پی ٹی آئی
پاکستانی عدلیہ نے حکومت پنجاب کی جانب سے ملک میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی سے متعلق سب سے بڑے اسکینڈل میں عدالتی کمیشن کی جانچ سے متعلق درخواستوں کو مسترد کردیا ۔ اس اسکینڈل میں تقریبا300بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ جاریہ پولیس تحقیقات کے حوالہ سے یہ بات بتائی گئی ہے ۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منظور احمد ملک نے واقعہ کی عدالتی تحقیقات کی درخواست کو مسترد کردیا ہے۔ یہ واقعہ صوبہ پنجاب کے کسور ضلع میں پیش آیا جو ہندوستانی سرحد سے متصل ہے۔ پولیس پہلے ہی سے واقعات کی تحقیقات کررہی ہے ۔ ایسے میں عدالتی تحقیقات حق بجانب نہیں ہے یا پھر ضلع وسیشن جج کسور کو اس سلسلہ میں نامزدکرنا بھی صحیح نہیں ۔ یہ بات لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے داخلہ سکریٹری کو تحریر کردہ مکتوب میں کہی گئی ۔ داخلہ سکریٹری نے چیف منسٹر صوبہ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے چیف منسٹر کو ایک حوالہ دیا تھا تاکہ واقعہ کی عدالتی تحقیقات کی جائے کیونکہ سیول سوسائٹی کے ارکان اور اپوزیشن پارٹیوں اور میڈیا کی جانب سے اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے مطالبہ کیاجارہا ہے ۔ تقریبا280بچوں کے ایسے ویڈیو تیار کئے گئے ہیں جن کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے ۔ اس کی ذمہ دار ایک ٹولی ہے جو اس ویڈیو کو استعمال کرتے ہوئے بچوں کے والدین کو بلیک میل کرنا چاہتی ہے ۔ یہ واقعہ لاہور سے پچاس کلو میٹر دورگنڈاسنگھ گاؤں میں پیش آیا۔ چیف جسٹس نے اس بات کو نوٹ کیا کہ ایف آئی آر میں بعض مشتبہ افراد درج کئے گئے ہیں جن میں بیشتر پیشگی ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں جب کہ کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور وہ اب ریمانڈ میں ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملہ کی پولیس کی جانب سے پہلے ہی تحقیقات ہوچکی ہیں۔ لہذا اس درخواست کو مسترد کیاجاتا ہے ۔ اس دوران پولیس نے مزید چار افراد کو حراست میں لے لیا ۔ جن کی ضمانتیں کل منسوخ کردی گئیں۔ پولیس نے سات ایف آئی آر کے20 سے زائد بد فعلی ، زنا بلیک میل اور جبری وصولی جیسے الزامات شامل ہیں، پر مشتبہ افراد کے منجملہ 15ملزمین کو حراست میں لے لیا ہے ۔ اصل ملزم حسیب عامر کو گرفتارکرلیا، کے بعد مزید تفتیش کے لئے پولیس تحویل میں دیدیا گیا ۔ عامر نے انکشاف کیا کہ اس نے کئی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کیا اور اس کے بعد ان بچوں کے والدین کو بلیک میل بھی کیا۔ یہ بات کسور پولیس کے سربراہ رائے بابر نے بتائی ۔ پاکستان انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) نے فوری اس کی تحقیقات اور فرد جرم اور بچوں کے تحفظ کے اقدامات پر زور دیا جو جنسی تشدد کا شکار ہوئے ۔ ایچ آر سی پی کو اس بات کی اطلاع ملنے پر صدمہ پہنچا کہ یہ واقعہ کسور میں پیش آیا جہاں کئی بچوں کو اس کا نشانہ بنایا گیا جس وقت یہ جرم سرزد ہوا آیا اس واقعہ میں جائیداد کا تنازعہ تو شامل نہیں ہے ۔ اس واقعہ کو ختم کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں لیکن اب یہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے ذریعہ ان کی فلمیں بنائی گئی ہیں۔ اب اس واقعہ کی تحقیقات سے ہٹ کر کوئی بات نہیں سنی جاسکتی اور ان بچوں کو استغاثہ کی جانب سے مداخلت پر ہی راحت مل سکتی ہے ۔ دائیں بازو کے کارکن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پنجاب اسمبلی کے ممبر فیاض ملک نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ اس واقعہ پر ہماری توجہ مرکوز ہوئی ہے کہ بچوں کے فحش ویڈیوبنائے گئے ہیں۔ بہر حال اس واقعہ کی مناسب تحقیقات پر زور دیا گیا ہے ۔
Child abuse: Pak judiciary rejects request to form JC
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں