رمضان - غزہ اور سوشل میڈیا پر پاکستانی پتنگے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-06-25

رمضان - غزہ اور سوشل میڈیا پر پاکستانی پتنگے


pakistan-social-media
گذشتہ سال رمضان کا ہی مہینہ تھا جب اسرائیل نے غزہ میں دہشتگرد تنظیم حماس کے خلاف آپریشن پروٹیکٹو ایج شروع کیا تھا۔ یہ آپریشن کوئی 50 دن تک جاری رہا جس میں تقریباً 2,200 فلسطینیوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا جبکہ 10,000 سے زائد فلسطینی بشمول 3,374 بچے زخمی ہوئے جن میں 1,000 کے قریب بچے ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے۔۔
اس آپریشن میں اسرائیل کے 68 فوجی اور 5 اسرائیلی عام شہری ہلاک ہوئے اور تقریباً 469 اسرائیلی فوجی اور 261 عام اسرائیلی شہری زخمی ہوئے- یہ آپریشن کوئی نیا نہیں تھا، اس طرح کے آپریشن کئی دفعہ پہلے بھی ہوچکے ہیں۔ اس آپریشن میں غزہ که معیشت کو 4-6 ارب ڈالر کا نقصان ہوا جس کی پابجائی کے لیے تقریبا 20 سال لگ جائیں گے۔ اسرائیل کو اس آپریشن میں 2.5 ارب ڈالرس کا نقصان ہوا اور حماس کے راکٹ حملوں میں 11 ملین ڈالر کا شہری نقصان ہوا اور اس نقصان کو پورا کرنے میں 14 ملین ڈالر مزید لگیں گے۔
اس آپریشن میں کسی کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا اگر کسی کو کچھ فائدہ ہوا بھی ہے تو وہ اسرائیلی اور غزہ کی سیاسی قیادت ہے جس میں دونوں طرف کے عوام کی ہمدردی حاصل کی گئی، کہ" اگر ہمیں سپورٹ نہیں کیا گیا تو اسرائیلی اور حماس کی دہشتگردی اسی طرح جاری و ساری رہے گی"۔ دونوں طرف سے عوام کا ہی شدید نقصان ہوا، غزہ کے عوام کا تو ٪100 نقصان ہی ہوا ہے۔

پہلے ہی دن سے اس آپریشن کی کھلے دل سے مخالفت کی جا رہی تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ تجزیہ نگاروں نے اس آپریشن کی ذمہ داری نہ صرف اسرائیلی حکومت پر عائد کی بلکہ حماس کو بھی اس خونی آپریشن کا ذمہ دار ٹھرایا تھا۔ اس بے رحمانہ آپریشن پر کسی بھی اسلامی ملک نے حماس کی قطعی تائید نہیں کی اور اسرائیلی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
سعودی حکومت نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ "اس آپریشن کی ذمہ دار کسی حد تک حماس بھی ہے" اور یہی روش تجزیہ نگاروں نے بھی اپنائی تھی اور کھلے عام نہ صرف اسرائیلی بربریت بلکہ حماس کی پولیٹیکل اسٹریٹجی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اس غزہ اسرائیلی-آپریشن کے وقت سوشل میڈیا پر ایک جنگ شروع ہو گئی اور ہر طرف سے ایک دوسرے پر حملے ہونے لگے، اسرائیلی شہری سوشل میڈیا پر اس آپریشن کی مکمل سپورٹ کررہے تھے اور باقی دنیا کے مسلمان اس آپریشن کی مکمل طور پر مخالفت کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں تھے۔

اس آپریشن پر پاکستانی سوشل میڈیا کے پتنگوں نے کافی حد تک حصہ لیا۔ اور انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، فوراً اپنے فتویٰ جات کے حملے شروع کردیے جو کہ ان کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو پاکستانی کمیونٹی بغیر دیکھے سوچے بے دریغ استعمال کرنا شروع کر دیتی ہے اور ان فتاویٰ کے نتیجے میں پاکستانی قوم نے بہت سارے اپنے پیارے، رشتہ دار، دوست احباب اور کمیونٹی کے لوگ کھو دیے ہیں۔
بد قسمتی سے راقم الحروف بھی ان فتویٰ جات کا شکار ہو گیا اور صرف اور صرف حماس کو تنقید کرنے پر کئی رشتہ دار اور پرانے نئے دوست احباب کھونے پڑے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انہوں نے مجھے کھو دیا اور دوسری جانب اسرائیلی حکومتی پالیسی اور اس آپریشن کی مخالفت کی وجہ سے کچھ اسرائیلی دوست بھی ہاتھ دھونا پڑا۔

پاکستانی اور اسرائیلی میں فرق بہت مہین ہے اور ان میں بہت سی چیزیں آپسی مشابہت رکھتی ہیں، ایک اہم چیز جو دونوں میں یکساں ہے وہ ہے "نظریہ"۔ دونوں ممالک " نظریاتی" ممالک ہیں، اور دنیا میں یہ دونوں ہی ایسی ریاستیں ہیں جو مذہبی نظریہ پر وجود میں آئیں اور ان کا ہر قدم مذہبی نظریہ کی نمائندگی کرتا ہے ۔ اس وقت یہ دونوں مذہبی نظریاتی ریاستیں ایٹم بم کی مالک ہیں جس کو اگر "اسلامی بم" اور "یہودی بم" کا خطاب دیا جائے تو شاید کوئی حرج نہ ہوگا۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ انہی دو ممالک نے ابھی تک این پی ٹی [Non-Proliferation Treaty] پر دستخط نہیں کیے ہیں۔

متذکرہ اسرائیلی آپریشن کو تقریباً 11 مہینے ہوچکے ہیں لیکن اس مسئلہ کو رمضان سے رمضان تک کے حوالے سے اگر سوشل میڈیا پر انہی پاکستانی بٹیروں کو دھونڈنے کی کوشش کی جائے تو یہ موسمی بٹیرے کہیں بھی نظر نہیں آئیں گے۔
ہم جیسے تجزیہ نگاروں کا پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ کچھ عرصہ بعد سوشل میڈیا کے یہ عارضی پتنگے کہیں اور (برما) چلے جائیں گے اور وہاں بھی فتویٰ جات کی زبان بولنا شروع کردیں گے۔ اور وہی ہوا کہ اس رمضان پر پاکستانی سوشل میڈیائی پتنگے کہیں بھی نظر نہیں آئے، نہ ان کے مخصوص فتاویٰ اور نہ فلسطینی موسمی ہمدردی، سب موسم کے ساتھ اڑ گئے۔

پاکستانی قوم ایک شدید ذہنی جذباتی بیماری کا شکار ہےجس کے سبب اس نے اپنے گھر، اپنے معاملات، اپنے رشتے دار، دوست و احباب اور بہت ساری قیمتی چیزیں کھو دی ہیں اور افسوس یہی کہ قوم کو ذرا سا بھی احساس نہیں ہے کہ وہ کس قدر شدید بیماری کا شکار ہے۔ جذبات ایک انسانی فطری عمل ہے مگر ان جذبات کو کس حد تک ، کہاں اور کس طرح استعمال کیا جائے، ان باتوں سے یہ قوم عاری ہے۔ اور اسی بیماری کی وجہ سے اس قوم نے ہر رشتہ گنوایا ہے چاہے وہ خونی رشتہ ہو، سیاسی رشتہ ہو یا پھر مذہبی رشتہ ۔

سوشل میڈیا کے ان پاکستانی پتنگوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ فلسطین میں اتنے لوگ ہر سال نہیں مرتے جتنا ہر سال پاکستان میں لوگ اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں مرتے ہیں۔ ان پر بھی کچھ ماتم کرلیا جائے تو شاید انسانی ہمدردی کا مناسب حق ادا ہو جائے۔
اگر پچھلے سال کا احتساب لیا جائے تو پتا چلے گا کہ صرف کراچی میں سرکاری اعددا و شمار کے مطابق تقریبا 1,624 سے زائد لوگ ہلاک ہوچکے ہیں، یہ صرف سرکاری اعداد و شمار ہیں، غیر سرکاری کا تو بحوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر سارے پاکستان پر نظر دوڑائیں تو 10,000 سے زائد لوگ ہلاک ہوچکے ہیں جن میں صرف ٪40 لوگ دہشتگردی کا شکار ہوئے ہیں باقی ٪60 لوگ دوسرے معاملات میں ایک دوسرے کی خونی ہوس کا نشانہ بنے ہیں۔ اور ان میں سکیورٹی ایجنسیوں اور پولیس کے آپریشن میں ہلاک ہونے والے بھی شامل ہیں۔
کراچی کے ان 1600 سے زائد لوگوں میں پولیس کے تقریبا 134 افراد اور رینجرز کے تقریبا 31 لوگ شامل ہیں، اور اگر کراچی کے کچھ علاقائی ڈیتھ ٹول پر نظر دوڑائیں تو بالترتیب:
شاہ لطیف ٹاؤن میں 60، لانڈھی میں 80، کورنگی میں 114، ملیر کنٹونمٹ میں 65، گلستان جوہر میں 37، گلستان اقبال میں 48، سہراب گوٹھ میں 71، فیڈرل بی آریا میں 65، لیاقت آباد میں 68، نیو کراچی میں 111، نارتھ ناظم آباد میں 37، ناظم آباد میں 47، گولیمار میں 32، سائیٹ میں 35، ماڑی پور میں 40، لیاری میں 171 اور اورنگی میں 269 اموات ہوئی ہیں۔

اب اگر ان اموات کا تعلق بیان کیا جائے تو ان اموات کے پیچھے وہ عوامل نظر آئیں گے جن کی وجہ سے ان لوگوں کا قتل ہوا۔
ایم کیو ایم: 83، ایم کیو ایم حقیقی: 1، پی پی پی: 24، اے این پی: 16، پی ٹی آئی: 6، جے یو آئی (س): 3، جے یو آئے (ف): 1، پی ایم ایل (ن): 1، اے پی ایم ایل: 1، جماعت اسلامی: 10، سنی تحریک: 13، سپاہ صحابہ: 37، شیعہ، 88، رینجرز : 31، پولیس: 137 اور ناوابستگی : 1140۔

اسرائیل ہر سال اتنے فلسطینیوں کا قتل نہیں کرتا جتنے پاکستانی اپنے ہی پاکستانی بھائی کا خون بہاتے ہیں۔ یہ عبرت حاصل کرنے کا وقت ہے مگر الزام سی آئی اے، موساد اور را کے ذمہ ڈال دیا جاتا ہے۔ ہر پاکستانی کے قتل کی وجہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی خلفشار ہے جس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔

پاکستانی کمیونٹی کا امت مسلمہ کے لیے دکھ ممکن ہے مذہبی فریضہ ہو مگر یہ دکھ پاکستان میں بیٹھے ہوئے اپنے لوگوں کے لیے بھی اتنا ہی ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ مگر المیہ یہی ہے کہ دیگر مسلم ممالک نے پاکستان کے مسائل پر کبھی توجہ نہیں دی، 15 سالہ دہشتگردی کی جنگ جس میں ایک لاکھ کے قریب پاکستانی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، اس کے متعلق ان مسلم ممالک کے عوام و حکمرانوں نے نہ کبھی سوچا، نہ کوئی بیان دیا، نہ احتجاج کیا اور نہ اس درندگی کے خلاف اپنے ملک کی سڑکوں پر اترے۔
ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ درحقیقت یہ کام صرف اور صرف پاکستانی کمیونٹی کا مذہبی فریضہ ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ پاکستانی قوم اپنے ہزارہا مسائل پر توجہ دے، ان کو سدھارنے کی کوشش کی جائے، اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ کیا جائے، مذہب و مسلک کو نفرت کے بجائے محبت کی نظر سے دیکھا جائے۔
ہر فرد کو اپنے ملک کے عوام اور ان کے حالات کی فکر کرنی چاہیے۔ کیونکہ جو قوم اپنے ملک کے ساتھ وفادار نہ ہو، اپنے ہم وطنوں کے ساتھ معاملات کی درستگی سے قاصر ہو، اس قوم کو دوسروں کے اندورنی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں بنتا۔ دوسرے علاقوں کو شہ رگ قرار دینے سے پہلے اپنی شہ رگ بچانے کی فکر کرنا ضروری ہے جو ہر روز کسی نے کسی وجہ سے کٹتی رہتی ہے۔

(کراچی ڈیٹا کے لیے 'دی ڈان نیوز' کا شکریہ)

***
The author is a Pakistan origin UK national and counter-terrorism expert.
dahri.noor[@]hotmail.com
نور ڈاہری

Pakistani netizens on social media for Gaza. Article: Noor Dahri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں