مرثیہ کی ادبی حیثیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-09-02

مرثیہ کی ادبی حیثیت

urdu-marsiya
دنیا کی بیشتر زبانوں کی ابتداء نظم سے ہوئی اور نظم کی قدیم ترین صنف مرثیہ ہے۔مرثیے کا تعلق ابتدائے آفرینش سے ہے،مرثیے کی دنیا میں سب سے پہلے مرثیے کے وہ اشعار شمار کئے جاتے ہیں جو حضرت آدم ؑ نے اپنے فرزند ہابیل کی ہلاکت پر کہے تھے۔مرے ہوؤں پہ ماتم کرنا قدرتی امر ہے۔
مرثیہ ایک قدیم صنف ادب ہے،جس سے کوئی دور اور کوئی زبان خالی نہیں ہے،عرب میں مرثیہ گوئی کا عام رواج تھااور ایامِ جاہلیت میںیہ فن کافی ترقی کر چکا تھا ،جب قدیم عرب کے اس ادب کا مطالعہ کیا جاتا ہے جسے دور جاہلیت کے ادب سے موسوم کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی کہ مرثیہ اس زمانے میں نا گزیر صنف ادب تھا۔دور جاہلیت کے تمام شعراء نے اپنے کسی نہ کسی عزیز یا دوست کا مرثیہ کہا ہے۔عرب میں یہ رسم تھی کہ جب مرنے والے کی میت پہ عورتیں نوحہ کر لیتیں تھیں تو خاندان کا کوئی فرد جس میں شاعرانہ وصف پایا جاتا مرنے والے کی خوبیاں پر درد انداز میں بیان کرتا۔
عربی شاعری میں سب سے پہلی تصنیف جو ادبی نوعیت رکھتی ہے حسان بن ثابت کے وہ مراثی ہیں جو اس نے رسولﷺ کی وفات پر کہے تھے،حسان بن ثابت عرب کا مشہور و معروف شاعر تھا اس نے سوز و گداز سے پر مرثیے لکھے ہیں۔بی بی فاطمہ زہرہ نے بھی اس سانحہ عظیم پر ایک پر درد مرثیہ کہا ہے۔عرب میں مرثیہ کو خاص اہمیت حاصل تھی،عوام و خواص سب کے لیے مرثیے کہنے کا رواج تھا لیکن افسوس محمدﷺ کے نواسے پر آنسو بہانے کی کسی میں ہمت نہ ہوئی۔اگر کسی نے ہمت کی بھی تو اسے قید وبند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا۔خاندانِ بنو امیہ کے جور و ستم نے تمام شعراء کی زبانوں پر قفل لگا دئیے تھے۔علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:
"اس زمانے میں کربلا کا حیرت انگیز واقعہ پیش آیا یہ ایک ایسا واقعہ تھا کہ اگر عرب کے اصلی جذبات موجود ہ ہوتے تو اس زور کے مرثیے لکھے جاتے کہ تمام دنیا میں آگ لگ جاتی۔لیکن ادھر تو عرب کے پر زور جذبات پر انحطاط آچکا تھا۔ادھر بنو امیہ کی ظالمانہ سطوت اور جباری نے تمام شعراء کی زبانیں بند کر دی تھیں۔فرذدق بنی امیہ پائے تخت کا شاعر تھا لیکن جب اس نے ایک موقعہ پر فوری جوش سے حضرت امام زین العابدین کی مدح البدیہہ چند شعر کہے تو عبدالملک بن مروان نے اس کو جیل خانہ بھیج دیا۔(محور :ص نمبر 8:1968 ؁)
مرثیہ عربوں کی تنگ نظری کا شکار ہو کر ایران پہنچا،ایران کی خود مختاری کے بعد شاہ طہماسپ صفوی تخت نشین ہوا،شاہ طہماسپ خانوادۂ رسول ﷺ سے گہری عقیدت رکھتا تھا۔اس نے حکم دیا کہ تمام شعراء کو آئمہ اہلبیت کی شان میں طبع آزمائی کرنی چاہئیے۔مصائب کربلا کو سب سے پہلی بار محتشم کاشی نے بیان کیا،یہ پہلا شاعر تھا جسے واقعہ کربلا کو بیان کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ابتداء میں اس نے چند بندوں کا امرثیہ لکھا یہ مرثیہ صرف محاسن و فضائل پر ہی مبنی تھا۔محتشم کاشی کے بعد مقبلؔ نے مرثیہ گوئی میں طبع آزمائی کی اور مرثیہ کو بام عروج پہ پہنچایا۔مقبلؔ کا کار نامہ یہ ہے کہ انھوں نے واقعات کربلا کو تسلسل سے بیان کیا ہے۔مقبل نے کربلا کے تمام واقعات مدینے کی روانگی سے لے کر شہادت،شہادت سے لے کر اہل حرم کے قید ہونے اور رہائی کے بعد مدینے واپس آنے تک کو نظم کر دیا ہے۔
دیگر زبانوں کی طرح اردو ادب کی ابتداء بھی نظم سے ہوئی۔اب تک کی تحقیق مرثیے کو ہی قدیم ترین صنف مانتی ہے۔اردو میں مرثیہ فارسی شاعری کے توسط سے اردو میں داخل ہوا،اردو میں مرثیہ کی خشتِ اول آج سے تقریباً چار سو سال قبل دکن میں رکھی گئی۔اردو کے ابتدائی مرثیے ان شعراء نے نظم کئے جو دکن میں گولکنڈہ اور بیجا پور کی ریاستوں سے منسلک تھے۔بیجا پور اور گولکنڈہ کے شاہان اثنا عشری تھے اس لئے دکن میں مرثیے کی آبیاری کے لئے فضاء ساز گار ہی نہیں تھی بلکہ اس نے وہاں عروج بھی حاصل کیا۔احمد شاہ بہمنی کے عہد سے ہی دکن میں عزاداری اور مرثیہ گوئی کا آغاز ہو چکا تھا۔بہمنی سلطنت کے بادشاہوں کے بلانے پر اور معاش روزگار کی تلاش میں بڑی تعداد میں علماء،فضلاء اور شعراء ایران سے دکن آئے۔جو لوگ ایران سے آئے وہ اپنے ساتھ تہذیبی روائتیں ،رسم وراج اور اعتقادات و خیالات بھی لے کر آئے،ان کے آنے کے بعد دکن میں عزاداری کی شروعات ہوئی ۔مرثیے کا سب سے پہلا ثبوت آذریؔ کے یہاں ملتا ہے۔گو آذریؔ کا کلام فارسی میں ہے لیکن دکن میں مرثیے کے نقوش اولاً آذری ؔ کے یہاں نظر آتے ہیں۔
بہمنی سلطنت میں محمود گاواں اور میر فضل اللہ انجو ایران سے دکن آئے ،عزاداری ان کے عقائد کا خاص جز تھی،محمود گاواں دور اندیش،زمانہ شناس،امور سلطنت کی کارکردگی میں ماہر اور نظم و نسق میں پر مضبوط پکڑ رکھتا تھا،ان خصوصیات کے باعث اس کا شمار بادشاہ کے خواص میں کیا جانے لگا۔بادشاہ میر فضل اللہ انجو سے صلاح مشورہ کرتا اور اس کے مشوروں پہ عمل بھی کرتا،بادشاہ سے دیرینہ تعلقات کے باعث اس کے بہت سے دشمن پیدا ہو گئے تھے،اس کو فریب سے قتل کر دیا گیا اس کے بعد کوئی ایسا نہ تھا جو حکومت کو سنبھال سکے،چنانچہ چند سال میں ہی بہمنی سلطنت پانچ حصوں میں منقسم ہو گئی۔ان پانچ ریاستوں میں تین ریاستیں بیجا پور،احمد نگر اور گولکنڈہ ایرانیوں کی تھیں۔یوسف عادل شاہ جو محمود گاواں کے بعد ایرانی گروہ کا سب سے فعال امیر تھا اس نے سب سے پہلے بیجا پور میں خود مختاری کا اعلان کیا۔یوسف عادل شاہ اہلبیتِ اطہار سے گہری انسیت رکھتا تھا،دکن میں پہلا اردو مرثیہ گو شاعر کون تھا ؟اس کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے،نصیرالدین ہاشمی، اشرفؔ کو پہلا مرثیہ گو شاعر بتاتے ہیں،جبکہ رشید موسوی وجہی اور محمد قلی قطب شاہ کو اولین مرثیہ نگار مانتے ہیں۔رشید موسوی لکھتے ہیں:
"دکن میں مرثیے کے اولین نمونے ہم کو وجہی اور محمد قلی قطب شاہ کے یہاں ملتے ہیں۔وجہی اور محمد قلی دونوں معاصر تھے اور دونوں ہی مرثیے بھی لکھتے تھے۔ان دونوں میں سے مرثیہ پہلے کس نے لکھا اس کے طے کرنے کے لئے ہمارے یہاں کوئی تاریخی بنیاد ایسی نہیں کہ جس کی بنا پر ہم کسی ایک کو اولیت کا شرف بخش سکیں"
محمد قلی کے مرثیے اگر اردو ادب کے اولین مرثیے ہیں تو اس کے سامنے نمونے کے طور پر آذری ؔ اور روضتہ الشہداء کے فارسی مرثیے رہے ہوں گے۔دکن میں اردو ابھی ابتدائی مراحل میں تھی،اس لئے اس دور میں مرثیہ گوئی میں محض رنج و ملال کا اظہار کیا جاتا تھا،مرزاؔ عادل شاہی حکومت کا سب سے بڑا اور مشہور مرثیہ گو شاعر تھا،جس نے ساری زندگی صرف مرثیہ گوئی کے لئے وقف کر دی،اس نے اہلبیت اطہار کے علاوہ کسی کی شان میں نہ ہی قصیدہ لکھا اور نہ ہی کسی اور کی تعریف کی ۔رزم نگاری اور تسلسل مرزا کے مرثیوں کی خصوصیت ہے۔مرزا نے جتنے بھی طویل مراثی لکھے ہیں ان کی شروعات تمہید سے کی ہے۔مرزا نے اردو کے ابتدائی دور میں ہی مرثیے کا قد بہت بلند کر دیاتھا اور اپنی صلاحیتوں اور زور بیان سے اس میں نئے نئے پہلو اجاگر کئے۔دکن کے مشہور و معروف مرثیہ گو شعراء میں محمد قلی قطب شاہ،عبداللہ قطب شاہ، وجہی، غواصی، درگاہ قلی،ہاشم اور لطیف وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان ابتدائی مرثیہ نگاروں کے سامنے آذریؔ اور ملا حسین واعظ کاشفی ؔ کا فارسی نمونہ کلام رہا ہوگا۔اردو کے ابتدائی مرثیے زیادہ تر غزل کی ہئیت میں لکھے گئے۔
دکن میں اورنگ ز یب کے تسلط نے عادل شاہی اورقطب شاہی درباروں کا خاتمہ کردیا،شاہی درباروں کے خاتمے نے شعراء کو منتشر کردیا۔دکن میں مرثیہ عوام و خواص میں یکساں مقبول تھا اور عوام کے عقائد کا خاص جزتھا۔دکن کو فتح کرنے کے بعد جب دکن میں مقیم افواج شمالی ہند کو واپس پلٹیں تو بہت سے فوجی مرثیوں کو اپنے ساتھ لے کر آئے،کچھ فوجی مرثیہ پڑھتے ہوئے بھی آئے،دہلی میں مرثیے کا نقطہ آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔لیکن دکن میں مرثیہ نے ترقی کی جو منزلیں طے کر لیں تھیں اس سے دہلی والوں نے کسب فیض نہیں کیا،مگر اس کے باوجود ہلی کے کچھ شعراء مرثیہ گوئی کی جانب مائل ہوئے،جو شعراء مرثیہ گوئی کی جانب متوجہ ہوئے ان میں ندیم،مسکین،حزیں اور غمگین وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔یہ شعراء صرف مرثیہ کہتے تھے،مسکین ،حزیں اور غمگین تینوں حقیقی بھائی تھے ،تینوں مرثیہ گوئی میں مہارت رکھتے تھے۔ان شعراء کے علاوہ دہلی کے مرثیہ گو شعراء میں میرؔ اور سوداؔ خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ان کے مرثیوں کا مقصد حصول ثواب اور گریہ و زاری نہیں تھا بلکہ انھوں نے مرثیہ کو ادبی نقطۂ نگاہ سے دیکھا ہے۔میرؔ اور سودا ؔ کے مرثیوں میں سماجی زندگی کی جھلک اور واقعہ نگاری واضح طور پر نظر آتی ہے۔میرؔ اورسوداؔ نے اپنی عمر کا آخری دور لکھنو میں گزارا اور آخری دور میں ہی انھوں نے مرثیے لکھے ہیں میرؔ نے کم و بیش 72 مرثیے لکھے ہیں۔میر کی نظر میں مرثیہ مشکل ترین فن ہے۔سو دا نے مرثیہ میں سماج کی جڑیں ،سماجی زندگی کے متنوع پہلو تلاش کئے۔
دہلی کی بربادی اور انتشار نے شعراء کو در در بھٹکایا ،نابغہ روزگار کی خاطربہت سے شعراء کو وطن چھوڑنا پڑا۔ادھر دہلی اور دہلی والوں کے لئے زند گی گزارنی مشکل تھی ادھر اودھ عیش و عشرت کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔اٹھارویں صدی میں اودھ میں ایرانی تہذیب و ثقافت کے اثرات بہت گہرے ہو گئے تھے۔اٹھارویں صدی کے نصف آخر میں اودھ میں عزاداری کو فروغ حاصل ہوا۔سماج کا ہر طبقہ حتیٰ کہ غیر مسلم بھی اس میں دل چسپی لینے لگے ،دربار اور امراء جس خلوص اور عقیدت سے ایام عزا مناتے تھے اسی سے متاثر ہو کر لکھنو کے عوام بھی بلا تخصیص مذہب و ملت عزاداری کرنے لگے ،یہ سوز خوانیاں بھی کرتے اور مرثیہ بھی پڑھتے اس مذہبی ماحول نے عزاداری کے ساتھ ساتھ مرثیہ گویوں کی جماعت بھی پیدا کر دی تھی۔یوں تو نوابین اودھ سے پہلے ہی دہلی اور ملک کے د یگر حصوں میں واقعات کربلا لوگوں کے لئے تاریخ کا ایک تاثر انگیز باب بن گیا تھا۔لہذٰا مرثیہ نگاری کی ابتدا ء اودھ شاعری میں بہت پہلے ہو چکی تھی۔بقول مسیح الزماں اودھ میں مرثیہ کی ابتداء حیدریؔ (کریم الدین)نے کی۔مسیح الزماں حیدری ؔ کو لکھنؤ کا قدیم ترین مرثیہ گو قرار دیتے ہیں،وہ لکھتے ہیں کہ حیدری اور ان کے لکھنو ی معاصرین نے مرثیہ گوئی کو ایسے راستے پر لگا دیا جو دہلی کے مرثیوں سے مختلف اور دکن کے مرثیوں کی ترقی یافتہ صورت تھی۔حیدری کے علاوہ سکندر،گدا،احسان اور افسردہ نے بھی مرثیے کو نئے روپ اور نئے آہنگ سے روشناس کرایا،مرثیہ نگار شعراء نے سب سے زیادہ مراثی حضرت قاسم کے پر لکھے یا یوں کہ سکتے ہیں کہ حضرت قاسم کے مرثیے لکھنے کا رواج اردو میں عام تھا۔افسردہ نے اس سے ہٹ کر حضرت عباسؑ ،حضرت علی اکبرؑ اور حضرت علی اصغرؑ کے حال کے الگ الگ مرثیے لکھے۔مرثیہ کی تاریخ میں میر ضمیر اور میر خلیق ستون کی حیثیت رکھتے ہیں،انھوں نے مرثیے میں مختلف النوع مضامین کا ہی اضافہ نہیں کیا بلکہ انھوں نے مرثیے کی شکل متعین کی اور اس کے بعد مرثیے مسدس میں لکھے جانے لگے۔اس سے پہلے مرثیے کیے لئے کوئی شکل مخصوص نہیں تھی۔خلیق کے بیشتر مرثیے مسدس کی شکل میں ہیں۔
مرثیہ ایک بیانیہ نظم ہے جس میں المیہ اور رزمیہ دونوں خصوصیات ملتی ہیں۔مرثیہ کے میدان میں متعدد شعراء نے طبع آزمائی کی لیکن مرثیہ کو بام عروج پہ مرزا دبیر اور میر انیس نے پہنچایا۔انھوں نے مرثیے کے مضامین میں تنوع اور زبان میں وسعت پیدا کی اور مرثیہ کا دائرہ اثر وسیع تر کر دیا۔میر انیس اور مرزا دبیر تک آتے آتے مرثیہ کا نقشہ مکمل ہو چکا تھااور اس کی بنیادیں بھری جا چکی تھیں۔میر انیس نے مرثیہ لکھنو کی زوال پذیر تہذیب کی پر درد عکاسی کی ہے۔ان کے کر دار عرب سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کا طرز زندگی ہندوستانی ہے۔مرثیہ کا جو نقشہ تیار ہو چکا تھا میرا نیس نے اسی تیار شدہ نقشہ پر فلک بوس عمارت تعمیر کی ۔زمانے کے رواج کے مطابق میر انیس نے شاعری کی ابتداء غزل گوئی سے کی لیکن جلد ہی والد کی خواہش کی تکمیل کی خاطر غزل سے تعلق توڑ کر مرثیہ سے ناطہ جوڑ لیا۔کربلا کا المیہ انیس کی شاعری کا محور و مرکز ہے اور اس محدود میدان میں انھوں نے اپنی شاعرانہ عظمت کا لوہا منوایا ہے۔انھوں نے ایک ہی واقعے کو ہزاروں انداز اور رنگ میں پیش کیا ہے۔اور اپنی اس خوبی سے وہ خود بھی آگاہ ہیں:
گلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
ایک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں

لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
خبر کر دو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
کلام انیس ایک سمندر کی مانند ہے جس میں طوفان امتڈتاہوا چلا آتا ہے،اگرچہ میر انیس مرثیے کے موجد نہیں ہیں مگر اس کے باوجود انھوں نے مرثیے بام عروج پہ پہنچا یا ،ان کے مرثیوں کی سب سے اہم خوبی رزم نگاری ہے۔اردو میں مرثیے کا سفر دکن سے ہوتا ہوا دہلی میں سودا اور لکھنو میں میر انیس کے دور تک پہنچا۔

**
فرحت انوار
فرحت انوار
ریسرچ اسکالر
شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی

Literary status of urdu marsiya. Article: Farhat Anwaar

2 تبصرے:

  1. فرحت انوار کا یہ مضمون اچھا ہے لیکن اپنے عنوان سے انصاف نہیں کرتا- مرثیے کا ادبی پہلو تشنہ طلب ہے-

    جواب دیںحذف کریں
  2. حوالہ جات درج نہیں۔تاریخ مرثیہ پر موجود حالات بیان نہیں کیے۔

    جواب دیںحذف کریں