مودی بمقابلہ مودی - وزیر اعظم کا لب کشائی سے گریز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-07-01

مودی بمقابلہ مودی - وزیر اعظم کا لب کشائی سے گریز

narendra-modi-vs-lalit-modi
ہارولڈ ولسن کے بقول سیاست میں ایک ہفتہ ایک طویل عرصہ ہوتا ہے ۔
اس لحاظ سے سیاست میں ایک سال بہت کچھ ہوتا ہے لیکن نریندر مودی حکومت کی اخلاقی دھاک پر چڑھی ہوئی تہہ کو چاک ہونے کے لئے ایک ہفتہ سے بھی کم عرصہ لگا ہے ۔ ہمیشہ ٹیوٹر پر سرگرم رہنے والے اور بڑھ چڑھ کر بولنے والے وزیر اعظم کے ساتھ آخر ایسا کیا ہوگیا؟ کیا بلی نے ان کی زبان اچک لی ہے ؟ ایک شخص جس نے اپنے پیش رو وزیر اعظم کو مون مون سنگھ ( خاموش رہنے والا سنگھ) کہہ کر مذاق اڑایا اور ان پر طنز کیا کرتا تھا نیز کرپشن کے خلاف لڑائی کا وعدہ کرکے اقتدار پر براجمان ہوا ہے ، اس نے دنیائے کرکٹ کی بدعنوان شخصیت للت مودی مسئلہ پر ابھی تک لب کشائی نہیں کی ہے ۔
وزیر اعظم کے ہم نام نے جس منجدھار کو واشگاف کیا ہے اس میں نہ صرف مودی کے اعلیٰ وزرا اور بی جے پی زیر قیادت ریاست راجستھان کی چیف منسٹر پھنسی ہوئی ہیں بلکہ خود ان کا اپنا موقف اور امیج خطرہ میں ہے ۔ حکمراں بی جے پی اور اس کے اعلیٰ وزرا اس سارے معاملہ پر انتہائی نرم موقف اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے سابق آئی پی ایل سربراہ کے خلاف بے شمار الزامات اور مقدمات کو نظر انداز کرتے ہوئے خود اپنی حکومت کو مطلوب مفرور اور ٹیکس چوری کے مرتکب شخص کے سفری کاغذات کی اجرائی کے لئے برطانوی حکومت پر اپنے اثرورسوخ کا استعمال کیا ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان کے شوہر اور بیٹی برسہا برس سے للت مودی کی پیروی کرنے والی ٹیم کا حصہ رہے ہیں۔

راجستھان کی بی جے پی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا نے جرات مندی کی حد پار کرتے ہوئے برطانوی حکام کے پاس ایک حلفنامہ داخل کیا اور للت مودی کو ہندوستانی حکومت کی انتقامی سیاست کا نشانہ قرار د ے کر انہیں پناہ دینے کی گزارش کی۔ ابھی اس رسوا کن داستان کا شروع ہونا ہی تھا کہ ایک اور مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل اپنی مختلف تعلیمی ڈگریوں کے بارے میں الیکشن کمیشن کو جھوٹ باور کرواتی ہوئی پکڑی گئی ہیں اور ہم نے سپریم لیڈر کے نامی گرامی چیلوں کا ذکر تو ابھی چھیڑا ہی نہیں ہے ۔

2002ء کے پروگرام سے انکاؤنٹرس منظم کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات میں پھنسائے گئے بے قصور افراد کے تعاقب تک واقعات کا ایک طویل و تاریک تسلسل ہے جس نے گجرات سے دہلی تک کا سفر تیزی سے مکمل کیا ہے ۔ اسکاموں میں لت پت ہندوستان ابھی پاک دامنی اور شفافیت کے فسانہ میں گھر گیا ہے اور کسی بے حس لیڈر کو اس تعلق سے کوئی تحفظات نہیں ہیں ۔ کسی کے نزدیک یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے کہ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ کی ایک تہائی تعداد کو فوجداری الزامات کا سامنا ہے اور زائد از پانچواں حصہ سنگین فوجداری الزامات بشمول قتل ، فساد اور عصمت ریزیوں سے داغدار ہیں ۔
حتی کہ مرکزی وزرا کے خلاف بھی عصمت ریزی اور فسادات کی مقدمات کیوں ہیں ؟ گری راج سنگھ جیسے لوگوں کا تو ذکر ہی کیا؟ جنہوں نے مودی کے تمام ناقدین کو پاکستان بھیج دینے کی دھمکی دی ہے ۔ اس قبیل کے لیڈروں میں ایک نام سادھوی جیوتی کا بھی ہے ۔ جس نے دہلی انتخابات میں حرام زادوں کو ووٹ دینے کے خلاف انتباہ دیا تھا ۔ یہ مسلمانوں کے لئے ان کی زبان کا ایک نمونہ ہے ۔ بی جے پی کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے سوا ہر کسی کو قوم پرستی اور عوامی زندگی میں دیانت داری کا درس دیتی ہے اور ایک مختلف پارٹی ہونے کا دم بھرتی ہے ۔ لہذا اب سوال یہ ہے کہ سپریم لیڈر اس بے نظیر بحران پر جسے 'للت گیٹ' کا نام دیاگیا ہے ، اپنا رد عمل کس طر ح دیتے ہیں؟
مودی نہیں چاہیں گے کہ سشما سوراج کو سیاسی ویرا نے میں بھیج دیں بالخصوص اس حقیقت کے مد نظر کہ وزارت عظمیٰ کی بی جے پی کی مہم کو ان کی جانب سے اغوا کرنے سے قبل سشما سوراج کو پارٹی اور حکومت کی قیادت کے لئے ایک نہایت فطری اور کرشماتی انتخاب کے طور پر دیکھا گیا تھا ۔

یہ بات بھی بجا ہے کہ وزیر خارجہ کی آخر ضرورت ہی کیا ہے جب وزیر اعظم نے بذات خود ان کا کام اپنے ذمہ لے لیا ہے جس میں دنیا کے طول و عرض کا سفر شامل ہے ۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ سشما سپریم لیڈر کے 13 ماہ میں دیڑھ درجن بیرونی دوروں میں کبھی کبھار ہی ساتھ دیکھی گئیں۔ ان کے تحفظ کے ضمن میں ایک اور امکانی چیلنج داخلی طور پر بھی ہے جس کو ملحوظ رکھنا پڑے گا ۔ پھر ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی کی سینئر لیڈر سنگھ پریوار بالخصوص حکمراں پارٹی کی سرپرست و رہنما راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کے اندر اپنے حامی نہ رکھتی ہوں ۔ علاوہ ازیں یہ ناممکن ہے کہ وزیر خارجہ نے وزیر اعظم کے علم اور آشیر واد کے بغیر ہی للت مودی کی مدد کرنے کے معاملہ میں اس قدر مستعدی دکھائی ہو۔
یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ دنیائے کرکٹ کی اس ہستی سے وزیراعظم کے تعلقات اس زمانہ سے ہیں جب سینئر مودی گجرات کرکٹ اسوسی ایشن کے صدر تھے ۔ لہذا اگر سشما سوراج کو باہر کا راستہ دکھایا جائے تو وہ کوئی نرم چارہ نہیں کہ بغیر لڑے چلی جائیں گی اور نہیں بتائیں گی کہ کس کی ہدایت پر انہوں نے بھگوڑے کی مدد کی۔
یہی بات کم و پیش چیف منسٹر راجستھان وسندھرا راجے کے بارے میں کہی جاسکتی ہے جنہوں نے نہ صرف براہ راست کرکٹ کے عالمی ادارہ کے برے شخص کو برطانیہ میں سکونت دلانے میں مدد کی بلکہ اس مدد پر اچھے خاصے انعام سے نوازی گئیں ۔ ان کے دستخط شدہ بیان کا زبردست ثبوت سامنے آجانے کے باوجود راجستھان کی طاقتور چیف منسٹر سشما ہی کہ طرح ڈٹی ہوئی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جائے تو وہ پارٹی میں پھوٹ ڈال دیں گی ۔

اس دوران وہ شخص جس نے زبردست پیسہ، ناموری اور گلیمر والے شاندار انڈین پریمیئر لیگ کی اختراع کی ہے ، وطن واپسی کے ناقص نظام پر ہنس رہا ہے اور موج مستی کا یہ عالم ہے کہ وہ دنیا کے خوبصورت مناظر والے مقامات پر پیرس ہلٹن جیسی شخصیتوں کے ساتھ گل چھرے اڑا رہا ہے ، لیکن اگر داغدار وزرا کو برقرار رہنے کی اجازت دی جائے تو ایک سال پرانی بی جے پی حکومت خود کو ایک سنگین بحران میں پائے گی ۔ للت گیٹ اسکینڈل نے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کانگریس کو ایک نئی زندگی اور منقسم اپوزیشن کو اتحاد کی تجویز پیش کرنے کا موقع دیا ہے ۔ اس اسکینڈل نے خون چکھ لیا ہے اور اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ سشما سوراج، وسندھرا راجے اور مودی کی پسندیدہ سمرتی ایرانی کی کھال ملنے تک چین سے بیٹھے گی ۔ اور جب طوفان بدتمیزی سر چڑھ کر بولے گا تو اعلیٰ قیادت کی دستار تادیر سلامت نہیں رہے گی ۔ اس صورتحال نے پارٹی کو ایک مخمصہ میں ڈال دیا ہہے جو کئی ایک بحرانوں سے دو چار کانگریس زیر قیادت حکومت کی بد عنوانی اور مسلسل بے عملی و نا اہلی کے خلاف عوامی لہر پر سوار ہوکر اقتدار تک پہنچی ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا رائے دہندے اس حکومت کو معاف کردیں گے جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دینے کا وعدہ کیا تھا؟ للت مودی نے جو کام کیا وہ وزیر اعظم اور وزیر فینانس ارون جیٹلی کی طرف انگشت نمائی کے ساتھ صرف مودی حکومت اور اس کے اعلیٰ وزرا کو گھیرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس نے سارے سیاسی طبقہ کی بے لباسی کے مختلف مراحل کو بے نقاب کیا ہے۔ خواہ بی جے پی ہو یا کانگریس یا این سی پی ، ڈان کارلیون کے دوست ہر پارٹی میں موجود ہیں ۔

اردو ترجمہ : روزنامہ "اعتماد" ، حیدرآباد۔

***
aijazzakasyed[@]gmail.com
مدیر اعلیٰ "کاروان ڈیلی" آن لائن
اعجاز ذکا سید

Deafening silence of pontificating 'Supreme Leader' on Lalit gate
Modi versus Modi. Article: Aijaz Zaka Syed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں