ہمارے پاس وقت تھوڑا ہی بچا ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-06-28

ہمارے پاس وقت تھوڑا ہی بچا ہے

There-Is-Little-Time-Left
کوئی تیس برس قبل محمد علی تاج بھوپالی کا ایک شعر پڑھا تھا جو بھولتا نہیں:
ایک چھینٹا بھی کہیں دامن قاتل پہ نہیں
آپ نے میرے تڑپنے کا سلیقہ دیکھا!

اس شعر میں کلیدی لفظ 'سلیقہ' ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ تمام زندگی میں ، ساری دُنیامیں کوئی بھی کام، کوئی بھی عمل اک "سلیقے" ہی سے حسن عمل بنتا ہے ورنہ تو لفاظی ہے آپ جیسے چاہیں بڑ بولا پن کرتے رہیں۔
ناخدائے سخن میر تقی میر بھی کیا سلیقے سے نبھا گئے۔ حضرت انجم فوقی بدایونی کا بھی ایک مقطع ذہن میں روشن ہے کہ اس شعر میں ایک نسخہ درج ہوگیا ہے:
قناعت با سلیقہ ہو تو انجم
پھلوں کا کام دے جاتے ہیں چِھلکے

ہر چند 'قناعت' خود ایک بڑاعمل ہے مگر وہ بھی ایک سلیقے کا طالب ہوتا ہے۔
ایک شعر اور اپنی شاعرہ کے ساتھ جلوہ بنا ہوا ہے۔ شاعرہ ہیں اندو متی وِشنوئی کسی خاص مشاعرے میں ان کے منہ سے سنا تھا اس کو بھی بیس برس تو گزر گئے مگر اس کی تاثیر ہے کہ کم نہیں ہوتی۔ آپ بھی اس میں چھپے ہوئے سلیقے سے لطف اُٹھائیے:
آئے ہونگے ضرور وعدے پر
میں نے دستک نہیں سُنی ہوگی
اندو متی وِشنوئی کا اپنے محبوب سے حسنِ ظن بھی کس درجے کا سلیقہ بن گیا ہے۔ یہ شعر بھی سنتے چلیں کہ اس میں بھی محبوب کے تغافل یا اپنے دشمن کے رویے کو بھی کس ‘ حسنِ سلیقے’ سے دیکھا گیا ہے :
توڑتا ہے بڑے سلیقے سے
دِل کی قیمت وہ جانتا ہوگا

حضرتِ میر نے بہت پہلے ہمیں بتا دیا تھا کہ یہ دُنیا ایک آئینہ خانہ ہے مگر ہم میں فراموشی کی جو خو رکھ دی گئی ہے، وہ ہمیں سلیقے سے کیسے کیسے دور کرتی رہتی ہے۔ ہم ماتھے کے نیچے دو سوراخ رکھتے ہیں جن میں دو دیدے گردش کرتے رہتے ہیں، اور وہ جو قدرت نے دونوں کاندھوں پر ایک سر رکھا ہوا ہے اس میں بھی اس نے 'کچھ' رکھا ہے مگر جب کسی چیز کو بہت دنوں تک کام میں نہیں لایا جاتا تو بزرگ کہتے تھے اس میں زنگ لگ جاتا ہے۔ سو، کھوپڑی میں کچھ تھا تو مگر ہماری فراموشی نے اسے بھی ناکارہ کر دِیا۔ واضح ہوا کہ قدرت کی طرف سے غفلت اور کفران نعمت کی بھی سزا دِی جاتی ہے اور اسی دُنیا میں۔

ایک بار ایک بزرگ امریکہ سے لوٹے تو ہم نے اُن سے سوال کیا کہ بزرگوار! بتائیں کہ امریکہ آپ کو کیسا لگا۔؟ اُنہوں نے الٹا سوال کر لیا کہ کیا مطلب؟
تو ہم نے ان سے کہا : دُنیا کی اس سپر پاور میں اسلام کے کیا حال ہیں؟ بزرگوار مسکرائے :
میاں ! وہاں پچھتر فیصد دین ہے اور پچیس فیصد دین جو وہاں نہیں ہے، یہاں عام ہے ۔ ہم نے موصوف سے عرض کیا: ذرا وضاحت۔
فرمانے لگے کہ میاں! قدرت کو، فطرت کو اِس دُنیامیں اِنسان سے جو مطلوب ہے وہ سب کچھ وہاں کے لوگوں میں ہے اب جو نہیں ہے تو وہ خدائے عزو جل کے واحد ہونے اور رسول کریم ﷺ کی رسالت کا اقرار جو یہاں 25 فیصد عام ہے مگر وہ عام نہیں جو دین کو 75 فیصد ہر انسان سے مطلوب ہے۔
ہم نے اُن کی اس بات کو تادیر سوچا بلکہ اب بھی یہ بات ذہن کو متحرک کر دیتی ہے۔ مگر ہمارا المیہ وہی ہے کہ ہم فراموش مزاج ہیں، یعنی بھول جاتے ہیں۔ مولانا رومؒ اس حالت پر بہت پہلے تبصرہ کر گئے ہیں:
"زندگی کا اَلَمہ یہ نہیں کہ وقت مختصر ہے بلکہ یہ ہے کہ ہم جینا دیر سے سیکھتے ہیں۔"
اور دیر بھی کیسی کہ وہ منزل آچکی ہوتی ہے جہاں وقتِ آخر ہماری تاک میں بیٹھا ہے۔
مگر قدرت جنہیں توفیق دے تووہ اس مختصر سے وقت میں بھی اپنا کام کر جاتے ہیں اور زندگی جیت لیتے ہیں۔

اس ہفتے جو کچھ پڑھا اور اس میں سے جو ذہن پر نقش ہوا، اس میں ہم اپنے قاری کو بھی شریک کرتے ہیں بلکہ اوپر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ محض تمہید تھی اصل قصہ تو یہ ہے جو، اب آپ پڑھیں گے:
( آفتاب احمد خانزادہ کے مضمون کا یہ چھوٹا سا اقتباس)

"آپ نے ٰ فلموں میں دیکھا ہو گا کہ ہیرو بڑی بڑی بلاؤں اور عفریتوں کا مقابلہ کرتا ہے اور انھیں ختم کر دیتا ہے کیونکہ اسے اپنی مہم ختم کرنا ہوتی ہے۔ اسی طرح عام فلموں میں بھی ہیرو برائیوں کی علامت 'وِلن' کو ختم کر دیتا ہے کیونکہ فلم کو تو ختم ہونا ہوتا ہے۔ اسی طرح ہماری زندگی کا بھی ایک وقت مقرر ہے اور وہ وقت ایک روز ختم ہو جانا ہے یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنی زندگی کی فلم میں اپنے لیے ہیرو کا کردار چنتے ہیں یا وِلن کا۔ اگر آپ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ آپ کی زندگی ہزار سال کی ہے تو پھر الگ بات ہے آپ کے پاس وقت ہی وقت ہے۔ لیکن اگر آپ اسے سو سال کی سمجھ چکے ہیں تو پھر آپ کے پاس وقت تھوڑا ہی بچا ہے۔
دُنیا میں کوئی چیز مفت نہیں ملتی۔ کامیابی کا راز دو خصوصیات میں پنہاں ہے مستقل مزاجی اور مزاحمت۔ (جسے آپ ایک سلیقہ بھی کہہ سکتے ہیں ٭ ن۔ ص) یہ بات ذہن میں رہے کہ منزل تک پہنچنے کے لیے مقصد کے ساتھ ڈاک ٹکٹ کی طرح چسپاں رہنا پڑتا ہے اور مقصد کے بغیر آپ منزل تک کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ اگر آپ گمنامی اور بدحالی میں مرنا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی۔"

رمضان کے یہ شب و روز بھی گمنامی اور بد حالی سے آپ کو نجات دِلا سکتے ہیں کہ وہاں کی گمنامی ، وہاں کی بدحالی جہاں کوئی کسی کی مدد نہیں کرے گا اور وہاں ہم آپ پہنچنے ہی والے ہیں، کچھ دیر کی مہلت ہے، بس کچھ دیر کی۔

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

There Is Little Time Left. Article: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں