پی ٹی آئی
ہندوستان کی جانب سے یہ واضح کئے جانے کے چند گھنٹوں بعد کہ کشمیر کے بارے میں بات چیت اور علیحدگی پسندوں کے ساتھ ملاقات قابل قبول نہیں ہوگی۔ پاکستان نے آج رات تجسس ختم کرتے ہوئے ہند۔ پاک این ایس اے سطح کی بات چیت منسوخ کردی ہے ۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہ اگیا کہ پاکستان اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ ہندوستان کی جانب سے مقرر کردہ پیشگی شرائط کی بنیاد پر این ایس اے سطح کی بات چیت نہیں ہوسکتی ۔ پاکستان کے اس اعلان کے ساتھ ہی اس بارے میں تجسس ختم ہوگیا کہ کون پہلے واضح اعلان کرے گا ۔ دونوں ملکوں کے درمیان تلخ تبادلوں کے پیش نظر گزشتہ دو دن سے ایسے اشارے مل رہے تھے کہ یہ بات چیت نہیں ہوگی ۔ لیکن قانون کی یہ آخری کیل وزیر خارجہ سشما سوراج نے ٹھونکی جنہوں نے پاکستان کو یہ الٹی میٹم دیا کہ وہ آج رات دیر گئے یہ واضح وعدہ کریں کہ وہ علیحدگی پسندوں کے ساتھ کوئی میٹنگ نہیں کرے گا ۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بیان میں کہا کہ پاکستان نے سشما سوراج کی پریس کانفرنس کے نکات کا محتاط جائزہ لیا ہے ۔ بیان میں کہا گیا کہ ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ دونوں ملکوں کے درمیان این ایس اے سطح کی مجوزہ بات چیت اگر خاتون وزیر کی شرائط کی بنیاد پر ہوگیتو اس سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ سشما سوراج کے بیان کے بعد دفتر خارجہ نے کہا کہ وہ اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان دیر پا امن کو یقینی بنانے کے لئے تمام باہمی مسائل پر بات چیت کی ضرورت ہے لیکن وہ یکطرفہ طور پر ایجنڈے کو صرف دو نکات یعنی دہشت گردی سے پاک ماحول پیدا کرنے اور خطہ قبضہ پر ہم آہنگی تک محدود کررہی ہے ۔ بیان میں کہا گیا کہ اگر این ایس اے سے بات چیت کا واحد مقصد دہشت گردی پر بات چیت ہے تو اس سے امن کے امکانات بہتر ہونے کے بجائے الزام تراشی کا کھیل تیز ہوگا اور ماحول مزید مکدر ہوگا۔ حریت قائدین کے ساتھ ملاقات سے متعلق دوسری پیشگی شرط کے بارے میں بیان میں کہا گیا کہ کئی مرتبہ اس با ت کی وضاحت کی جاچکی ہے کہ یہ ایک دیرینہ طریقہ ہے کہ پاکستانی قائدین گزشتہ20سال سے ہندوستان کا دورہ کرتے ہیں وہ حریت رہنماؤں سے ملتے رہے ہیں ۔ ہندوستان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اس دیرینہ طریقہ کار کو بدلنے کی شرط رکھے۔ قبل ازیں وزیر خارجہ سشما سوراج نے آج ہندوستان کے موقف کو واضح کرتے ہوئے یہاں پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز بات چیت کے لئے آنا چاہتے ہیں تو ہم بھی ان بلانے کو تیار ہیں لیکن شملہ اور اوفا معاہدے کی روح کے مطابق اس بات چیت میں کوئی تیسرا فریق شامل نہیں ہوگا اور بات چیت دہشت گردی تک محدود رہے گی ۔ انہوں نے کہا کہ سرتاج عزیز اگر اس طرح کی یقین دہانی کراتے ہیں تو ان کا خیر مقدم ہے اور اگر پاکستان اس سے متفق نہیں تو بات نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ شملہ معاہدے میں واضح ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت میں کسی تیسرے فریق کی کوئی گنجائش نہیں اور اوفا معاہدے میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح کی بات چیت دہشت گردی سے متعلق مسئلہ پر ہی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کوئی شرط نہیں لگا رہا ہے بلکہ پاکستان کو ان دونوں معاہدوں اور ان میں کہی گئی باتوں کو یاد دلارہا ہے ۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ اوفا میں یہ طے کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشمیر سمیت تمام زیر التوا مسائل پر مجموعی طور پر بات چیت کے لئے مناسب ماحول تیار کیاجائے۔
قبل ازیں دن میں پاکستان کے قومی سلامتی مشیر سرتاج عزیز نے اس استدلال کے اتھ کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں قیام امن کے لئے مشترکہ طور پر ذمہ دار ہیں، آج دو ٹوک کہہ دیا کہ ہندوستان کے ساتھ اس وقت تک سنجیدہ بات چیت ممکن نہیں جب تک کشمیر اس میں شامل نہیں ہے ۔ اسی کے ساتھ انہوں نے یہ عندیہ بھی دیا کہ اگر کوئی پیشگی شرط نہیں رکھی گئی تو وہ کل ہندوستان جانے کو تیار ہیں ۔ اپنے ہندوستانی ہم منصب اجیت دوول سے طے شدہ ملاقات سے قبل حریت قائدین اور کشمیر کے تعلق سے متضاد مواقف کے سبب پیدا شدہ ماحول میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عزیز نے مزید کہا کہ وزیر اعظم نریند رمودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندوستان کا موقف یہ ہے کہ اس کی شرطوں پر اور کشمیر کو چھوڑ کر دیگر امور پر بات چیت کی جائے اور یہ ہمارے لئے ممکن نہیں ۔ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ پچھلے سال ہندوستان نے اسلام آباد میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات جس حوالے سے منسوخ کی تھی اگر اس بات بھی اس بات بھی ایسا ہوتاہے تو یہ افسوسناک ہوگا۔ ان کا واضح اشارہ حریت قائدین سے ملاقات اور کشمیر کی طرف تھا۔ عزیز نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستاننے طے شدہ ایجنڈے سے کہیں انحراف کیا ہے، کہا کہ پاکستان نے تمام دیرینہ امور پر بات چیت کی صورتیں وضع کرنے کا جائزہ لینے سمیت جو تین نکای ایجنڈہ پیش کیا ہے وہ عین اوفامفاہمت کے مطابق ہے جو کشمیر کے مسئلے کا بھرپور احاطہ کرتا ہے ۔ اس لحاظ سے ہندوستان کا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ ایجنڈے میں کشمیر شامل نہیں تھا ۔ حریت رہنماؤں کی مبینہ گرفتاری پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے اسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا اور وزیر اعظم نریندر مودی پر زور دیا کہ وہ قیام امن کی مشترکہ ذمہ داری کو بروئے کار لائیں ۔ انہوںنے کہا کہ ہم نے ایجنڈا واضح کردیا تھا کہ کشمیر سمیت تمام زیر التوا مسائل کو حل کرنے کے بارے میں بھی بات ہوگی اور کم از کم کشمیر کے معاملے پر بات چیت آگے بڑھانے کے طور طریقوں پر تو بحث ہونی ہی چاہئے ۔ کشمیر کے مسئلہ کے بغیر ہندوستان کے ساتھ کوئی سنجیدہ اور بامعنی بحث ہو ہی نہیں سکتی۔ انہوں نے کہا کہ حریت رہنماؤں سے ملنا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ کئی سالوں سے یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان دہشت گردی کے مسئلے پر پاکستان کو ثبوت دینے کی بات کررہا ہے لیکن جب وہ بات چیت کے لئے جائیں گے تو پاکستان میں ہندوستانی خفیہ ایجنسی را کی طرفس سے چلائی جارہی سرگرمیوں خے بارے میں تین ثبوت ہندوستان کے قومی سلامتی کے مشیر کو سونپیں گے اگر وہ مذاکرات کے لئیدہلی نہیں جاپائے تو اگلے ماہ اقوا م متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران نیویارک میں یہ ثبوت دوول کے حوالے کریں گے۔
نئی دہلی سے پی ٹی آئی کی علیحدہ اطلاع کے بموجب ہندوستان نے آج رات این ایس اے سطح کی بات چیت منسوخ کرنے کے پاکستان کے فیصلہ کو بدبختانہ قرار دیا اور کہا کہ اس نے کوئی پیشگی شرائط نہیں رکھی تھی جیسا کہ اس ملک نے کہا ہے ۔ وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے پاکستان کے فیصلہ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان نے صرف اس بات کا اعادہ کیا تھاکہ اسلام آباد شملہ معاہدہ کے جذبہ کا احترام کریں جسکا وہ پابند ہے ۔ پاکستان کا فیصلہ بد بختانہ ہے ۔ ہندوستان نے کوئی پیشگی شرائط نہیں رکھی تھی ۔ ترجمان نے توئٹر پر یہ باتیں کہیں۔
India, Pakistan blame each other for cancellation of talks between national security advisers
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں