تبصرہ ناول - پانی - جستجوئے لاحاصل کی ابدی کہانی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-09-06

تبصرہ ناول - پانی - جستجوئے لاحاصل کی ابدی کہانی

urdu novel paani by ghazanfar
غضنفر کے تخلیقی تیور کو سمجھنے کے لیے ان کے ناولوں کا اسی ترتیب سے جائزہ لیا جانا چاہیے جس حساب سے وہ منظرعام پر آئے۔ "پانی" غضنفر کا پہلا ناول ہے جو 1989 میں شائع ہوا اور اسے اس دور کے دو نمائندہ ناولوں پیغام آفاقی کے "مکان" اور عبدالصمد کے "دو گز زمین" کے ساتھ ایک نئے trend setter کے طور پر دیکھا گیا۔ موضوع اچھوتا تھا، اسلوب میں جدت و ندرت تھی اور علامت و تجرید کے دھندلکوں میں ملفوف داستانوی پیرایہ بیان قارئین کی توجہ کا مرکز بن گیا۔
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق غضنفر نے اس ناول میں چاند اور بادلوں کی آنکھ مچولی کا سا ماحول تخلیق کیا ہے۔ ناول کے مرکزی خیال اور اس کی تفہیم کو مکمل طور پر قاری پر چھوڑ دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس ناول میں ذہنی آزمائش اور فکر کی خامہ سرگردانی کی کافی گنجائش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ناول کے بارے میں ناقدین کی آراء میں کافی اختلاف ہے اور خود غضنفر کا یہ خیال ہے کہ اس ناول کو آج تک مکمل طور پر کوئی نہیں سمجھ سکا ہے۔

پانی اور پیاس کا رشتہ ازلی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ پیاس کا مداوا صرف پانی ہے۔ ایسی کئی چیزیں ہیں جو پانی کا متبادل ضرور ہیں، ان سے وقتی تسکین بھی ملتی ہے اور طلب کی آگ ٹھنڈی بھی پڑجاتی ہے لیکن الاؤ سرد نہیں ہوتا بلکہ وقتی راحت کے بعد بے چینی اور بے کلی مزید بڑھ جاتی ہے اور طلب میں اور شدت آجاتی ہے۔ جس طرح پیاس کی مختلف قسمیں ہیں اِسی طرح سیرابی کی بھی مختلف صورتیں ہیں۔ ان کے درمیان جو چیز بنیادی حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ اس پیاس کا سلسلہ ازل سے ابد تک پھیلا ہوا ہے۔ انسان دنیا میں پیاسا آتا ہے اور رختِ سفر باندھتے وقت بھی تشنگی کا احساس اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ ایسا نہیں ہے کہ انسان کو پانی نہیں ملتا۔ پانی موجود ہے اس تک پہنچنے کا راستہ بھی بہت دشوار گزار نہیں ہے، ذرائع بھی دستیاب ہیں لیکن انسان کو پانی تک پہنچنے نہیں دیا جاتا۔ پانی کچھ مخصوص طاقتوں کے قبضے میں ہے اور وہ اسے عام لوگوں تک پہنچنے نہیں دینا چاہتیں۔ جان پر کھیل کر انسان پانی تک پہنچنے کا کوئی طریقہ تلاش کربھی لے تو چیرہ دستی کی کوئی نئی صورت نکل آتی ہے اور پانی پھر ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔یہ پیاس شیرخواری کے عالم سے شروع ہوتی ہے اور لحد تک ساتھ جاتی ہے۔ غضنفر نے بھی طلب کی یہ چھٹپٹاہٹ عالمِ شیرخواری سے ہی نمایاں کی ہے۔ جب جب اِس چھٹپٹاہٹ سے انسان بے حال ہوا ہے تب تب کسی نہ کسی مُسکِّن کے ذریعے وقتی طور پر کسی relief کا سامان کردیا گیا۔ اس کی حیثیت اُس pain killer کی سی ہے جس سے وقتی طور پر درد کا احساس تو مٹ جاتا ہے لیکن درد کا درماں نہیں ملتا۔ بے نظیر بھی اپنی زندگی میں یہ تجربہ باربار اور الگ الگ طرح سے کرتا ہے۔ ایک مفلوک الحال غربت کی ماری فاقہ زدہ ماں جو اپنے بچے کی بھوک پیاس مٹانے پر قادر نہیں چند ٹھیکروں کے ذریعے دبا دبا کر اپنی چھاتی سے نکالے گئے دودھ کے چند قطروں میں چٹکی بھر سیاہ سفوف ملاکر بچے کو پلا دیتی ہے۔ بچہ بھوک پیاس بھلاکر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتا ہے لیکن کب تک، بھوک پیاس پھر ستاتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ماں کی حالت مزید خستہ ہوجاتی ہے اور اس بار دودھ کے چند قطرے بھی نہیں ہیں لیکن بچے کی تشنگی کا احساس تو کم کرنا ہی ہے۔ منہ کے لعاب میں سفوف گھول کر پلا دیا جاتا ہے۔ وقت کا پہیہ آگے بڑھتا ہے اور دو حروف پر مبنی وہ لفظ سنائی دیتا ہے جو طلب کا پہلا استعارہ ہے 'مم'!
بظاہر یہ بے معنی سا لفظ ہے جسے پانی کا استعارہ بنا دیا گیا ہے۔
وقت پیما میں ریت گرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، بچہ بڑا ہوجاتا ہے۔کالا سفوف چٹانے اور اسماعیل اور آبِ زمزم کی کہانی سنانے والی ماں ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ اب بے نظیر اپنی سیرابی کا سامان خود کرتا ہے اور اس مُہم جوئی میں وہ بیاباں میں داخل ہوتا ہے مگرمچھوں سے لڑتا ہے۔ زہریلے پانی کو آبِ زلال بنانے کے لیے پہاڑ زہر مہرہ کاٹ لاتاہے لیکن اتنی محنت و مشقت سے پینے کے لائق بنایا گیا پانی پھر ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ اس بار غاصب کوئی اور نہیں بلکہ وہ محافظ تھے جنھیں پانی کی پاسبانی پر مامور کیا گیا تھا اور پانی کی بازیافت پھر شروع ہوتی ہے۔ بازیافت کے اس سفر میں بے نظیر کی ملاقات طرح طرح کے لوگوں سے ہوتی ہے۔ دارالتحقیقات میں عجیب الخلقت بونے اپنا تمامتر علم اور صلاحیتیں صرف کرکے بھی یہ پتہ نہیں لگاپاتے کہ وہ کون سے حادثات اور واقعات تھے جو تالاب کے پاس رونما ہوئے۔وہاں تعینات کردہ آدمی کہاں گئے؟ اور تالاب میں انسانی لب و لہجے والے مگرمچھ کہاں سے آئے؟
پانی کی جستجو اسے تحقیق و ترقی کی تجربہ گاہوں تک لے جاتی ہے لیکن جدید سائنس اور ماڈرن تحقیق اسے انتظار کی اذیت کے سوا کچھ اور نہیں دے پاتی۔ بے نظیر گھبرا کر روحانیت کے دامن میں پناہ لیتا ہے۔ یہاں اُسے وجود و شہود کا فلسفہ ذہن نشیں کرایا جاتا ہے۔ توکل و استغناء کا سبق دیا جاتا ہے اور پانی کی تلاش کے بجائے مئے عشق سے سرشاری کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ مجاہدۂ نفس ابدی سیرابی کا ذریعہ قرار پاتا ہے۔ لیکن بے نظیر کے ہاتھ یہاں بھی کچھ نہیں آتا۔ مایوس ہوکر بے نظیر صحرا نوردی کرتا ہے۔ سراب کے پیچھے بھاگتا ہے۔ ماہیِ بے آب کی طرح تڑپتا اور مرغِ بسمل کی طرح چھٹپٹاتا اور ایڑیاں بھی رگڑتا ہے لیکن پانی کا سراغ نہیں پاتا۔
جن مختلف طرح کے آبیازوں کا ذکر غضنفر نے اس ناول میں کیا ہے شاید اُن میں مؤثر ترین آبیازہ عورت ہے۔ کیونکہ جنت میں تمام نعمتوں کے باوجود آدم کو ایک ساتھی ، ایک ہمدم، ایک مونس، ایک ہمراز کی ضرورت محسوس ہوئی تھی اور اسی بے کلی کے مداوے کے لیے اللہ نے حوا کو تخلیق کیا تھا۔ جنس زندگی کاایک طاقتور اور اہم ترین factor ہے اور اس کی اہمیت اور ضرورت سے انکار بھی ممکن نہیں۔ قدیم مذاہب خاص طور پر ہندو دھرم میں جنس کو بنیاد بناکر مختلف فنون کے ذریعے زندگی کے اسرار و رموز کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔لیکن نہ جانے کیوں اس ناول میں عورت کی پیشکش کا انداز کافی چبھتا ہوا محسوس ہوا۔ شاید موضوع کے تقاضے کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ناول نگار کے لیے ایسا کرنا ضروری ہو لیکن ہندوستانی معاشرہ اور مہذب ادب دونوں اس طرح کی عریاں نگاری کی اجازت نہیں دیتے۔
ناول ایک فن ہے اور اگر بات فن کی کی جائے تو یہ نکتہ بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ اجنتا اور ایلورا کے غاروں میں اور کھجوراہو کے مجسموں میں اس سے زیادہ عریانیت موجود ہے۔ بات درست ہے لیکن نظروں کی زبان نہایت خاموشی کے ساتھ دل و دماغ پر اپنا تاثر درج کردیتی ہے جب کہ وہی باتیں اگر الفاظ کے ذریعے بالکل کھول کر صفحہۂ قرطاس پر بکھیر دی جائیں تو نظریں بھٹکتی ہیں، دل اچٹتا ہے اور ہاتھ کتاب کو سہارا دینے سے انکار کردیتے ہیں:
ملتی ہے اشارات سے ہر حال میں تحریک
تفصیل سے ہر بات بتائی نہیں جاتی
اگر یہ عریانیت ایک دو جملوں تک محدود ہوتی تو شاید نظرانداز بھی کی جاسکتی تھی لیکن اس ناول میں کئی مقامات پر ایسے اقتباسات موجود ہیں جہاں پوری جزئیات نگاری کے ساتھ پیکرناز کے ظاہر و باطن اور نشیب و فراز کو بے نقاب کیا گیا ہے اورایک نہایت اہم اور بے انتہا وسعت رکھنے والا موضوع اپنی منفرد شناخت قائم نہیں رکھ سکا۔ ایک باشعور ناول نگار جو زبان و بیان پر قدرت رکھتے ہیں، تمثیلی و استعاراتی پیرائے میں بات کہنے کا فن جانتے ہیں۔ سنجیدہ ادب اور مہذب قاری اُن سے اس قبیل کی تخلیقیت کی توقع ہرگز نہیں رکھتا۔
آبیازوں کی جو دیگر مختلف قسمیں ہیں ان میں سے ایک اشتہاء انگیز کھانا بھی ہے۔ دنیا بھر کی نعمتیں اور اشتہاء انگیز کھانے وقتی طور پر تسکینِ نفس کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور انسان کو اس کے مقصدِ اولین ، نصب العین یا بنیادی حق کے حصول کی جدوجہد سے غافل کرسکتے ہیں لیکن یہ درماں بھی وقتی ہے دائمی نہیں۔
ایک آبیازہ وہ بھی ہے جو روحانیت کی شکل میں بے نظیر کو غار رہبان کے اندر نظر آتا ہے۔ یہاں سب کچھ سراب ہے۔ زندگی کا حاصل کچھ نہیں اور جس چیز کا حاصل کچھ نہ ہو اس کے پیچھے بھاگنا فضول ہے۔
ریاضتِ شاقہ اور تپ و تیاگ کا یہ سبق دے کر راہب بے نظیر کو باغ رضواں کے چشمۂ حیواں کا پتہ دیتے ہیں جس کا پانی انسان کو تشنگی سے نجات دے سکتا ہے اور اسے ابدی سیرابی حاصل ہوسکتی ہے لیکن یہ بھی امیدِ فردا کے سوا کچھ نہیں۔ تصورسے حقیقت کی دنیا میں لوٹ کر بے نظیر کو ہڈیوں کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ان بوسیدہ ڈھانچوں کے ڈھیر میں ہر ایک ڈھانچے میں ایک سانپ بھی ملتا ہے۔ درویشوں کے ہاتھ کی تسبیح سانپ میں تبدیل ہوچکی تھی۔ یعنی تپ اور ریاضت بھی ایک آبیازہ ہے جس سے سیرابی کے حصول کا سامان کیا جاسکتا ہے لیکن تشنگی ازلی ہے،فناتک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔ بے نظیر اس روح فرسا منظر سے گھبرا کر بھاگتا ہے، کوہ و دمن سے گزرتا، ریگزاروں میں پہنچتا ہے لیکن ریگِ رواں کا تعاقب کرتے ہوئے کہیں بھی آبِ رواں نہ ملا۔ چھٹپٹاہٹ میں ریت پر ایڑیاں رگڑتے اس کی نظروں میں ننھے اسماعیل کا منظر اُبھرا جنھوں نے پیاس کی شدت سے اسی طرح ایڑیاں رگڑی تھیں اور مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں زمزم کا چشمہ پھوٹ پڑا تھا۔
کیا اسماعیل کا خدا دوسرا تھا اور بے نظیر جس خدا سے پانی کا طلبگار تھا وہ معبود کوئی اور ہے؟ اس نے آسمان کی وسعتوں میں اس خدا کو تلاش کیا جس نے بے یارومددگار یوسف کو کنویں سے نکالا، آتشِ نمرود کو گلزار بناکر ابراہیم کو آگ سے بچایا، جس نے یونس کو مچھلی کے پیٹ میں رکھا۔ یہ نہیں کہ یہ خدا کسی خاص قوم یا فرقے کا خدا ہے بلکہ کرشن کو کنس کی قید سے نجات دلانے والی بھی تو کوئی ایسی ہی طاقتور ہستی ہے۔ تو پھر بے نظیر کی تشنگی دور کرنے کی کوئی سبیل نظر کیوں نہیں آتی؟
خدا کی رحمت کو تلاش کرتی نگاہیں امرت نوش کرتے دیوتاؤں پر مرکوز ہوجاتی ہیں۔ یہاں بھی سونے جواہرات سے لدے دیوتا سیراب ہیں۔ امرت پان کررہے ہیں یہاں تک کہ دُشٹ راکشسوں نے بھی کچھ بوند امرت حاصل کرلیا لیکن انسان جو جنموں کا پیاسا ہے اسے صرف کرم کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور پانی کی تلاش میں بھٹکتا بے نظیر خضر سے ملتا ہے اور یہاں سراغ ملتا ہے چشمۂ حیواں کا جس کا جاودانی پانی ابدی سیرابی اور حیاتِ دوام بخشتا ہے، لیکن مگر مچھ یہاں بھی قبضہ جما چکے تھے اور صرف قبضہ نہیں بلکہ حیاتِ دوام بھی پاچکے تھے اور بے نظیر پیاسا کا پیاسا رہا۔ خون آلود وجود، تار تار پیراہن اور درد و کرب سے بدحال وہ اسی دیوار کے پاس جاپہنچتا ہے جس نے تالاب کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ یہاں استحصال اور چیرہ دستی آسمان چھونے لگی تھی اور پانی تلاش کرتے لوگ ایک دوسرے کا خون پینے لگے تھے اور یہ انسانیت کا خاتمہ اور حیوانیت کی انتہا تھی جہاں انسان حیوان کا لبادہ اوڑھے ذاتی مفادات کی خاطر ہر قسم کے استحصال اور خونریزی پر آمادہ تھے۔
اب جہاں تک زبان و بیان کا تعلق ہے تو یہ اس ناول کی جان ہے۔ موقع و محل کی مناسبت سے غضنفر نے اس ناول میں زبان کے کئی تجربے کیے ہیں بلکہ دارالتحقیقات میں موجود عجیب الخلقت مخلوق کے لیے تو ایک نئی زبان ہی تخلیق کر ڈالی ہے۔ اسی طرح غارِ رہبان کے درویشوں کے لیے الگ زبان اور دیوتاؤں کے لیے الگ زبان۔
اس کے علاوہ مترادفات و مرکبات کا بڑا خوبصورت استعمال بھی ناول میں موجود ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو۔۔۔
"نہنگ اپنے دہانوں کے توپ، دانتوں کے آرے، زبانوں کے پلیتے اور آنکھوں کے آتشیں گولے سمیٹے، سہمے سمٹے سطحِ آب سے سرکتے چلے گئے۔"
ایک اور موقع پر انداز گُل فشانی گفتار دیکھیے۔۔۔
"خشک خاموش لبوں پر فتح مندی کے زمزمے سج گئے۔ زرد اداس چہروں پر سرخ جھنڈیاں لہرانے لگیں۔ بے نور ویران آنکھوں میں قندیلیں جل اٹھیں۔ نشۂ کامرانی میں جھومتے ہوئے سرشار قدم پانی کے بالکل قریب پہنچ گئے۔"
ناول کے اجزائے ترکیبی میں ایک لازمی جزو زمان و مکان کا ایک مخصوص اور محدود تصور بھی ہے لیکن "پانی" اپنے موضوعی اعتبار سے کوئی time frame نہیں رکھتا۔ یہ ازل سے ابد تک کی کہانی ہے اور وقت کے اس بحرِبیکراں کو ناول کے پیکر میں سمیٹنے کے لیے ایک ایسا پیرایۂ بیان ضروری تھا جہاں حقیقت اور تخیل ہم آمیز ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلوب کے اعتبار سے بعض مقامات پر" فسانۂ عجائب"کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو ۔۔۔
"سُن اے محو حیرت اجنبی! صورت تصویر آدمی! یہ جو گوہر حضور تیرے ہیں یہ سبھی رنگ و نور تیرے ہیں۔ چیز جو بھی یہاں کی میری ہے یوں سمجھ لے کے شئے وہ تیری ہے۔ میں بھی تیری، یہ جاں بھی تیری اس جہاں کی سب آن بان بھی تیری۔ بے جھجک سب کو استعمال میں لا۔ اپنی ہستی کو مالا مال بنا۔ تن کی بستی سنوار گوہر سے۔ فن کی نگری نکھار جوہر سے۔ رنگ اس روپ کا نگاہ میں بھر۔ دولتِ حسن اپنے ہاتھ میں کر۔ انگ سے انگ کا خزانہ کھول۔ جسم سیمیں کا نشہ روح میں گھول۔ "
ایک پری پیکر کی پیکر تراشی اِن الفاظ میں کی گئی ہے۔
"سامنے ایک پری پیکر، گل اندام، غزال چشم، رشکِ چمن، معنبرمشک ختن، لباس مرصع سے مزین، دوشیزہ دلنواز نازو انداز کے ساتھ کھڑی درافشانی میں مشغول تھی۔"
اس پری پیکر کا انداز بیان اور لب و لہجہ غضنفر کی سحرالبیانی میں ڈھل کر کس طرح سامنے آتاہے۔ ملاحظہ ہو۔۔۔
"اے جواں سال تشنہ لب۔ گرفتار طلسم تاب و تب۔ آ مرے حلقۂ آغوش میں آ۔ آ مرے جسم معطر میں سما۔ برآئے گی ہر مراد تری۔ تجھ کو مل جائے گی "اک لال پری"۔ دور ہوجائے گی تھکن ساری۔ مٹ کے رہ جائے گی بے قراری۔ مے کشی کا مزا اٹھائے گا تشنگی کا پتا نہ پائے گا۔ جسم و جاں میں نشہ سمائے گا۔ چشم سے استعجاب جائے گا۔"
الفاظ کی بازیگری کا کمال اس ناول میں جابجا نظر آتا ہے اور یہ وہ میدان ہے جہاں ان کی ہمسری کا دعویٰ چند ہی لوگ کرسکتے ہیں۔ ایک مثال دیکھیے۔۔۔
"بے نظیر ریگ میں دھنستا، تیز و تند جھکّروں کے گرم جھکورے کھاتا۔ ریت پھانکتا، ٹیلوں سے گرتا پھسلتا، بالو پر لڑھکتا جھلستا ہوا ایک میدانی علاقے میں پہنچ گیا۔"
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ انسان جن لازمی اور بنیادی ضرورتوں کے سہارے اس دنیا میں زندگی گزارتا ہے وہ وسائل ہمیشہ استحصال اور چیرہ دستیوں کی زد میں رہتے ہیں۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق طاقتور جیت جاتا ہے اور کمزور ناکام و نامراد رہ جاتا ہے۔ انسانی استحصال کی یہ وہ صورت ہے جس کی ابتداء قابیل کے ہاتھوں ہابیل کے قتل سے ہوئی تھی اور خون بہانے کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور جب تک انسان میں خودغرضی اور مفاد پرستی موجود ہے تب تک پانی کی تلاش اور اسے ہڑپنے کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔
"پانی" قدرت کے ذریعے انسان کو ودیعت کردہ قدرتی وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، جبرواستحصال کے ذریعے ان پر غاصبانہ تسلط اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے چینی، اضطراب، شورش اور خون خرابے کی کہانی ہے جس کی جھلک ہمیں اقوامِ متحدہ سے لے کر ایران، عراق، کویت، شام، مصر، فلسطین، مالی، الحزائر، افغانستان اور پاکستان وغیرہ میں صاف طور پر نظر آتی ہے۔
مختصر یہ ایک آفاقی موضوع کو غضنفر نے اپنے فن سے جاودانی عطا کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاصر ناولوں کے درمیان "پانی" اپنی ایک منفرد پہچان رکھتا ہے۔

***
Shagufta Yasmin
Flat No-27, SBI Officer's Flat, G Block, East of Kailash, New Delhi-110065
yasminferoz[@]yahoo.co.in
موبائل : 09958985522
--
شگفتہ یاسمین

A Review on novel "Pani" by Ghazanfar. Reviewer: Shagufta Yasmin

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں