جناب خضر راہ عشق میں لڑنے سے کیا حاصل
میں اپنا راستہ لے لوں، تم اپنا راستہ لے لو
اس موقع پر جاوید اختر نے خطاب کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی کہ مشہور زمانہ غزل نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں ، جو بہادر شاہ ظفر سے منسوب کی جاتی ہے ۔ وہ در اصل مضطر خیرآبادی کے قلم سے نکلی ہوئی ایک بہترین شاہکار ہے اور اس حوالے سے انہوں نے اسٹیج پر لگے کٹ آؤٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ان کے ہاتھوں سے لکھی غزل کا نمونہ ہے ۔اس موقع پر جاوید اختر نے مزید کہا کہ آج جو ہورہا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا ۔ کسی شاعر کے انتقال کے90سال بعد اس کا کلام اس سے پہلے کبھی شائع نہیں ہوا۔ انہوں نے اس کلام کے ملنے اور اس کے شائع ہونے کے بارے میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ والد(جاں نثار اختر) کے انتقال کے20-22سال بعد جب ان کے بھائی نے نقل مکانی کا ارادہ کیا تو کچھ کاغذات ان کے ہاتھ لگے جو انہوں نے مجھے دے دئے اور وہ کاغذات کافی عرصہ تک میرے پاس پڑے رہے ۔ ایک دن جب اسے کھول کر دیکھا تو اس میں فرق، جگر، اور آل احمد سرور وغیرہ کے خطوط بھی ملے اور ایک مجموعہ کلام کا مسودہ جس میں تقریبا پونے دو سو غزلیں تھیں وہ بھی ملا جس پر عنوان”خرمن” درج تھا۔ اس کے بعد میں نے اپنے ساتھی عبید اعظمی اورسہیل سے کہا کہ مضطرصاحب کے مزید کلام کو تلاش کیا جائے۔ ہماری اسی تلاش کا نتیجہ پانچ جلدوں پر مشتمل یہ کلیات ہیں ۔ جاوید اختر نے بتایا کہ اسی دوران کچھ ایسے شوائد بھی ملے جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مشہور غزل” نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں” بہادر شاہ ظفر کی نہیں بلکہ مضطر خیرآبادی کی ہے۔
Kulliyat-e-Muztar Khairabadi released
اب کیا کہوں،، جب کہ یہ غزل دیوانِ بہادر شاہ ظفر میں بھی موجود ہے،
جواب دیںحذف کریں