مہاراشٹرا میں دینی مدارس کی مسلمہ حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-07-03

مہاراشٹرا میں دینی مدارس کی مسلمہ حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ

ممبئی
پی ٹی آئی
مہاراشٹرا میں بی جے پی کی حکومت نے ایک متنازعہ اقدام میں آج ایسے مدرسوں کی مسلمہ حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو طلبہ کو صرف مذہبی تعلیم دیتے ہیں، رسمی تعلیم جیسے انگریزی، ریاضی اور سائنس کے مضامین نہیں پڑھاتے ۔ ایسے رجسٹرڈ مدارس جو بنیادی مضامین کی تدریس نہیں دیتے ہیں انہیں ریاستی حکومت” غیر اسکول” قرار دے گی اور اس میں پڑھنے والے بچوں کو اسکول کے باہر بچے تصور کیاجائے گا۔ اس اقدام پر کئی مسلم قائدین نے ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن جماعتوں نے اعتراض کیا ہے ۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ امور ایکناتھ کھڈسے نے بتایا کہ مدرسے بچوں کو مذہب کی بنیاد پر تعلیم دے رہے ہیں اور انہیں رسمی تعلیم سے دور رکھا جارہا ہے ۔ ہمارا دستور کہتا ہے کہ ہر بچہ کو رسمی تعلیم کا حاصل کرنے کا حق ہے، جو مدرسے فراہم نہیں کررہے ہیں۔ اگر ایک ہندو یا عیسائی بچہ مدرسوں میں پڑھنا چاہتا ہے تو ان بچوں کو اپنے مدرسہ میں پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں ۔ اس لئے یہ مدرسے اسکول نہیں کہلائے جاسکتے بلکہ یہ مذہبی تعلیم کا ذڑیعہ ہیں ۔ چنانچہ ہم نے ان سے کہا ہے کہ وہ طلبہ کو مذہبی تعلیم کے ساتھ دیگر مضامین بھی پڑھائیں بصورت دیگر ان مدرسوں کو اسکول تصور نہیں کیاجائے گا۔ کھڑسے نے کہا کہ پرنسپل سکریٹری محکمہ اقلیتی امور جے شری مکرجی نے پرنسپل سکریٹری اسکولی تعلیم نند کمار کو اس سلسلہ میں ایک مکتوب تحریر کیا ہے ۔ محکمہ اسکولی تعلیم4جولائی کو ایک سروے کرنے والا ہے جس میں اس بات کا پتہ چلا یاجائے گا کہ کتنے بچوں کو رسمی تعلیم حاصل نہیں ہورہی ہے؟ وہ طلبہ جو مدرسوں میں زیر تعلیم ہیں اور رسمی تعلیم سے محروم ہیں انہیں اسکولی طلبہ تصور نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا واحد مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اقلیتی برادری کے ہر بچہ کو سیکھنے کا موقعہ ملے اور وہ اصل دھارے میں خود کو شامل کرسکیں ۔ اسے بھی اچھی ملازمت حاصل کرنے کا موقع ہوتا کہ اس کا مستقبل خوشحال ہوسکے ۔ وزیر اقلیتی امور نے کہا کہ ریاست میں1890رجسٹرڈ مدارس ہیں۔ ان میں سے550نے4مضامین طلبہ کو پڑھانے پر رضا مندی ظاہر کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جو مدرسے طلبہ کو رسمی تعلیم دینے کے لئے تیار ہیں ہم ان کے تعاون کے لئے تیار ہیں اور انہیں ساتھ ہی ساتھ تدریسی اسٹاف بھی فراہم کیا جائے گا۔ جناب اسد الدین اویسی رکن پارلیمنٹ حیدرآباد و صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین نے حکومت کے اس فیصلہ پر سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ کیا ویدوں کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو بھی غیر اسکولی طلبہ تصور کیا جائے گا؟ انہوں نے کہا کہ ایسے کئی مدارس ہیں جہاں ریاضی، انگریزی اور سائنس کی تعلیم ہوتی ہے ۔ مدرسے کے طلبہ سے سیول سرویسس جیسے امتحان بھی پاس کئے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے کہا ہے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ ناقابل قبول ہے ۔ اس اقدام کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے کانگریس ترجمان سنجے نروپم نے کہا کہ کسی بھی بچہ کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہئے ۔ ہم اس مسئلہ کو ریاستی اسمبلی میں اٹھائیں گے۔
دریں اثنا نئی دہلی سے پی ٹی آئی کی علیحدہ اطلاع کے بموجب ایک ایسے وقت جب کہ مدارس کے بارے میں حکومت مہاراشٹرا کے ایک متنازعہ فیصلے سے سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا ہے، مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے قانون حق تعلیم نافذ کرنے کے لئے سابقہ کانگریس زیر قیادت حکومت پر تنقید کی جس کے تحت مدارس کو تعلیمی اداروں میں شامل نہیں کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ مدارس نے ملک میں کافی اچھا کام کیا ہے اور یہ کافی اہم ہے کہ ان کے ساتھ تعلیمی اداروں جیسا سلوک کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ان کی وزارت قانون حق تعلیم کے تحت اسلامی علوم کے ان مراکز کو اصل دھارے کے تعلیمی نظام میں لانے کے امکان کا جائزہ لے گی ۔ نقوی نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ میں نے ریاست کے وزیر تعلیم سے بات چیت کی ہے جنہوں نے مجھے بتایا ہے کہ قانون حق تعلیم کے مطابق مدارس ، تعلیمی اداروں کے زمرے میں شامل نہیں ہیں اسی وجہ سے یہ الجھن پیدا ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ مانتے ہیں کہ مدارس کو تعلیمی اداروں کے زمرے میں لانا چاہئے اور جو لوگ اصل دھارے کی تعلیم نہیں دے رہے ہیں انہیں ایسا کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کرنی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ مدارس میں لاکھوں بچے پڑھتے ہیں ۔ انہیں تعلیمی اداروں کے زمرے میں لانا چاہئے ورنہ وہ اصل دھارے سے دور ہوجائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مدارس کو اصل دھارے سے جوڑںے کی سمت کا کام کررہی ہے ۔ وزیر اعظم کا نظریہ ہے کہ مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں کمپیوٹر ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کا رول اچھا رہا ہے ۔ ہم اسامہ بن لادن جیسے افراد کی جانب سے چلائے جانے والے مدارس کی بات نہیں کررہے ہیں ۔ ہندوستانی مسلمانوں نے ہمیشہ القاعدہ یا داعش کو مسترد کیا ہے ۔

Madrasas across Maharashtra will not be recognised as formal schools

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں