کہا کہ موجودہ صورتحال کے لئے سابق حکومتوں کی ناقص پالیسیاں کے ذمہ دار ہیں ۔ کئی دہوں تک زرعی شعبہ کو نظر انداز کردیا گیا۔ آبپاشی پراجکٹوں کی تعمیر پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ چھوٹی آبپاشی نظام کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا ۔ برقی کی ناقص سربراہی اور دیگر وجوہ کے باعث آج کسانوں کی حالت قابل رحم ہوگئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگست اور ستمبر کے دوران معمول سے انتہائی کم بارش ہوئی جس کے نتیجہ میں پانچ اضلاع میں50تا70فیصد فصلیں تباہ ہوگئیں جب کہ صرف محبوب نگر ضلع میں صد فیصد فصلیں تباہ ہوگئیں ۔ نمائندہ منصف کے بموجب تلنگانہ اسمبلی کے اجلاس کاکم و بیش چھ دنوں کے بعد آج آغاز ہوا ۔ ایوان میں کسانوں کی خود کشی واقعات پر بحث شروع ہوئی ۔ ایوان میں بر سر اقتدار جماعت اور اپوزیشن کے ارکان ایک دوسرے پر الزامات و جوابی الزامات عائد کرتے رہے۔ کانگریس ، ٹی ڈی پی، بی جے پی۔ وائی ایس آر سی پی کے علاوہ سی پی آئی اور سی پی ایم کے ارکان نے الزام عائد کیا کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی زیر قیادت ٹی آر ایس حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے سینکڑوں کسانوں نے انتہائی اقدام کیا ہے ۔ اس طرح حکومت نے پندہ ماہ کے عرصہ میں ملک کی دوسری بڑی امیر ریاست تلنگانہ کو کسانوں کی خود کشی واقعات میں سر فہرست مقام دلادیا۔کسانوں کی خود کشی واقعات کے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے اپوزیشن ارکان نے کہا کہ 2جون2014میں جب ٹی آر ایس بر سر اقتدار آئی تب سے کسانوں کی خود کشی واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ خود کشی کرچکے کسانوں کی تعداد1400تک پہونچ گئی ہے جس سے حکومت کی کسانوں کے تئیں سنجیدگی کا پتہ چلتا ہے ۔ اس دوران حکومت ، اپوزیشن جماعتوں کو نشانہ بنانے میں مصروف رہی۔ ٹی آر ایس حکومت، کبھی بھی کسانوں کی بہبود کے لئے اقدامات نہیں کئے بلکہ صرف جھوٹے وعدے کئے۔ کسانوں تک حکومت کی عدم رسائی سے خاتون کاشتکاروں کے بشمول کئی کسانوں نے خود کشی کرلی ۔ بحث کے دوران ایوان میں حکمراں جماعت پر اپوزیشن بھاری پڑ گیا ۔ اپوزیشن ارکان نے کسانوں کی قابل رحم حالت کے لئے ٹی آر ایس کو ذمہ دار قرا ر دیا ۔ ٹی جیون ریڈی کانگریس ، ای دیا کر راؤ تلگو دیشم ، ڈاکٹر کے لکشمن بی جے پی، پی ویکنٹیشور راؤ وائی ایس آر سی پی، رویندر کمار سی پی آئی اور ایس راجیا سی پی آئی ایم نے الزام عائد کیا کہ حکمراں جماعت پندرہ ماہ کے دوران صرف اور صرف اپوزیشن جماعتوں (کانگریس اور تلگو دیشم) کو نشانہ بنانے میں اپنی توانائیاں صرف کرتی رہی ۔ حکومت نے کسانوں کو خود کشی سے باز رکھنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا جس کے باعث خود کشی واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ۔ حکمراں جماعت کا ماننا ہے کہ ریاست میں اب تک400کسانوں نے انتہائی قدم اٹھایا ہے جب کہ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے حکومت کے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے نیشنل کریمنل ریسرچ ڈیولپمنٹ کی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے ۔ حزب اختلاف کے ارکان ن وزیر زراعت پوچارم سرینواس ریڈی کے بیان کا جواب دیا ۔ سرینواس ریڈی نے کہا کہ مانسون کی ناکامی ، گزشتہ دو برسوں سے ناکافی بارش کے سبب کسان خود کشی پر مجبور ہورہے ہیں ۔ انہوں نے کسانوں کی راحت رسانی کے لئے حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے بہبودی اقدامات کا تذکرہ کیا اور کہا کہ حکومت کسانوں کے قرض کو معاف کردیا، مفت برقی سربراہی کے ساتھ کسان کے موافق اقدامات بھی کئے مگر اپوزیشن، ریڈی کے جواب سے مطمئن نہیں ہوئے ۔ انہوں نے کہا ک بینکس ، کسانوں ک قرض جاری نہیں کئے۔ قرض معافی اسکیم کے تحٹ حکومت رقم ، بینکوں کو ادا کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ حکومت نے اقساط کی شکل میں کسانوں کے قرض کو معاف کردیا مگر یہ رقم بینکوں کو اجرا نہیں کی گئی ۔ ان ارکان نے الزام عائد کیا کہ حکومت ، کسانوں میں کسان کریڈیٹ کارڈ جاری کرنے میں کوئی پہل نہیں کی ۔ ریاست تلنگانہ کے صرف80ہزار کسان ہی کریڈٹ کارڈز کے حامل ہیں ۔ انہوں نے استفسار کیا کہ حکومت، تمام کسانوں کو کریڈ کارڈز جاری کرنے کے لئے قدم کیوں نہیں اٹھایا ۔ آخر کیوں ، کارڈ کی اجرائی کو روک دیا گیا ۔ حکمراں جماعت پر سوالات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے اپوزیشن کے ارکان نے پوچھا کہ حکومت نے کیوں منڈلوں کو خشک سالی سے متاثرہ قرار نہیں دیا اور مرکز سے امداد طلب کیو ں نہیں کی۔ ان کا کہنا ہے کہ مرکز سے مدد طلب کرنے کو تلنگانہ حکومت اپنی توہین محسوس کررہی ہے مگر دوسری طرف ٹی آر ایس حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ تلنگانہ دولت مند ریاست ہے ۔ اپوزیشن کے ارکان نے کاہ کہ ہاں! یہ بات بالکل صحیح ہے کہ چند افراد کے لئے تلنگانہ امیر ریاست ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاست کے عوام غریب ہیں اور وہ اپنی گزر بسر کے لئے جدو جہد کررہے ہیں ۔ ان ارکان نے حکومت سے پوچھا کہ اگر ریاست میں خشک سالی جیسی صورتحال ہے تو پھر رورل ایمپلائمنٹ گیارنٹی اسکیم کیوں شروع نہیں کی گئی ۔ ارکان نے استفسار کیا کہ اگر تین اضلاع عادل آباد ، کھمم اور ورنگل میں بارش معمول کے مطابق رہی تو پھر ان اضلاع کے کسانوں نے خود کشی کیوں کی جب کہ صرف ورنگل میں135کسانوں نے خود کشی کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو ختم کیا ہے ۔ اسی طرح عادل آباد میں124اور کھمم میں56کسانوں نے خود کشی کرلی ہے ۔ اپوزیشن نے وزیر زراعت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ سرینواس ریڈی کا بیان حقائق کے برعکس ہے ۔ وہ تضاد بیانی سے کام لیتے ہوئے عوام کوگمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ان ارکان نے کہا کہ اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق، تلنگانہ کے صرف14 فیصد کسانوں کو بینکوں کی جانب سے قرض حاصل ہوا ہے ۔ حکومت نے ریاستی سطح کے بینکرس کا اجلاس طلب کیا جس میں بینکرس نے کسانوں کو قرض جاری کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ اس طرح86فیصد کسانون نے ساہو کاروں سے بھاری شرح سود پر قرض حاصل کیا ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت نے ملازمین کو جاری کی جانے والی رقم کا10فیصد حصہ بھی کسانوں کی بہبود پر خرچ نہیں کیا ہے۔ ان ارکان نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ مواضعات میں زرعی عہدیدارنداردہیں یہ عہدیدار حیدرآباد میں دفتر کمشنر یٹ میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجہ میں کپاس کے کئی کسانوں نے انتہائی قدم اٹھایا ہے ۔ حکومت کپاس خریدی کے لئے سی سی آئی کو ممکنہ اقدامات کرنے کی ہدایت دینے میں ناکام رہی ہے ۔
یو این آئی کے بموجب تلنگانہ اسمبلی میں وقفہ سوالات اور ایجنڈا کے دیگر امور کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسانوں کی خود کشی واقعات پر آج سے مباحث کا آغاز ہوا ہے ۔ پہلی بار ایسا دیکھا گیا ہے کہ کسی مسئلہ پر مباحث کے لئے وقفہ سوالات اور ایجنڈا کے دیگر امور کو بالائے طاق رکھا گیا ہے ۔ اس مباحث میں حصہ لیتے ہوئے حزب اقتدار کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے ارکان کو اپنے موقف کو صحیح اور برتر بتاتے ہوئے دیکھا گیا ۔ دونوں طرف سے گرما گرم مباحث ہوئے۔ حزب اختلاف اور حکمراں جماعت کے ارکان نے ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات عائد کرتے رہے۔ اپوزیشن نے کسانوں کی خود کشی واقعات کو روکنے میں ناکامی پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام عائد کیا کہ مہلوک کسانوں کے ورثناء کو دئیے جانے والے معاوضہ میں اضافہ کرنے کے سوا ٹی آر ایس نے کچھ نہیں کیا ۔ حکمراں جماعت ٹی آر ایس کے ارکان نے کسانوں کے لاو مصائب اور ان کی خستہ حالی کے لئے پیشرو حکومتوں تلگو دیشم اور کانگریس کو ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ سابقہ حکومتوں کی نا اہلی کے باعث آج کسانوں کی حالت انتہائی ابتر ہوچکی ہے۔ چھ دنوں کے بعد ایوان کی کاروائی کا آغاز آج صبح جیسے شروع ہوا مقامی مسلم جماعت کے ارکان نے وقار الدین انکاؤنٹر کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے چند منٹ تک کارروائی چلنے نہیں دی ۔ کرسی صدارت پر فائز اسپیکر مدھو سدن چاری نے کہا کہ کسانوں کی خود کشی سلگتا موضوع ہے ۔ کسانوں کی خود کشی پر بحث کے لئے ہی وقفہ سوالات کو معطل کردیا گیا ہے ۔ انہوں نے احتجاجی ارکان سے تعاون کی اپیل کی ہے ۔ وزیر بھاری آبپاشی ٹی ہریش راؤ نے کہا کہ حکومت، انکاؤنٹر کے موضوع پر بحث کے لیے تیار ہے مگر ارکان کو قانون و قاعدہ کے مطابق اس مسئلہ کو اٹھانا ہوگا ۔ دریں اثناء قائد حزب اختلاف کے جانا ریڈی نے مباحث کا آغاز کرتے ہوئے کسانوں کی خود کشی واقعات کو تکلیف دہ اور افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ جنوب مغرب مانسون کی ناکامی کے باعث کسانوں کی حالت قابل رحم ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانون کی قابل رحم حالتکے لئے سابق حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ٹی آر ایس حکومت، اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ وزیر زراعت پوچارم سرینواس ریڈی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ تخم ریزی کے بعد مانسون کی عدم پیشرفت سے فصلیں تباہ ہوگئیں ۔

Stormy Affair as Telangana Assembly Discuss Farmers' Suicides

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں