پیغام آفاقی - نامور افسانہ و ناول نگار سے ایک ملاقات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-06-16

پیغام آفاقی - نامور افسانہ و ناول نگار سے ایک ملاقات

Paigham aafaaqi-alamullah
جب کسی شخصیت سے باالمشافہ ملاقات نہ ہوئی ہو اور آپ نے اس کا نام کتابوں میں دیکھا ہو یا اس کی تحریریں محض پڑھی ہوں تو اس شخصیت کا ایک عجیب سا ہیولہ آپ کے ذہن میں نقش ہو جاتا ہے ۔ میرے ذہن میں بھی ایسا ہی کچھ جناب اختر علی فاروقی المعروف پیغام آفاقی صاحب کے تعلق سے تھا کہ پولس ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والا یہ افسر بھی شاید ہمارے ملک کے عام پولس والوں سے ملتا جلتا ہوگا ،رویہ بھی ویسے ہی کرخت اور غصہ والا وغیرہ وغیرہ ۔

مگر ادیب و افسانہ نگار ڈاکٹر اقبال حسن آزاد صاحب کے توسط سے کل جب ان تک رسائی ہوئی اور میں نے ان کو قریب سے دیکھا تو وہ کوئی اور ہی مرنجان مرنج قسم کی صدا بہار شخصیت تھی ، علم و ادب کا ایک کوہ گراں ، شفقت و محبت کا پتلہ ، باذوق اور آرٹ و فن کا پارکھ ۔ ہمیں دیکھتے ہی گلے سے لگا لیا اور سیدھے اپنے ڈرائنگ روم میں لے گئے ۔ چند منٹ بعد ہی انواع و اقسام کا ناشتہ اور پھر چائے اور گفتگو کا دور شروع ہوا ۔

ہماری یہ ملاقات تقریبا پورے دن پر محیط رہی اور وقت کب گذر گیا پتہ ہی نہ چلا ۔ ادب کی جب بات نکلی تو قدیم سے لیکر جدید اور اسلوب سے لیکر تیکنک تک پوری بساط بچھا دی گئی ۔ تہذیب، تاریخ اور ثقافت کا تذکرہ ہوا تو کئی صدیاں انڈیل کر رکھ دیں ، فلم اور اس کے تیکنک پر بات نکلی تو ایسی ایسی باریکیاں اور نکات پر گفتگو کی گئی کہ اچھے اچھے ہدایتکار فیل ہو جائیں ۔

ہم تو اب تک ان کو محض ادیب اور ایک افسر کے طور پر جانتے تھے ، اور حیرت بھی کیا کرتے تھے کہ پولس ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والا بندہ ادب سے کیسے جڑ سکتا ہے کہ یہاں تو ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو والی بات ہے ۔ لیکن شوق ، ہمت اور جستجو انسان سے سب کچھ کر وا دیتی ہے ۔ ملاقات کے دوران ہی معلوم ہوا کہ آپ محترم شاعر بھی ہیں اور باضابطہ ایک شعری مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے ۔ جس کا نام "درندہ" ہے ۔ باتوں باتوں میں اقبال حسن آزاد صاحب نے پوچھا کہ "آپ نے اس کا نام 'درندہ' کیوں رکھا یہ تو انتہائی غیر شاعرانہ نام ہے ؟"
تو آفاقی صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ اسی لئے تو یہ نام رکھا ہے پھر وضاحت کی کہ دراصل یہ استعارہ ہے رقیب کا ۔

اس ملاقات میں یہ عقدہ بھی کھلا کہ آپ محض ایک اچھے ادیب ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ ہیں اور ان کی انہی خوبیوں کی وجہ سے لوگ ان کے اسیر ہیں ۔کل ہی ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ آپ نے کئی ٹیلیوژن سیریل بھی ڈائریکٹ کئے ہیں اور حیرت یہ کہ کبھی کسی فلم کی کوئی کلاس نہ لی، اس کے برعکس فلم کےطلباء کو پڑھایا اورکئی ایسی ٹیمیں تیار کر دیں جو مختلف چینلوں اور میڈیا صنعت میں کام کر رہی ہیں۔
آفاقی صاحب کے ذریعہ ڈائریکٹ کئے گئے سیریل ’دوردرشن ‘اور’ سونی‘ جیسے چینلوں سے نشر ہو چکے ہیں ۔ فلم کی دلچسپی کے بارے میں بتایا کہ انھوں نے موڈ میں آکر تفریحاً ایک پر پوزل ڈالا تو پاس ہو گیا ۔ اب اس کو عملی شکل دینے کے لئے ماہرین سے گفتگو شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کے اندر تو کوئی گہرائی ہے ہی نہیں اور یہ بھی خالی گھڑے کی طرح ٹھن ٹھن ہیں ، پھر کیا تھا یک بعد دیگرے دسیوں ڈائیریکٹر کو دعوت دی گئی مگر آفاقی صاحب کے معیار پر کوئی نہ اترا تو اخیر میں انھوں نے خود ہی یہ فیصلہ کیا کہ اب وہ خود سے ڈائریکٹ کریں گے ۔ اب انھوں نے فلم پرلکھی گئی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا اور چند ماہ میں ہی لائٹ ، ساونڈ ، کیمرا، ڈیزائنگ میک اپ ، سیٹ سب کچھ پڑھ ڈالا اور سیر یل بنا کر ہی دم لیا ۔

ہمارے ہاں اردو ادیبوں کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کے مصنفین کی کتابوں کو در خور اعتناء نہیں سمجھتے حالانکہ اس سے بہر حال قوت مشاہدہ اور فکر و فن میں اضافہ ہوتا ہے ۔آفاقی صاحب اردو کے تو خیر قلمکار ہیں ہی لیکن جب انگریزی اوردیگر زبانوں کے ادب سے متعلق بات نکلی تو اس پر بھی ان سے سیر حاصل گفتگو رہی ۔چیخوف ، ہیگو ،کامس ایلبرٹ ، شیکسپیر ، جیمس ہینری ، فریڈرک سب پر دیر تک بات چلتی رہی ۔ اس گفتگو سے ان کے وسیع مطالعہ اور مشاہدہ کا بھی اندازہ ہوا ۔علی گڈھ اور وہاں کی یادوں کا دیر تک تذکرہ کرتے رہے ۔ اور علی گڈھ سے متعلق بہت ساری چیزیں بتائیں ۔ کہنے لگے :
جب وہ علی گڈھ گئے تو انگریزی آٓنرس میں ایڈمیشن لے لیا ۔لٹریچر کی کلاس بڑی مشکل محسوس ہوتی تھی کہ اس کے استعارات اور تشبیہات سے واقفیت نہ تھی ، پھر انگریزی کے کچھ معروف ناولوں کو اٹھایا اور اسکے ترجمے چند ہفتہ میں سارے پڑھ ڈالے اس سے اصطلاحات اور مفہوم کو سمجھنے میں کافی مدد ملی اور پھر وہ اس موضوع کے ٹاپر ہوئے ۔

ان کی گفتگو سے مجھے کچھ ایسا اندازہ ہوا کہ آفاقی صاحب دراصل ایک مہم جو ہیں جو کسی بھی چیز کو ایک مہم کے طور پر لیتے ہیں اور اس کو پورا کر کے چھوڑتے ہیں ۔ میرے خیال میں ہر کامیاب آدمی کا ایسا ہی رویہ رہتا ہوگا ۔ اس کے بغیر کامیابی شاذ ہی ملتی ہے ۔ مجھے ان کی یہ ادا بہت اچھی لگی کہ وہ اپنے چھوٹوں سے انتہائی شفقت رکھتے ہیں ۔ کیونکہ میں نے ایسے ایسے طرم خان دیکھے ہیں جو یوں تو نہ جانے بڑے اور کتنے بڑے کہے جاتے ہیں مگر جیسے ہی ان سے کوئی سوال پوچھ لیا جائے تو فوراً موڈ کی خرابی نظر آ جاتی ہے۔
جبکہ میں آفاقی صاحب سے سوال ہی کرتا رہا اور وہ خندہ پیشانی اور محبت کے ساتھ جواب دیتے رہے ۔ ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے سوال کیا کرو 'خواہ وہ بے ہودہ یا بکواس ہی کیوں نہ ہو'۔ معلوم نہیں میرے کتنے سوال بے ہودہ اور بکواس تھے لیکن آفاقی صاحب نے میرے تمام سوالات کے جواب دئے ۔ میرے پاس یوں تو سوالات کا دریا تھا مگر وقت گرفت میں نہیں تھا ۔ اور مجھے یہ اندیشہ بھی تھا کہ ڈاکٹر حسن آزاد صاحب کہیں بور نہ ہو رہے ہوں ۔ اس لئے بہت سارے سوالات نہیں کئے ۔ ہماری یہ گفتگو صرف ادب پر ہی مشتمل نہیں تھی بلکہ اس کا کینوس بہت بڑا تھا ۔

ہندوستانی مسلمانوں کی صورتحال اور ان کے مسائل کا حل ، آزادی کے بعد لٹریچر کا رول ، ہندوستان پاکستان کے ادیب و شاعر ۔ کہاں کیا تخلیق ہو رہا ؟ اس وقت کس قسم کے ادب کی ضرورت ہے ، نوجوانوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں ، عمر رسیدہ افراد کو کیا کرنا چاہئے ۔ ادیب اور شاعر کیا کر رہے ہیں اور ان کو کیا کرنا چاہئے؟ ایک وسیع جہاں تھا جس پر باتیں ہوتی رہیں ۔ برسوں سے میرے ذہن میں پکنے والا انتشار ، فلسفہ ، تاریخ اور نہ جانے کن کن موضوعات کے زیراثر میرے الم غلم سوالات بھی تھے ۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ انھوں نے میرے سوالات کا انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ جواب دیا ۔

Paigham-aafaaqi-alamullah-iqbal-hasan
دوسری طرف آزاد صاحب بھی زبردست شخصیت ہیں ، کم گو اور سادہ لوح۔ مجھے ان کی رفاقت سے بہت فائدہ ہوا کہ آفاقی صاحب سے بھی استفادہ کا موقع ملا اور دوران سفر آزاد صاحب کو بھی اپنے لاتعداد سوالات کے ذریعے پریشان کرتا رہا ۔ گو کہ آزاد صاحب کم بولتے ہیں ، لیکن جب بولتے ہیں بہت تول کر بولتے ہیں ۔ بیچ بیچ میں ایسے شگوفے چھوڑا کیے اور بر جستہ ایسے اشعار سناتے رہے کہ پورا دن ختم ہونے کا کچھ اندازہ ہی نہ ہو سکا۔ یہ بھی حیرت انگیز بات ہے کہ عالمی معیار کا ایک رسالہ وہ تن تنہا نکالتے ہیں اور کمپوزنگ ، پروف ریڈنگ ، طباعت اور ڈاک کے حوالہ سب کچھ وہ خود ہی کرتے ہیں ۔ انھوں نے جب یہ انکشاف کیا تو آفاقی صاحب بھی حیرت ہوئے زدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ ان کی یہ اعلی ہمتی اور جذبہ دیوانگی واقعتاً لائق تحسین ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ کسی دانشور سے ملاقات اور تبادلہ خیال کئی کتابوں کے مطالعے سے بہتر ہے۔ متذکرہ ملاقات کو میں ایسا ہی سمجھتا ہوں ۔ کم از کم میرے لئے یہ ملاقات انتہائی یادگار ان معنوں میں بھی رہے گی کہ مجھے دو ادیبوں (جناب پیغام آفاقی اور ڈاکٹر حسن آزاد ) کو بہت قریب سے دیکھنے ، ان کے ساتھ وقت گذارنے اور ان کے احساسات و خیالات کو جاننے کا موقع ملا ، جس نے فکر و فن کے کئی گوشہ وا کئے ۔ چھوٹے ہونے کے ناطے ایک دو مرتبہ کتاب لینے اور رسالہ وغیرہ نکالنے کے لئے جب آفاقی صاحب نے مجھے اپنی لائبریری اور مطالعہ گاہ بھی بھیجا تھا جس کی سجاوٹ سچ مچ تخلیقی تھی ، قرینہ سے کتابیں سجی ہوئی ، ایک طرف رسائل ، ایک طرف نئی کتابیں ایک طرف پرانی کتابیں ۔ یہ ساری چیزیں آفاقی صاحب کے ذوق کا پتہ دے رہی تھیں ۔

اس ملاقات پر آفاقی صاحب نے مجھے کتابیں تحفتا دیں ایک ناول مکان کا انگریزی ترجمہ اور دوسرا درندہ۔ یہ واقعی میرے لئے بہت قیمتی تحفے رہے۔ مگر افسوس موبائل کی بیٹری ڈاون تھی اس لئے نہ تو زیادہ تصویریں لے سکا اور نہ ہی کچھ گفتگو ریکارڈ کر سکا ۔ جو کچھ باتیں ذہن میں تھیں لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ لکھنے کے لئے تو بہت کچھ ہے دن بھر کی گفتگو کو چند سطروں میں سمیٹا بھی نہیں جا سکتا ہے ۔ کبھی فرصت ملے تو تفصیل سے لکھوں گا ۔
میں دونوں بزرگوں کی شفقت و محبت کا شکر گذار ہوں ساتھ ہی ساتھ ان کی درازئ عمر اور صحت و عافیت کے لئے دعاگو بھی ہوں ۔

***
alamislahi[@]gmail.com
موبائل : 09911701772
E-26, AbulFazal, Jamia Nagar, Okhla , New Delhi -110025
--
علم اللہ اصلاحی

A meeting with eminent novelist and short story writer Paigham Afaqui. - Article: Alamullah Islahi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں