یوگا کے نام پر کیا کیا ہوگا؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-06-16

یوگا کے نام پر کیا کیا ہوگا؟

UN-intl-yoga-day-21-june
21/جون2015ء سے ہر سال اس تاریخ میں "بین الاقوامی یومِ یوگا"منانے کا اعلان کیا گیا ہے، جس کی پہل ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 27؍ستمبر 2014ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب کے دوران مطالبہ کرکے کی،اس مطالبے کے بعدہر سال 21؍جون کو بین الاقوامی یومِ یوگامنانے کا اعلان کر دیا ۔ 11؍دسمبر 2014ءکو اقوام متحدہ میں 193 ممبران کی طرف سے اس مطالبے کومنظور کر لیا گیا اور وزیر اعظم ہند کی اس مانگ کو 90 دنوں کے اندر اکثریت کی منظوری مل گئی ، جو کہ اقوام متحدہ میں کسی بھی دن کو منانے کے لیے سب سے جلد ملنے والی منظوری ہے۔
وزیر اعظم نے اس موقع پر اپنے بیان میں کہا:یوگاہندوستان کی قدیم روایت کا ایک انمول تحفہ ہے، یہ ذہن اور جسم کی وحدت کی علامت ہے، انسان اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے اورہمارے طرز زندگی کو تبدیل کرنے اور شعور پیدا کرنے میں معاون ہے اور یہ ہمیں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں بھی مدد کر سکتا ہے، اس لیے ہمیں ایک دن کو خاص طور پر بین الاقوامی یومِ یوگا (یعنی انٹر نیشنل یوگا ڈے) منانا چاہیے۔
ہندوستان کے صدرپرنب مکھرجی نے آنکھوں سے معذور افراد کے لیے بریل رسم الخط میں بنائے گئے یوگا مینو ل 'یوگی اسپرش ' کی رسمِ اجرا کے پروگرام میں یوگا کے بارے میں کہا کہ قدیم ہندوستانی طریقے جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی صحت کو لے کر لوگوں کی ضروریات کا مکمل جواب ہیں۔اقوام متحدہ کی طرف سے21؍جون کو بین الاقوامی یوگا دیوس منانے کے اعلان کی مناسبت سے انھوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اس سے یوگا کو عالمی سطح پر مقبول بنانے میں اور لوگوں کو اس ان مول ہندوستانی وراثت سے فایدہ اٹھانے میں مدد ملے گی۔انھوں نے مزید کہا کہ یوگا آرٹ، سائنس اور فلسفہ ہے، جو عوام کواپنی ذات کی شناخت میں مدد کرتا ہے،جدید طبی سائنس نے تصدیق کی ہے کہ یوگا سے نہ صرف تناؤ کم ہوتا ہے بلکہ اس کے دیرپابہت سے فوائد ہیں۔پہلا عالمی یوگا دیوس منانے کی حکومت کی تیاریوں کے درمیان صدر پرنب مکھرجی نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے اس سلسلے میں لیا گیا فیصلہ عالمی سطح پر یوگا کو مقبول بنائے گا اور اس ان مول ہندوستانی وراثت سے لوگ فائدہ اٹھا سکیں گے۔
دوسری جانب مرکزی حکومت کی طرف سےعالمی یوگا دیوس منانے کی تیاریوں کے درمیان آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈنے اس کے خلاف میدان میں اترنے کا فیصلہ کر لیا،اطلاعات کے مطابق بورڈ کی طرف سے ایک پینل تشکیل دیاجائے گا جو کہ مسلم بچوں کے درمیان یوگا اور سوریہ نمسکار کے غیر اسلامی ہونے کے حوالے سے بیداری پیدا کرے گا۔بورڈ کے ممبر مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ اسکولوں میں سوریہ نمسکار اور یوگا کو لازمی قراردیے جانے کے خلاف ہم تحریک چلائیں گے اور اس مہم کی قیادت بورڈ کے نومنتخب کارگزارجنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی کریں گے۔لکھنؤ میں بورڈ کے ایک ممبر ظفر یاب جیلانی نے کہا کہ یوگا دیوس غیر آئینی ہے،بھلا کس طرح ایک سیکولر حکومت کسی خاص مذہبی علامت یا روایت کو اسکول کے احاطے میں کرنے کی منظوری دے سکتی ہے؟ہم نے اس کے خلاف راجستھان کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بورڈ کے ذریعہ لوگوں میں اس کے خلاف بیداری پیدا کرنے کے لیے سوشل میڈیاکاسہارالینے کی تیاری کی جا رہی ہے، اپنا موقف پوسٹ کرنے کے لیے بورڈ سوشل میڈیا پر لوگوں کو جوڑے گا ۔اس کے علاوہ بھی اکثرمسلم تنظیمیں یوں یوگا دیوس منانے کی مخالفت کر رہی ہیں لیکن اسی درمیان کچھ نام نہاد مسلم اسکول اور مسلم شخصیات ایسی بھی سامنے آئی ہیں جنھیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ اسے بطور ورزش اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں، بعض اس میں شامل مخصوص الفاظ کو خارج کردینے پر اس میں کسی قسم کا حرج محسوس نہیں کرتے، جب کہ بعض بلا کسی شرط کے اس کو مباح باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اے ایم یو کے ذریعہ چلائے جارہے ایک اسکول کے پرنسپل محمدعباس نیازی کے مطابق یوگا ایک جسمانی مشق ہے،کوئی بھی مذہب صحت مند طرزِ زندگی کے خلاف نہیں ہے،اس جسمانی ورزش پر بلا وجہ سیاست ہو رہی ہے،ان کے مطابق صوفی ازم بھی ایک قسم کایوگاہی ہے، جس میں آپ توجہ مرکوز کرتے ہیں اور خدا سے رابطہ قائم کرتے ہیں۔اس مسئلے کے حوالے سے دہلی جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نےبھی ایک بار پھر اخبارات میں اپنی جگہ بنائی ہے،ان کا کہنا ہے کہ "قرآن پاک میں یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ یوگا نہیں کرناچاہیے؟"امام صاحب کی طرف سے اس طرح کی بات سامنے آنا ذرا حیرت میں ڈالتا ہے، ذرا اس لیے کہ ان کا نام علماء و دانشوران کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے، افسوس کی بات ہے کہ اس کے باوجود ان کی طرف سے اس طرح کا عامیانہ بلکہ مبنی بر تجاہلِ عارفانہ بیان سامنے آیا ہے۔ ہمارے حسن ظن کے مطابق وہ بھی یہ ضرور جانتے ہوں گے کہ قرآن کریم میں کرنے یا نہ کرنے والے ہر ہر کام کی فہرست نہیں بلکہ اکثر مسائل کے متعلق قرآن حکیم میں اجمال ہے۔ قرآن کریم زندگی جینے کے اصول بتاتا ہے، جزئیات و فروع سے بحث نہیں کرتا۔ اس کے باوجود بھی اگر آپ قرآنِ کریم ہی سے اس مسئلے کا حل معلوم کرنا چاہتے ہیں تو کیا شرکیہ افعال و اعمال بلکہ ہر وہ قول و فعل جس میں شرک کی بو بھی پائی جاتی ہو، اس کی ممانعت قرآن سے ثابت نہیں؟ یا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 'یوگا' کے عمل میں 'شرک' کا احتمال موجود نہیں ہے؟ یہ تو وہی جملے ہیں جو یرقانی سننا چاہتے ہیں،اسی لیے تو آج تک ہندو تہذیب کا جز سمجھی جانے والی ایک چیز کواب ہندوستانی تہذیب کے روپ میں پیش کیا جا رہا ہے، جیسا کہ آپ سطور بالا میں پڑھ آئے ہیں۔ہاںیہ ایک خوش آئند بات ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے 9؍جون کو اپنے بیان میں یہ کہنے کے ساتھ کہ یوگا کو کسی ذات، مذہب یا فرقہ سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہیے،یوگا تو جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے فایدے مند ہے، یہ بھی واضح کر دیا کہ یوگا دیوس کے موقع پر یوگا کرنا لازمی نہیں ہوگا، جس کی مرضی ہو کرےاور جس کی مرضی نہ ہو وہ نہ کرےلیکن انھوں نے یہ بھی اپیل کی کہ اس میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل ہوناچاہیے۔
رہی یہ بات کہ یوگا محض ایک ورزش ہے، ہمیں اس سے کلی اتفاق نہیں کیوں کہ اگر ایسا ہی ہے، تو ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ محض ایک ورزش کو عام کرنے کے لیے اس قدر تگ و دو کیوں کی جا رہی ہے؟ ہماری نظر میں تو 'یوگا' کو یوں لازمی طور پر تھوپنے کی کوشش کرنا ہنوتو کو فروغ دینے کی ایک حکمتِ عملی ہے۔ رہا امام بخاری جیسوں کا یہ کہنا کہ "یہ کوئی تنازعہ ہی نہیں ہے" ایک ایسا پوچ ہے، جسے اہلِ نظر قبول نہیں کر سکتے۔ اسلام دینِ توحید ہے اور وہ ساری انسانیت کو توحیدِ خالص کی دعوت دیتا ہے،اسلام میں شرک کے شائبہ سے بھی بچنے کی تاکید کی ہے، اسی لیے زوال کے وقت میں نماز جیسی عبادت سےبھی روک کر دیا گیاپھر ایک ایسے عمل کو کیوں کر روا رکھا جا سکتا ہے، جس کا تعلق ہی ایمان و اسلام سے نہیں۔ اس لیے اگر یوگا کا کوئی بھی تعلق کسی خاص مذہب سے ہے تو اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا اور اگر اسے محض ایک ورزش ہی مان لیا جائے تو بھی کم سے تشبہ بالکفر تو کہیں گیا ہی نہیںاور یہ بھی اسلام میں ممنوع ہے۔
آدتیہ ناتھ کے اس بیان پر کہ ۔۔جو لوگ یوگا کی مخالفت کر رہے ہیں انھیں ہندوستان چھوڑ دینا چاہیے، سوریہ نمسکار بھی یوگا ہے، اس سے دل پاک ہوتا ہے، جنھیں اس سے گریز ہے، وہ سمندر میں ڈوب جائے۔۔اعظم خان نے انھیں کے تیور میں خوب کہا کہ آدتیہ ناتھ نماز پڑھیں تو ان کی صحت اور دماغ دونوں ٹھیک ہو جائیں گے۔ہمارا تو اعتقاد ہے کہ اسلام نے اپنے پیرو کاروں کو عبادت کا ایک جامع، مکمل اور بہترین نظام دیا ہے، جس نظام کو اپنانے سے انسان نہ صرف بہت سی برائیوں سے دور رہتا ہے بلکہ اس میں بے شمار روحانی، جسمانی، معاشی و معاشرتی، تمدنی و سیاسی اور انفرادی و اجتماعی بھلائیاںپوشیدہ ہیں۔ اسلام کا نظامِ عبادت اپنی ہیئتِ ترکیبی وغیرہ میں بھی ایسی خاصیت ہے کہ جس سے ایک طرف رضائے الٰہی حاصل ہوتی ہے تو دوسری طرف دنیوی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں، جن سے اب جدید سائنس بھی متفق ہے، پھر ہم کیوں کسی کی طرف للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھیں؟
در اصل اس وقت یوگا کی بنیادی حیثیت کو "جسمانی ورزش" کے خوشنما عنوان سے بدل کر پیش کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے بعض نے کہہ دیا کہ ان مشرکانہ اشلوک وغیرہ کا التزام نہ کیا جائے اور ورزش ہی کی غرض سے اسے انجام دے لیا جائےتو کوئی حرج نہیں، ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ اس صورت میں بھی کیا اس کی ممانعت کے لیے تشبہ بالکفر کی علّت کافی نہیں؟ رہے اس کے منافع اور افادیت تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کی رو سے کسی شئے کو اختیار کرنے کے لیے صرف اس کا مفید اور منفعت بخش ہونا کافی نہیں۔ رسولِ اسلامﷺ کا فرمان ہے کہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے، ایک چیز ان دونوں کے درمیان ہے، جس میں تمھیں شبہ ہو، اس چیز کو چھوڑ دینا ہی تقویٰ ہے۔

***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
موبائل : 09022278319
مولانا ندیم احمد انصاری

What more will happen in the name of Yoga day? Article: Nadim Ahmed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں