اس کے علاوہ جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے ریاست میں گائے کے گوشت کی مکمل فروخت پر پابندی لگانے کا حکم دیا ہے ،جس پر مسلمانوں اور علیحدگی پسندوں کی جانب سے سخت رد عمل دیکھنے کو آرہا ہے ، بلکہ اس کونہ صرف سیکولر فطرت ؛ بلکہ ایمان کے خلاف قرار دیا گیا، ہائی کورٹ نے پولیس جنرل ڈائرکٹر کو ہدایت دی ہے کہ وہ تمام اضلاع میں پولیس افسران کو اس پابندی کو لاگو کرنے کا حکم کریں، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیرمین محمد یاسین ملک نے ریاست میں بڑے گوشت کی فروخت پر پابندی سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلے پراپنا رد عمل ظاہر کرتم ہوئے کہا کہ گائے ، بھینس اور ایسے ہی دوسرے جانوروں کے گوشت پر پابندی عائد کرنے احکامات راست طور پر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور جموں کشمیر میں مذہبی رواداری کو زک پہنچانے کے مترادف ہیں، اس کو دین میں مداخلت قرار دیا، بلکہ 12ستمبر کو ہڑتال کی بھی بات کہی، اس کے علاوہ مسلم لیگ نے بھی اس کی مذمت کی ۔
ان متنازعہ فیصلوں اور گوشت کی سیاست کے تناظر میں یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اب حکومت یہ فیصلہ کرے گی ہندوستان ہر باسی کے گھر میں کیا پکے ، بلکہ اب تو حکومت نے شاید یہ بھی طئے کرلیا ہے کہ کس کو کیا پڑھنا ہے ، کس کو بولنا ہے اور کس کو کیا پہنا ہے ، اس طرح سے سے ہندوستان کی جمہوریت اور سیکولرم خطرہ میں آجائے گا، اس طرح کے گوشت کے تعلق سے متنازعہ فیصلوں کے ذریعے مرکزی اور ریاستی حکومتیں جمہوریت کا گلا گھونٹ رہی ہیں ، اس طرح ہندوستان کے آئین اور دستور میں حاصل آزادی کو چھینا جارہے ، یکطرفہ فیصلوں کے ذریعے ہندوستانی سماج اور معاشرے کو ان کے غیر ارادی رخ پر ہانکا جارہاہے ، خصوصا بقرعید کے موقع سے گوشت کی سیاست سے دراصل ہندوستان کی باسی اقلیت کو ہراساں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،کون کیا کھائے ، کیا پیئے ، یہ سرکار کیسے طئے کرسکتی ہے ،؟یہ طبی اعتبار سے بھی غیر سماجی عمل ہے ، کئی امراض ایسے ہوتے ہیں جو پروٹین زدہ خوراک کا مطالبہ کرتے ہیں ۔
اگر یہ کہتے ہیں مہارشٹرا اور راجستھان میں چند دنوں کے مکمل گوشت پر پابندی اس لئے لگائی ہے کہ ایک فرقہ کے مذہب کا معاملہ ہے ، تو یہ سچ ہے کہ مذاہب کا احترام ہونا چاہئے ، لیکن ان دنوں میں بازار میں گوشت ہی فروخت نہ ہو، اور کسی کے گھر میں گوشت ہی نہ بنے ، یہ تو ہر آدمی کے اپنے گھر میں عمل دخل کے مترادف ہے ، وہ اپنے گھر میں گوشت کھاتا ہے تو اس پر اعتراض کیوں؟ ، اگر مذاہب کے احترام کے بات چل جائے تو رمضان المبارک کے موقع سے جب کہ تمام مسلمان روزہ رہتے ہیں ، خصوصی عبادت اور اللہ کی طرف توجہ کا مہینہ ہوتا ہے ، اس میں پوری ملک میں مسلمانوں کے رمضان کے احترام میں شراب پر پابندی ہونا چاہئے ، کیا اس مانگ اور مطالبہ کو کوئی سرکار پورا کرے گی ؟ یا اسے دوسرے فرقے کے لوگوں کی شخصی آزادی میں دخل اندازی قرار دے کر اسے رد کردے گیں ، بلکہ مہارسٹرا حکومت نے تو یہ بھی قانون پاس کیا ہے کہ جو کوئی بھی شخص حکومت اور رہنماؤں اور حتی کہ کونسلوں اور مقامی لیڈروں کے خلاف زبان کھولے گا اس پر غداری وطن کا مقدمہ درج ہوگا؟ گویا بولنے پر بھی پابندی لگائے جارہی ہے ، اس کے علاوہ تعلیمی نصاب میں بھی بڑے پیمانہ پر تبدیلی کے ذریعے نصاب کو بھی بھگوا رنگ دے کر یہ طئے کیا جارہے کہ کیا پڑھنا ہے؟ گویا ہندوستان جیسے ملک میں آدمی کو یہ آزادی حاصل نہیں ہے کہ وہ کیا کھائے ؟ ، کیا پیئے؟ ،کیا بولے اور کیا پڑھے ؟ یہ ساری چیزیں مرکزی وریاستی حکومتیں طئے کریں گے ؟ اب آپ یہ بتائے کہ ہمارا ملک آزاد اور جمہوری ملک ہے؟ جب کہ ہماری جمہوریت اور ہمارے ملک کی آزادی پر ساری دنیا کو ناز ہے ، یہاں کی 26 جنوری کی پریڈ اور 15اگسٹ کے موقع سے جو جشن منایا جاتا ہے ، وہ ساری دنیا کے لئے قابل دیدہوتا ہے ، لیکن کیا اس قسم کے متنازعہ فیصلے ہمارے ملک کی جمہوریت کا گلہ گھوٹنے کے مترادف نہیں ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے متنازعہ اور ایک فرقہ کی خوش آمدی والے فیصلوں کے ذریعے آئندہ بہار ، یوپی ، بنگال وغیرہ انتخابات کے لئے میدان ہموارکیا جارہاہے اور وہاں بی جے پی قدم مضبوط کرنے کی تگ ودو ہورہی ہے ،لیکن اس طرح کی تنگی اور گھٹن اور متنازعہ فیصلوں سے بالکل بھی لوگوں کا دل جیتا نہیں جاسکتا ہے ، بلکہ یہ تو عوام میں نفرت کے بیچ بونے کے مترادف ہیں، جس کے پھل آئندہ دنوں میں کڑوے پھلوں کی شکل میں دیکھنے کو ملیں گے ۔
***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی |
Politics on banning Meat & Beef. Article: Mufti Rafiuddin Haneef Qasmi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں