فکاہیہ - مصاحب نامہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-09-06

فکاہیہ - مصاحب نامہ

chamcha musahib nama
اردو ادب میں جو مقام و مرتبہ مرزا غالب کا ہے وہ کم فنکاروں کا مقدر ہو سکا۔ مرزا نے زندگی کو ہر رنگ میں دیکھا ،پرکھا،برتا اور آزمایا۔نسلاً سلجوقی مغل،خاندانی نواب،کم سنِی میں والدین سے محرومی، مزاجاً شاعر وعاشق،شراب کی لذت وذلت سےآشنا، چوسر شطرنج گنجفہ کے شوقین، رقص وسرود کے دِل دادہ،خوددار وخودآشنا،خوفِ خدا بھی اور خواہش گناہ بھی، بیک وقت سخی بھی اور محتاج بھی تمام عمر آلام ومصائب سے واسطہ رہا۔
کبھی قلعۂ معلی کی خوش رنگ محفلوں کی جان رہے توکبھی فرنگیوں کی کال کوٹھری سے نکل کر نواب کالے خاں کی کوٹھی میں پہنچے۔ زِندگی کے یہی تجربات ہیں جو مرزا کے مقام ومرتبے کے عوامل بنے۔ ایک عام اِنسان بھی مذکورہ مراحل ومشکلات سے گزرتا ہے۔ مگر ان تجربات ومشاہدات کے شعری بیان کے لیے بحروعروض سے واقفیت،الفاظ کا ذخیرہ ومناسب انتخاب، طبیعت کی روانی اور اظہار کی مطلوبہ شدت اس میں نہیں ہوتی اس لیے غالب کے اشعار پڑھ کر یا سن کر عام آدمی کو محسوس ہوتا ہے کہ یہی سب کچھ تو اس کے ساتھ بھی پیش آیا ہے۔ غرض یہ کہ شعر میں اسے اپنی زندگی کا عکس نظرآتاہے۔ بس یہی راز ہے غالب کی عظمت کا!
دیوانِ غالب میں ایسے لاتعداد اشعار ہیں جو ،ہر انسان کو اپنی سرگذشت محسوس ہوتے ہیں۔انہیں اشعار کی طویل فہرست میں ایک شعر ہے۔
ہواہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
اپنی ذات کو ہدفِ علامت بنانا بھی فنکاری ہے۔ طنزومزاح کا یہ بڑا نازک اور خطرناک راستہ ہے ذرا بہکے اور مضمون کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔ متذکرہ شعر کا اہم کردار مصاحب ہے۔ مصاحب کے لغوی معنی ساتھی،دوست،ہم نشین وغیرہ ہوتے ہیں۔ مگر غالب کا مصاحب ہمہ گیر کردار ہے۔ جس سے ہم سب مل چکے ہیں۔

ادبی زبان اور عوامی زبان میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ عوامی زبان مغلق اورثقیل الفاظ ہضم نہیں کر پاتی فوراً ان کا متبادل ایجاد کر لیتی ہے۔ لہٰذا مصاحب کا متبادل چمچہ ہوگیا اور مصاحبت چمچہ گیری۔
مصاحب بھی مختلف اقسام کے ہوتے ہیں جن کے نام والقاب بھی مختلف۔ پولس افسر کا مصاحب مخبر یا خبری کہلاتاہے تو تاجر کامصاحب دلال۔ سب سے خطرناک مصاحب وزیر یا پولس افسر کا ہوتا ہے۔ اس کی دوستی اچھی نا دشمنی اچھی۔ ہندوستانی چونکہ پیدائشی بزدِل ہوتاہے۔ اس لیے وہ مصاحب کے آقا سے کم اور مصاحب سے زیادہ خوف زدہ رہتاہے۔ آخر یہی خوف اس کی ناکامی وبربادی کا باعث بن جاتاہے۔

چونکہ مصاحب اپنے سرپرست یاآقا کی ہر برائی وخوبی کے علاوہ امراض وعاداتِ پوشیدہ کا بھی راز داں ہوتاہے۔ اپنے آقا کے ہر آڑے اور کھڑے وقت پر کام آنے والا بندہ ہوتا ہے۔اس لیے آقا کی کیا مجال کہ مصاحب کے کسی بھی جائز یاناجائز تقاضے کو رد کردے۔ اب آپ سوچئے جب معاملہ یوں ہو تو مصاحب کاشہر میں اِتراتے پھرنا کہاں غلط ہوا ؟
ایک بات خوب سمجھ لیجئے کہ ہر بندہ، مصاحب نہیں ہو سکتا۔
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پرگایا نہیں جاتا۔

بلا کا دروغ گو،مبالغہ آمیزی سے خوب آشنا،طوطا چشم،تبدیلئ رنگت میں گرگٹ سے زیادہ ماہر، موقع شناس، موقع پرست ،موقع ساز،خود غرض،بے حیا وبے شرم وغیرہ وغیرہ یہ چند لوازمات ہیں مصاحب ہونے کے لیے۔
اب آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ کم بندوں کو اللہ ان تمام لوازمات سے نوازتا ہے اِسی لیے تو کہتے ہیں:
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا

ارسطو کا قول ہے کہ ایک کامیاب حکمراں کے زوال کے لیے اُس کا ایک جاہل مصاحب وزیر کافی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ زوال صِرف حکمراں کا نہیں ہوتا بلکہ تمام مصاحبین کا بھی ہوتا ہے۔چونکہ اپنے دورِ اقتدارمیں مصاحب کو نہ خوفِ خدا ہوتا ہے نہ اپنے اعمال کے نتائج کا اندازہ۔ لہٰذا جب اقتدار کا نشہ ٹوٹتا ہے تو اسے غالب ہی کا یہ شعر یادآتا ہے۔
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اُٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

بات جب خودفریبی کی نکلی ہے تومجھے سنسکرت زبان کی ایک لوک کتھا یادآگئی ،موضوع کی مناسبت سے آپ بھی سن لیجئے۔
کسی گاؤں میں ایک ماہر مجسمہ ساز ہوا کرتا تھا جس کے فن کی دو ردو ر تک شہرت تھی۔ قریب ہی کے شہر سے اسے لکشمی دیوی کا مجسمہ بنانے کی پیش کش ہوئی۔ اُس فنکار نے بڑی محنت و مہارت سے لکشمی دیوی کا مجسمہ بنایا۔ مسئلہ اب مجسمے کو شہر تک پہنچانے کا تھا۔ اسی کے پڑوس میں ایک کمہار رہا کرتا تھا جسکے پاس سامان ڈھونے کے لیے کافی تعداد میں گدھے تھے۔ مجسمہ ساز نے کمہار سے ایک گدھا مستعار لیا اس کی پیٹھ پرلکشمی دیوی کے مجسمے کو اس انداز سے بٹھایا کہ یوں لگتا تھا جیسے ہو بہو لکشمی دیوی گدھے پر سوار ہے۔
جونہی یہ سواری سڑک پر پہنچی عقیدت مندوں کا ہجوم بڑھنے لگا۔ عوام احتراماً گدھے کے گلے میں مالائیں پہنانے لگے پھولوں اورگلال سے سڑک پَٹ گئی چونکہ اس طرح کی عزت افزائی و پذیرائی گدھے کے لیے اَنہونی اور غیر متوقع تھی اب اُس کے دماغ میں یہ بات سما گئی کہ اس کی ذات نہایت قابلِ احترام ہے لہٰذا تمام کو چاہیے کہ اس کی عزت کریں۔ وہ خود کو عام گدھوں سے اعلیٰ و برتر مخلوق سمجھنے لگا۔ لکشمی دیوی کے مجسمے کو شہر پہنچانے کے بعد واپس گاؤں پہنچ کر گدھا رات بھر نہیں سویا، اسے اپنے اعلیٰ اور برتر ہونے کا احساس جگاتا رہا۔
دوسرے دن سے وہ اپنے ساتھی گدھوں کے ساتھ نہایت بدتمیزی سے پیش آنے لگا۔ اُس کی اِن خرمستیوں سے تمام گدھے عاجز آ گئے۔ انہوں نے اجتماعی طور پر گدھے کی شکایت اپنے قبیلے کے بزرگ سردار گدھے سے کی، چونکہ سردار بڑا جہاں دیدہ اور تجربہ کار تھا فوراً معاملے کی نزاکت سمجھ گیا۔ اس نے ملزم گدھے کو بلایا اور سمجھایا کہ :
"بیٹاجو تیری عزت و توقیر بڑھی ہے اس کی وجہ لکشمی دیوی کا مجسمہ تھا۔ عوام تیری نہیں لکشمی دیوی کی عقیدت میں پھول ہار پہنا رہے تھے۔ تیری پیٹھ سے لکشمی دیوی کا مجسمہ اترنے کے بعد تو بہرحال ہم جیسا گدھا ہی ہے اور ہمیشہ گدھا ہی رہے گا"۔

***
Rasheed Abbas
موبائل : 09326757493

Humorous Essay "Musahib Nama" by Rasheed Abbas

2 تبصرے:

  1. :)
    لاجواب تحریر ہے۔ پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی چلا گیا۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت شگفتہ تحریر
    طنز سے بھرپور اور حقائق کا اظہار کرنے والی تحریر
    جناب رشید عباس صاحب کا شکریہ
    اور تعمیر نیوز پر اس طرح کی دیگر تحریروں کا انتظار

    جواب دیںحذف کریں