کتاب عرض ہے - پانی سے مانجھی تک کا تنقیدی سفر ہے شگفتہ یاسمین کی کتاب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-09-03

کتاب عرض ہے - پانی سے مانجھی تک کا تنقیدی سفر ہے شگفتہ یاسمین کی کتاب

Pani-se-maanjhi-tak-shagufta-yasmin
کتاب : پانی سے مانجھی تک (تنقید کے آئینے میں)
مصنف : شگفتہ یاسمین
مبصر : تحسین منور

سچ بتائیں جب ہم نے یہ کتاب عرض کرنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں لگا کہ ملک کے سیاسی حالات میں لوگ اسے کہیں جتن مانجھی سے جوڑ کر نہ دیکھ لیں۔ ویسے بھی شگفتہ یاسمین کا تعلق پٹنہ ،بہار سے ہی ہے اور بہار میں ہی گنگا کی لہریں اٹھتی ہیں۔اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کا تعلق پانی سے تو ہے ہی۔مگر جب گنگا کنارے سے ہوتی ہوئی یہ تعلیم یافتہ خاتون دہلی میں جمنا کی لہروں سے جوجھتی ہے تب ہمیں لگتا ہے کہ جس گنگا جمنی تہذیب کی ہم سب بات کرتے ہیں کہیں وہ شگفتہ یاسمین کی زندگی تو نہیں ہے۔ ہم نے جب کتاب پر نگا ہ ڈالی تب ہمیں احساس ہواکہ انھوں نے ہمیں ادب و صحافت کی آبرو قرار دیتے ہوئے یہ کتاب مارچ کی چوبیس تاریخ کو 2013ء میں پیش کی تھی۔ اس میں ان کا قصور نہیں ہے ۔ہمارے ملک میں مارچ کے مہینے میں ٹیکس وغیرہ بھرتے ہوئے اور اپنے بینک کے کاغذات سے جوجھتے ہوئے مارچ اینڈنگ کے شکار لوگوں سے تو نہ جانے کیا کیا خطائیں سرزد ہوجاتی ہیں۔ابھی پچھلے دنوں بیگم ریڈیو کے ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے لئے گئیں تو انھوں نے آکر شگفتہ یاسمین کے جو قصیدے پڑھے تب ہم نے سوچا اب ان کا حق ادا ہی کردیا جائے۔ ہمیں یاد ہے کہ وہ ایک بار اپنے شریکِ حیات فیروز احمد کے ساتھ گھر آئی تھیں جن کے نام انھوں نے اس کتاب کا انتساب درج کیا ہے۔وہ جناب بھی ان سے کم شریف نہیں ہیں۔ علم کی جو تڑپ اور جو جذبہ شگفتہ یاسمین میں نظر آتا ہے وہ یقیناً قابلِ تعریف ہے ۔ویسے بھی ہم جب اپنے معاشرے کی خواتین کو پڑھتے اور آگے بڑھتے دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک قسم کی خوشی کا احساس سا ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے انھیں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں عالمی اردو کانفرنس کی نظامت کے فرائض انجام دیتے دیکھا تو اچھا لگا۔
کویت میں پیدا ہوئیں شگفتہ یاسمین نے ایک مدت تک ہمارے ساتھ دوردرشن پر اردوکی خبریں نثر کیں۔وہ اپنی قابلیت کے دم پر غلطیاں کرنے والوں کو سدھارنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھیں۔ اکثر لوگ اس وجہ سے ان سے خائف سے رہتے تھے مگر وہ ہر غلطی پر کلاس لگالینے میں پیچھے نہیں رہتی تھیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ یقینی طور پر کسی کالج یا یونیورسٹی میں پروفیسری کی زمہ داری بخوبی ادا کرسکتی ہیں۔ انھوں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے کی ہے۔ پی ایچ ڈی میں ان کا موضوع اردو ناول کی تنقید کا تجزیاتی مطالعہ تھا۔اس لحاظ سے غضنفر کے پانی سے لے کر مانجھی تک کی یہ کتاب یقینی طور پر ادب کے طالب علموں کے کام کی ہوگئی ہے ۔
ایک سو چوالیس صفحات کی یہ کتاب دو سو روپئے قیمت کی ہے جسے جنوری 2013 ء میں شائع کیا گیا تھا۔کتاب بہت خوبصورت سرورق کے ساتھ ہے اوراس کی اشاعت کا اہتمام براؤن بک پبلی کیشنز ،نئی دہلی نے کیا تھا۔کتاب کو ہاتھ میں لیتے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کتاب کسی خاتون کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کیونکہ کتاب کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اسے سلیقے کے ساتھ چھاپا گیا ہے۔ اس میں گیارہ باب ہیں۔پیش لفظ،غضنفر کی ناول نگاری کا مجموعی تاثر،پانی جستجوئے لاحاصل کی ابدی کہانی ،کینچلی زندگی کا بہروپ،جبین وقت پر جبر انسانی دو یہ بانی ،غضنفر اور عکسِ فسوں،وش منتھن ایک تنقیدی جائزہ،مم،شوراب میں ڈوبی حیات و کائنات ،مانجھی ،غضنفرسے ایک ملاقات۔یہ جو آخری باب ہے اس میں وہ ایک صحافی کے طور پر ابھرتی ہیں مگر ایسا صحافی جس نے پوری تیاری کی ہو جو اِدھر اُدھر کی باتیں کرکے اپنا وقت پورا نہیں کرتا بلکہ جس سے بات کرکے ادیب کو بھی لگتا ہے کہ ہاں آج کسی نے باقاعدہ تیاری کے ساتھ میل ملاقات کی ہے۔آج بات کرکے اچھا لگا۔
ہمیں یاد ہے کہ غضنفر صاحب کا جب یہ پانی ناول آیا تھا تب آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس میں ہم ان سے ملے تھے۔ اس پر ریڈیو پر ایک ڈرامہ بھی ہوا تھا۔ہم نے شائد اس میں اداکاری بھی کی تھی جو آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس سے نثر ہوا تھا۔ ان کے پانی کی اس وقت دھوم تھی۔ دیکھا جائے تو ہمارے یہاں اردو ناولوں کے معاملے میں چند ایک ہی نام ہیں جن میں غضنفر صاحب کا ایک الگ اور مخصوص مقام ہے۔ وہ ہماچل میں بیٹھ کر اُس وقت اردو کے لئے جو کچھ کر رہے تھے اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ایسے میں بھی وہ وقت نکال کر دہلی اور دیگر مقامات پر اردو کے فروغ کی کوششوں کے لئے نکل آتے تھے۔ اس لئے ہمارے دل میں تو ان کی بہت قدر ہے۔ لیکن شگفتہ یاسمین نے تو آگے بڑھ کر ان کے فن کو بہتر طور پر پیش کردیا ہے۔ وہ پیش لفظ میں لکھتی ہیں کہ ڈاکٹر صفدر امام قادری نے پٹنہ میں انھیں غضنفر صاحب کا ناول' فسوں' پڑھنے کو دیا تھا۔اس پر انھوں نے تاثرات لکھے' غضنفر اور عکسِ فسوں'کے عنوان سے جسے کافی سراہا گیا۔اس کے بعد تنقیدی مضامین کا یہ سلسلہ بڑھتا گیا۔پھر وہ دہلی آنے کے بعد لکھنا ترک کر کے بیٹھ گئیں۔ تب غضنفر صاحب نے ایک دن ان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا" اگر آپ نے لکھنا روک دیاتو آپ کے اندر کا قلمکار مر جائے گا! اور آپ کبھی نہیں لکھ پائیں گی۔"بس یہ گرو منتر پاکر انھوں نے ایک بار پھر قلم اٹھا لیااور جو سلسلہ' وش منتھن 'اور 'دویہ بانی ' پر آکر سکوت کا شکار ہو چکا تھااسے ایک بار پھر شروع کیا گیااور اس کے بعد 'کینچلی' 'شوراب' 'پانی' اور 'مانجھی' پر ان کے تحریر کردہ تنقیدی تجزیے کاغذ پر منتقل ہوتے چلے گئے۔ اس کے بعد انھوں نے بہترین کام یہ کیا کہ جب اتنے مضامین ہوہی گئے تھے تو اسے کتابی شکل میں ایک جگہ کرکے ادب کے طالب علموں کو بھٹکنے سے بچا لیا۔ یہی نہیں اس کتاب میں غضنفر صاحب کا انٹرویو شامل کرکے ان کی اس شخصیت کو سامنے لانے کا بڑا کام اور کردیا جس نے یہ کارنامے انجام دیے تھے۔اس کتاب میں کسی اور نے کچھ نہیں لکھا ہے۔ حیرت ہوتی ہے۔ وہ چاہتیں تو غضنفر صاحب سے ہی اپنے بارے میں کئے بہترین جملے لکھوا سکتی تھیں۔جن کے فن پر شگفتہ یاسمین کی اس قدر گہری نظر رہی ہو وہ مصنف اس کتاب پر کیوں نہیں لکھ سکتا ہوگا مگر شگفتہ یاسمین نے ایک طالب علم کی حیثیت سے اس کتاب کو پیش کیا ہے ۔یہ بھی ان کی تہذیب کی ہی علامت ہے۔
وہ پہلے مضمون میں جس کا عنوان غضنفر کی ناول نگاری کا مجموعی تاثر ہے ، ان کے ہر ناول کا تعارف بھی پیش کرتی ہیں ۔ان کی زبان بہت سادہ اور سلیس ہے۔ جو آسانی سے دل میں جگہ بنالیتی ہے۔ یہ ایک طرح سے غضنفر صاحب کی ادب میں کی گئی محنت کا اعتراف ہے ۔جس سے ان کی ناول نگاری کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت بھی ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ یہ کتاب غضنفر کے ادبی سفر کوجو کبھی پٹنہ، کبھی علی گڑھ ،کبھی سولن اور کبھی دلّی کے ارد گرد رہا اس پر بھی ہمیں نگاہ ڈالنے کا موقع دیتی ہے۔شگفتہ لکھتی ہیں ۔
"غضنفر صاحب کی طبیعت میں میں ایک اضطرابی کیفیت ہے ۔وہ سیدھی لکیر پر چلنے اور چلتے رہنے کے قائل نہیں ۔وہ چیزوں کو discover کرنا چاہتے ہیں اور تحقیق و تلاش اور فکر وجستجو کی یہی آرزو انھیں دشت تو دشت دریاؤں میں بھی گھوڑے دوڑا دینے پر مجبور کردیتی ہے۔ "
پانی ،کینچلی،کہانی انکل ،دویہ بانی(دلتوں پر اپنی طرز کا بہترین ناول)،فسوں،شوراب اور مانجھی تک کا یہ سفر اس کتاب میں کہیں نہ کہیں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ پانی ان کا پہلا ناول تھا جس کے آنے کے بعد ایک کہرام سا مچ گیا تھا۔ اس کتاب میں شگفتہ یاسمین نے جس ترتیب سے ناول آئے ہیں اسی ترتیب سے ان ناولوں کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ ممکن ہے کہ شگفتہ یاسمین کے تجزیہ سے کچھ لوگوں کو اتفاق نہ ہو مگر اس میں دو رائے نہیں کہ انھوں نے ہمارے وقت کے ایک بڑے ناول نگار کے بارے میں وہ سب کچھ اس کتاب میں پیش کردیا ہے کہ جسے ہمارے جیسا آدمی تو ضرور پڑھنا چاہے گا۔یہ کتاب غضنفر صاحب کے ناولوں ،ان کے کرداروں ،ان کے اسلوب ،ان کی ناولوں کے ماحول اور اس کی تخلیق کے پس پشت جو کچھ کشمکش ناول نگار کے دل ودماغ میں موجود رہی ہوگی اس کو بھی سامنے لانے کا کام کیا ہے۔ شگفتہ یاسمین کی یہ اچھی کوشش ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ ادب کے جو نئے لوگ ہیں انھیں اسی طرح ہمارے وقت کے معتبر تخلیق کاروں کی ہر تخلیق کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر ایک پر اس طرز کے مضامین لکھ کر کتابی شکل میں لانے کا سلسلہ شروع کرنا چاہئے ۔اس سے ایک تو تحقیق و تنقید کے نئے راستے کھلیں گے ساتھ ہی نئے لوگوں کو آگے بڑھنے کا موقع بھی ملے گا ۔نہیں تو وہی کلاسیکی ادب سے الجھے رہئے اور کچھ نیا تحقیق میں نہ ہو پانے کی شکایت سنتے رہئے۔ اس قسم کے تحقیقی کارناموں کی ستائش کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ فروغ بھی دیا جانا چاہئے۔اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے آپ کو غضنفر صاحب کے سب ناول بھی پڑھ لینے چاہئیں تاکہ آپ کو محسوس ہو کہ شگفتہ یاسمین نے کس قدر گہرائی سے غضنفر کے ناولوں کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ کتاب غضنفر صاحب کے ناولوں کو بار بار پڑھنے کا موقع اور ضرورت محسوس کرواتی رہے گی ایسا ہمارا ماننا ہے۔اس کے لئے شگفتہ یاسمین مبارک باد کی مستحق ہیں۔

***
Tehseen Munawer
122-First Floor, Hauz Rani, Malviya Nagar, New Delhi- 110017
munawermedia[@]gmail.com
موبائل : 09013350525
--
تحسین منور

A Review on book "Pani se maanjhi tak" by Shagufta Yasmin. Reviewer: Tehseen Munawer

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں