یعقوب میمن کی پھانسی اور ضمیرکی آوازیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-08-16

یعقوب میمن کی پھانسی اور ضمیرکی آوازیں

Yakub-Memon-hanged-sc-verdict
تمل ناڈو اسمبلی کی رحم کی اپیل کے بعد راجیو گاندھی کے قتل کرنے والے ستن، مر گن اور پیراريولن کی پھانسی کی سزا کم کر دی گئی تھی۔ بےانت سنگھ کے قاتل بلونت سنگھ راجاؤنا نے بڑے فخر سے اپنا گناہ قبول کیا تھا اور خود کو پھانسی دیے جانے کی مانگ کی تھی لیکن اسے ابھی تک زندہ رکھا گیا ہے شاید پنجاب اسمبلی کی کوششوں کی وجہ سے بھی ایسا ہے۔اس سے ایک چیز سب کو نظر آتی ہے کہ جہاں ایک گناہ گار قرار دیے گئے خونی یا سیاسی قاتل یا دہشت گرد کے پاس مضبوط سیاسی حمایت ہوتی ہے وہاں حکومت اور عدالتیں بے لاگ انصاف دینے کی ہمت نہیں جٹاپاتی ہیں۔ اس کے برعکسجب قاتلوں کی ایک مختلف قسم مثلاً اجمل قصاب، افضل گرو اور اب یعقوب میمن کی بات آتی ہے تو وہی مرکز، ریاست اور عدالتیں قانون کااقبال قائم کرنے کیلئے پرجوش ہو اٹھتی ہیں کیوںکہ یہ سب کے سب مسلمان ہیںاور ان کے پھانسی کےپھندے تک پہنچنے کی واحد ومشترکہ وجہ ان کے پاس سیاسی حمایت کا فقدان ہے۔

30؍جولائی صبح نجات کی ہزارکوششوں کے باوجود ممبئی سلسلہ واردھماکوںکے الزام میں یعقوب میمن کوتختہ دارپرچڑھادیاگیا لیکن پھانسی پرجھولنے کے بعدبھی میمن کاخون انصاف کی رگوںمیں زندہ لہوکی طرح گردش کررہاہےجس نے ملک کے ہرطبقہ کے انصاف پسندوں کے ضمیرکوجھنجھوڑکررکھ دیاہے ،یعقوب میمن کی سزائے موت کے خلاف مختلف شعبہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معتبرشخصیات نے صدائے احتجاج بلند کی ان میں سپریم کورٹ کے سبکدوش ججوں کے علاوہ،راکے سابق سربراہ، سپریم کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار، وکلا،سیاست داں،صحافی،بالی وڈ اورسماجی خدمت گزارشامل ہیں اورجن پہلوؤںپرسوال کھڑے گئے ان میں یعقوب میمن کے جرم ،فردجرم اورسزاپرعمل درآمدکے طریقہ کارہیں ۔ہندوستان کی جمہوری تاریخ میں ایسا پہلی بارہواتھاکہ جب سپریم کورٹ میں شب ڈھائی بجے عدالت سجی ہو،کسی موت کے سزایافتہ مجرم کی حمایت میں ملک بھرکے سوسے زیادہ شخصیات نے تحریری طورپرصدرجمہوریہ کواپیل بھیجی گئی ہواور ہزارکوششوںکے باوجود عدالت اپنے سابقہ موقف پراٹل رہی ہوشایدایسا بھی پہلی مرتبہ ہوا ہوگاکہ موت کی سزاسنانے والی اسپیشل کورٹ کے جج میڈیا میںآکراپنے موقف کوتقویت بخشنے کیلئے بیان بازی کررہےہوں۔یہ بات ذہن نشیں رہے کہ یعقوب میمن کو پھانسی دینے کی مخالفت ایک ساتھ سابق ججوں، وکلا، سابق خفیہ افسران، دانشوروں اور اہم شہریوں نے جواپیل کی تھی وہ محض جذباتی نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے مستحکم دلائل تھے اوران لوگوںنے اپنے ضمیرکی آوازپرلبیک کہتے ہوئے یہ اقدام کیا تھا۔
یعقوب میمن کے بے گناہی کے حوالے سے اس کی طویل عدالتی زندگی سے وابستہ رہے سینئر صحافیوںنے پوری جانب داری کے ساتھ کالم لکھتے رہے اوردوران سماعت اس کے کردارکاتذکرہ کرتے رہے ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھارہے کہ 21؍برسوںکی قیدوبندکی صعوبتیں جھیلنے کے بعد انہیں پھانسی کیوں دی جارہی ہے جبکہ ملک میں میمن کے علاوہ کئی ایسے خطرناک مجرم ہیں جنہوںنے اس سے بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اوراس کیلئے عدالت نے سزائے موت کا فرمان بھی جاری کرچکی ہے اس کے باجودان میں سے کئی ایک کی سزائے موت کوسیاسی دباؤکے پیش نظر عمرقیدمیں تبدیل کردیا گیا جب کئی ایک کی رحم کی اپیل برسوںسے زیرالتواہے ان میں ملک کے وزیراعظم راجیوگاندھی اورپنچاب کے وزیراعلیٰ بے انت سنگھ کے قاتل سرفہرست ہیں' فرسٹ پوسٹ ڈاٹ کام وابستہ صحافی آر جگن ناتھن نے اپنے ایک مضمون میں اجمل قصاب ، افضل گرو اوریعقوب میمن کی پھانسی کے پس پردہ اسباب کوسامنے لانے کی کوشش کرتےہوئے یہ نتیجہ اخذکیا کہ راجیو گاندھی اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ بےانت سنگھ کے قتل کے مقدمات میں جنہیں پھانسی دی جانی تھی انہیں ابھی تک پھانسی پر نہیں لٹکایا گیا ہے۔تمل ناڈو اسمبلی کی رحم کی اپیل کے بعد راجیو گاندھی کے قتل کرنے والے ستن، مر گن اور پیراريولن کی پھانسی کی سزا کم کر دی گئی تھی۔ بےانت سنگھ کے قاتل بلونت سنگھ راجاؤنا نے بڑے فخر سے اپنا گناہ قبول کیا تھا اور خود کو پھانسی دیے جانے کی مانگ کی تھی لیکن اسے ابھی تک زندہ رکھا گیا ہے شاید پنجاب اسمبلی کی کوششوں کی وجہ سے بھی ایسا ہے۔اس سے ایک چیز سب کو نظر آتی ہے کہ جہاں ایک گناہ گار قرار دیے گئے خونی یا سیاسی قاتل یا دہشت گرد کے پاس مضبوط سیاسی حمایت ہوتی ہے وہاں حکومت اور عدالتیں بے لاگ انصاف دینے کی ہمت نہیں جٹاپاتی ہیں۔ اس کے برعکسجب قاتلوں کی ایک مختلف قسم مثلاً اجمل قصاب، افضل گرو اور اب یعقوب میمن کی بات آتی ہے تو وہی مرکز، ریاست اور عدالتیں قانون کااقبال قائم کرنے کیلئے پرجوش ہو اٹھتی ہیں کیوںکہ یہ سب کے سب مسلمان ہیںاور ان کے پھانسی کےپھندے تک پہنچنے کی واحد ومشترکہ وجہ ان کے پاس سیاسی حمایت کا فقدان ہے۔
ہندوستان میں پھانسی کی سزاپانے والےمجرموںکی فہرست میں 94؍فیصد مسلمان اوردلت کی تعدادیقینی طورپر آرجگن ناتھن کی تائید کرتے نظرآتے ہیں ۔کیا یہ صحیح نہیں کہ یعقوب میمن کی پھانسی سے حکومت اورعدلیہ پر انصاف پسندوںکے اعتمادمیں کمی آئی ہے اورعدلیہ میں سیاسی دباؤ اجاگرہوئے ہیں اب توچوک چوراہوںپرچائے کی چسکی لینے والے لوگ بھی یہ ماننے لگے ہیں کہ عدالتیں عوام کی اکثریت کے منشا اورحکومت کی مرضی کے مطابق فیصلہ صادرکرنے لگی ہیں۔کسی بھی جمہوری ملک کے عام باشندوںمیں ایسی رائے کا جنم لینا مستحکم جمہوریت کیلئے نیک شگون ہرگزنہیں ہوسکتا کیوںکہ عدلیہ انصاف کاوہ مندرہے جہاں ہرطرف سے مایوس ہوچکے مظلوموںکا دامن مرادانصاف کے گوہرسے بھراجاتا ہے اس لئے سپریم کورٹ کی عظمت سب سے بلندہے۔
یعقوب میمن کی پھانسی سے قبل اوربعدمیں جس طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں انصاف کےعلمبرداروںکیلئے ا س سے یکسرمنہ موڑلینا آسان نہیں ہے کیوںکہ6؍ دسمبر1992ءمیںبابری مسجد کی شہادت کے بعد دسمبر 1992ء اور1993ءمیں ممبئی اور ملک کے کئی حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئےتھے اوران میں ہزاروںکومسلمانوں کوتہہ تیغ کیاگیا ،اربوں کی املاک تباہ وبرباد کردی گئی ، بابری مسجد کی شہادت کسی فردکے قتل یا قتل عام کا نتیجہ نہیں تھا۔اسی طرح1984ء میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میںسکھوںکاقتل عام ہوااورپھر2002ءمیں گجرات میںقتل عام ہوا تھا۔ ان قتل عام میںحکومتیں نہ صرف خاموش رہیں بلکہ مجرموںکی پشت پناہی بھی کی تھی ،حکوت اپنا فرض بھول چکی تھی لیکن اب تک ان قتل عام میں شامل قاتلوں کو تختہ دارپرنہیں لٹکایا گیا ۔ایسے حالات میں اگریہ سوال اٹھائے جارہے ہیںکہ ممبئی بلاسٹ میں 257؍لوگوںکی جانیں گئیں تھی جس کے الزام میں یعقوب میمن کوپھانسی دیدی گئی لیکن ممبئی فسادات میں 900؍ لوگ مارے گئے تھے انہیں کب انصاف ملے گا اوراس کے گنہ گاروںکو سزاکب ملے گی ؟تو ایسے لوگوں کوغداروطن اور دہشت گردوںکا حامی کیسے قراردیاجاسکتا ہے۔
نڈین خفیہ ایجنسی را کے سابق افسر وی رمن نے ممبئی دھماکے کا اہم مجرم ٹائیگر میمن اور داؤد ابراہیم کو مانا تھا، وہ یعقوب میمن کو پھانسی دینے کے حق میں نہیں تھےان کا کہنا تھاکہ یعقوب میمن نے خودسپردگی کی اور حکومت ہند کو ممبئی دھماکے کی اطلاعات دیں، تحقیقات میں تعاون کیا، اس نے حکومت کو نہیں ٹھگا، نہ دھوکہ دیاپھربھی اسے پھانسی دی گئی۔اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ میمن کو پھانسی دینے کے بعد کوئی بھی مجرم خودسپردگی کرنے سے پہلے سو بار سوچےگا۔راجیو گاندھی اور بےانت سنگھ کے قاتلوں کے پھانسی نہ دینے کی اصلی وجہ جنوبی ریاستوں اور پنجاب میں اس کی مخالفت اورعوامی دباؤتھا جب کہ یعقوب میمن کے معاملے میں یہ ممکن نہیں تھااب یہ یاد دلایا جا رہا ہے کہ حکومت نے شری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کا کیا کیا؟ مایا كوڈناني، بابو بجرنگي اور دہلی میں ہوئے سکھ قتل عام کے ذمہ داروں کو پھانسی دینے کی مانگیں اٹھ رہی ہیں۔ حکومت اور عدلیہ کی ساکھ داو پر لگی ہوئی ہے،؟ سوال یہ بھی ہے کہ اجمیر شریف، مالیگاؤں، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں اور مایا كوڈناني معاملے میں حکومت اور عدلیہ کیا کر رہی ہے؟یہ یاد رہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس کے ماسٹرمائنڈ سوامی اسیما نندنے اقبال جرم کرتےہوئے ہندوپاک کے صدورکومکتوب لکھ کر ہندودہشت گردی کے نیٹ ورک کاپردہ فاش کیا تھا اس کے وباوجود سمجھوتہ ایکسپریس میں مارے گئے لوگوں کوانصاف نہیں ملا توکیا یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ سوامی اسیمانند، بابوبجرنگی ،مایا کوڈنانی ،کرنل پروہٹ ،سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکراوران جیسے دیگر ہندو دہشت گردوںکے پاس مضبوط سیاسی طاقت ہیں اس لئے ان کوان کے گناہوںکی سزانہیں ملے گی ؟ہندوستان میں انصاف کے دوپیمانے ہیں ؟
اس نوعیت کے مزیدسنگین سوالات ہیں جن کا جواب عدلیہ اورحکومت کے پاس نہیں ہے ،عدالت سے عوام کا اعتماد نہ اٹھے اس کے لئے اب انتہائی ضروری ہوگیاہے کہ بابری مسجد ،ممبئی فسادات اورگجرات قتل عام کے ساتھ دہلی قتل کے مجرموںکو انصاف کی سولی پرچڑھایا جائے تاکہ عدالت کا سربلندرہےاورہندوستان میں انصاف کا بول بالاقائم ہوسکےکیوںکہ عدلیہ کے تئیں عوام کی مایوسی ومحرومی جمہوریت کے استحکام اوراس کی بقا کیلئے بے حد خطرناک ہے۔

***
sabirrahbar10[@]gmail.com
موبائل : 9470738111
صابر رضا رہبر

Execution of Yakub Memon and voice of conscience. Article: Sabir Raza Rahbar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں