پہلے ان اصطلاحوں کا استعمال پھر مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں پر ان کا گمراہ کن اطلاق اور پھر ان مسلمانوں کی درست شناخت مہاجرین کا جائزہ لے کر مضمون کا مدعا مکمل کرنے کی کوشش ہوگی ۔ مشرق وسطی میں جو دوزخ صیہونی جنگ سازوں نے لگائی ہے اس سے بچنے کے لئے عراق و شام کے لاکھوں مسلمان پناہ گاہوں کی تلاش میں نکلے ہیں ۔ ان مسلمانوں کی اکثریت نے یوروپ کا رخ کیا ہے ۔ گزشتہ سال تقریبا دو لاکھ مسلمان مسلمان بحیرہ روم کے خطرات کا سامنا کرکے یوروپ پہنچے جب اس سال یہ تعداد اب تک432,761تک پہنچ چکی ہے ۔ یہ تعداد دوگنی سے زائد ہے جس کی ایک وجہ جرمنی کی طرف سے آٹھ لاکھ پناہ گزینوں کے لئے خوش آمدید کا اعلان ہے ۔ دوسری وجہ مشرق وسطی کے در بدر مسلمانوں کے لئے وضع کردہ در بدری ہے ۔ یہ تاثر قطعی درست نہیں ہے کہ مسلمان ملکوں میں مہاجرین کو پناہ نہیں دی گئی ، اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں شامی مہاجرین کی تعداد21,38,999تک پہنچ چکی ہے ۔ کویت میں20,000شامی مہاجرین کو مقامی شہریت دی جاچکی ہے ۔ رواں سال مارچ تک2,47861شامی مہاجرین عراق تک میں پناہ لے چکے ہیں ۔ رہ گئے خطہ کے دیگر مسلمان ممالک ۔ اگر اقوام متحدہ امریکہ اور یوروپ انہیں شامی مہاجرین کی بستیاں قائم کرنے کا حکم دیں تو ہے کسی میں انکار کی جرات؟ مگر اقوام متحدہ یوروپ اور امریکہ ایسا بالکل نہیں چاہتے ۔ وجہ سادہ سی ہے ۔ عظیم تر اسرائیل میں مسلمانوں کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ۔ در حقیقت مشرق وسطی میں مسلمانوں کی یورو پ کی طرف ہجرت محض اتفاق نہیں بلکہ ابلیس کے چیلوں کے باہمی اتفاق کا نتیجہ ہے ۔ ایسا کیوں ہے ؟ یہ مغربی ذرائع ابلاغ پر ابھرنیو الی مذکورہ اصطلاحات میں نمایاں ہورہا ہے ۔ یہ گمراہ کن اصطلاحات در بدر مسلمانوں کو ایک طے شدہ صورت حال کی طرف دھکیل رہی ہے ۔ پہلی اصطلاح ہے تارکین وطن ۔ انگریزی لغت میںMigrantکی تعریف یہ ہے کہ: ایک ایسا شخص جو کام کے حصول کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے ۔ اس تعریف کی وضاحت میں کہا جاسکتا ہے کہ بہتر روزگار یا بہتر طرز زندگی کے لئے کسی فرد، خاندان یا گروہ کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا ترک وطن کرنا ہے۔ یہ عارضی اور مستقل دونوں صورتوں میں ہوتا ہے۔ غریب اور ترقی پذیر ملکوں سے ترقی یافتہ ملکوں کی طرف ترک وطن ایک عام صورت ھال ہے۔ بر صغیر سے خلیجی ملکوں، یوروپ اور امریکہ تک بہتر معیار زندگی کی تلاش میں ترک وطن سامنے کی بات ہے ۔ شام و عراق کے مہاجرین نے جب یوروپ کا رخ کیا اور سانحہ ایلان کردی سامنے آیا اور غم و غصہ نے پور ی دنیا کو لپیٹ میں لے لیا تو مغربی ذرائع ابلاغاور یورپی حکمرانوں نے پروپینگڈا شروع کردیا کہ یہ تارکین وطن کا مسئلہ۔ ذرائع ابلاغ نے کہا کہ ایلان کردی کے باپ عبداللہ کردی نے یوروپ کی پر تعیش زندگی کے چکر میں خاندان کو سمندر میں ڈبو دیا۔ مشرق وسطیٰ کے در بدر مسلمان در اصل وہ تارکین وطن ہیں جو یوروپ کی پر امن اور پر تعیش زندگی کے لئے ترس رہے ہیں ، سرحدوں پر امنڈ رہے ہیں ، یورپ جیسے امن کے گہوارے میں پناہ کے لئے مرے جارہے ہیں ۔
دوسری اصطلاح ہے پناہ گزین ۔ پناہ گزینRefugeesکہتے ہیں ایسے انسانی گروہ کو جو جنگ زدہ حالات یا قدرتی آفت کی صورت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پناہ تلاش کرتے ہیں ۔ مشرق وسطیٰ کے مہاجرین کو تارکین وطن کہے جانے پر مغرب میں ہی جب سوچا سمجھا اعتراض اٹھا تو فوراً پناہ گزین کی اصطلاح کا جال پھینکا گیا ۔ کہا گیا کہ یہ جنگ زدہ ملکوں کے مظلوم انسان ہیں۔ یہاں جنگ زدہ سے مرا د خانہ جنگی اور وہ صورت حال ہے جس کے ذمہ دار صرف داعش اور باغی گروہ ہیں ، مغربی دانشورں کے لئے جنگ زدہ مشرق وسطی سے مراد صہیونی دہشت گردی اور یوروپ کا جارحانہ فساد ہرگز نہیں ہے ۔) کہا گیا کہ ان مظلوموں کو پناہ دینے کا نیک کام یوروپ کو بڑھ چڑھ کرنا چاہئے ۔ یہاںRefugees اورMigrantsکی اصطلاحات کو گڈ مڈ کر کے یوروپ کے ملکوں کو توجہ دلائی گئی کہ جرمنی کی طرح انہیں بھی برابر برابر حصہ ڈالنا چاہئے ۔ یہاں تیسری اصطلاح معاش کے متلاشی تارکین وطن سامنے لائی گئی ۔ تارکین وطن کو پناہ گزین سے دوبارہ تارکین وطن بنادیا گیا ۔ تیسری اصطلاحEconomic Migrantsکو مغربی دور یورپ کے معاشی غلام کے طور پر بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ عین سیاہ فام افریقی غلاموں کی طرز پر ۔ مشرق وسطی کے مسلمان مہاجرین کے لئے اس اصطلاح کا استعمال عالمی جریدےThe Economistنے مضمونExodusمیں کیا ہے ۔ جریدہ لکھتا ہے:
یوروپی پالیسی سازوں کو تین گروہوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے، پناہ گزین ، معاش کے متلاشی تارکین وطن اور گھر کے ووٹرز۔ پناہ گزین اور معاشی تارکین وطن آپس میں گڈ مڈ ہیں تو پھر دونوں میں فرق کس طرح کیاجائے ؟ اس بحث میں پڑے بغیر یہ بنیادی نکتہ سمجھا جائے کہ معاش کے متلاشی تارکین وطن یوروپ کی ضرورت ہیں، کیوں کہ یوروپ کے پاس اپنے شہریوں کی ریٹائرمنٹ پر اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ تارکین وطن پبلک کی جیب بھرنے کے لئے براہ راست مددگار ہوسکتے ہیں ۔ یہ معیشت کو توانا بناسکتے ہیں ۔ ان نئے آنے والوں کو گھروں ، اسکولوں اور صحت کی سہولیات درکار ہوں گی ۔ ظاہر ہے یہ درماندہ لوگ کم سے کم اجرت پر کام کے لئے آمادہ ہوجائیں گے ۔ جہاں مزدور پیشہ کے حالات سخت ہوں وہاں تارکین وطن ایک نچلا طبقہ بن سکتے ہیں ۔ یہ صورت حال نہ صرف یورپ کو مستحکم کرسکتی ہے بلکہ پبلک کی خوشحالی کے لئے بھی اچھی پالیسی ثابت ہوسکتی ہے اور یورپی کی مزدور پیشہ منڈیوں کو مضبوط بنا سکتی ہے۔ یہ یوروپ کی ضرورت ہے چاہے وہ تارکین وطن کو قبول کرے یا نہ کرے۔
غالباًEconomic Migrantsاصطلاح کی کافی وضاحت اقتباس میں آچکی ہے ۔ یہاں یہ اضافہ بے جا نہ ہوگا کہ مشرق وسطی کے مہاجرین کو یورپ کا مزدور پیشہ غلام طبقہ بنانے کے لئےHate Crimeاور مذہب کی تبدیلی کے ہتھیار بھی تیار ہیں ۔ برطانیہ سمیت اکثر یوروپی ملکوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت زدہ جرائم کو فروغ دیاجارہا ہے ۔ سیاہ فاموں کی طرح مہاجرین کی نسل پرست دہشت گردوں کے آگے شکار کے طور پر ڈالا جارہا ہے ۔ جو مہاجرین در بدری سے دل شکستہ ہوجائیں ان پر عیسائیت کا جال پھینکا جارہا ہے ۔مغربی بیانیے میں مشرق وسطی کے مہاجرین کے لئے تارکین وطن کی اصطلاح کا مقصد حقائق کو مسخ کرنا ہے ۔ ظاہر یہ کرنا ہے کہ مشرق وسطی کے مہاجرین دراصل یورپ کی بہتر معاشی زندگی کے طلب گار ہیں، یہاں تک کہ سمندروں میں انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں جان تک سے کھیلنے پر آمادہ ہیں ۔Refugeesیعنی پناہ گزین کی اصطلاح بھی مہاجرین پر اطلاق کے لئے نا مناسب ہے۔ اصطلاح عام معنوں میں جنگ زدہ صورت حال یا سیاسی وجوہات پر در بدر ہونے والے مسلمانوں کی نشاندہی کرتی ہے بالکل اسی طرح جیسے یوروپ کے در بدر یہودی یا ویت نامی یا یوگینڈا کے پناہ گزین وغیرہ وغیرہ۔ مشرق وسطی کے مسلمانوں کی د ر بدری کو پناہ گزین کی عام اصطلاح میں گم نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ در بدری اسلامی تہذیب کے خلاف عالمی جنگ کا شاخسانہ ہے جسے مناسب ترین اسلامی اصطلاح مہاجرین ہی میں واضح کیاجاسکتا ہے ۔ یہ اصطلاح اپنے اسباب اور اثرات میں مکمل طور پر تہذیبی کشمکش کی حامل ہے ۔ یہ اصطلاح اپنی وضاحت میں سارے حقائق سامنے لاسکے گی، یوں مغربی بیانیے کا دجل ٹوٹ سکے گا ، دھوکے کی دھند چھٹ سکے گی ۔
Muslim immigrants - the workers or refugees
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں