مسلکی منافرت کی آگ میں جلتا مسلم معاشرہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-06-14

مسلکی منافرت کی آگ میں جلتا مسلم معاشرہ

no-sectarianism-in-Islam
حال ہی میں مسلکی منافرت کے نتیجے میں بنگال کے کلکتہ اور بہار کے مظفرپور میں مسلکی ٹکراؤ اور تشدد کی صورت حال سامنے آئی۔کلکتہ کی ایک مسجد میں ایک پرانے امام کو اچانک ہٹانے کو لے کر جمعہ کو نماز کے بعد ہی مجاہدین اسلام کی دو ٹکڑیاں برسر پیکار ہوگئیں ۔ نتیجے میں کئی مجاہدینِ اسلام زخمی ہوگئے ۔ان کا ارادہ دشمنانِ اسلام کو جہنم رسید کرنا اور اسلام کی حفاظت کے لئے جامِ شہادت نوش کرنا تھا ۔مگر کمبخت پولس کی مداخلت سے ان کے دل کے ارماں آنسؤوں میں بہہ گئے۔ عوام کو یہ شکایت ہے کہ کمیٹی نے امام کو ہٹانے کے معاملے میں عوام کو اعتماد میں نہیں لیاتھااور اچانک تیس برسوں سے امامت کی خدمات انجام دینے والے شخص کو ہٹادیاگیااور ان کی جگہ ایک نیا امام مقرر کردیاگیا۔تشدد کے بعد پولیس آگئی اور معاملے کو کسی طرح سنبھالا مگر اخباری اطلاعات کے مطابق تناؤ برقرار ہے۔
مسلکی تصادم کادوسرا واقعہ بہار کے مظفرپور میں پیش آیا۔ یہاں کے مانک پور گاؤں میں محمد یوسف نام کے ایک شخص کی موت کے بعد وہاں کے چند مسلک پرستوں نے اپنے ایک مفتی سے فتوی مانگا کہ متوفی چونکہ "بدمذہب" (بدعقیدہ ) تھااس لئے اسے قبرستان میں دفنایا جاناچاہئے یا نہیں ۔ مفتی کے بیان کے مطابق اس نے فتوی ٰ دیا کہ اسے قبرستان کے ایک گوشے میں کہیں پر دفنادیا جائے۔ اس بیان کالہجہ بتارہاتھا کہ متوفی نا پسندیدہ تھا ۔ لہٰذا، اس فتوی کے بعد لوگوں نے اسے قبرستان میں دفن ہونے سے روک دیا۔ ایک تنازع کھڑا ہوگیا۔ شہر کے علماء اور شہر قاضی نے مفتی کے اس فتوی کی تنقید کی اور عوام میں بھی اس فتوے سے بے چینی پھیل گئی کیونکہ پہلی بار کسی مسلمان کے خلاف اس طرح کافتوی آیا تھا جو آگے چل کر نظیر بن جاتااور آئے دن مسلمانوں کی لاش کو اسی بنیاد پردفن کرنے سے روک دیا جاتا۔ علماء کی تنقید کے بعد مفتی نے مقامی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں ممبئی اور پٹنہ کے مفتیان کے علاوہ ان کے ہم خیال مقامی مفتیان کرام بھی موجود تھے ۔ اس کانفرنس میں مفتی نے شہر قاضی اوردیگر علماء کی تنقید کی اور کہا کہ ان کا فتوی شریعت کے عین مطابق تھا۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ جن لوگوں نے ان کے فتوی کی مخالفت کی ہے وہ اپنا بیان واپس لیں ورنہ ان کے خلاف اجتماعی بائیکا ٹ کیا جائے گا۔انہوں نے اپنی وضاحت میں یہ بھی کہا کہ ان سے کسی وہابی یا دیوبندی کے متعلق فتوی نہیں مانگاگیاتھا بلکہ ایک "بدعقیدہ شخص" کے متعلق فتوی مانگا تھا اس لئے میں نے بھی اپنے فتوی میں وہابی یا دیوبندی کا لفظ استعمال نہیں کیاہے۔ بہرحال، دوسری طرف پولس اور انتظامیہ کی مداخلت سے محمد یوسف کو آخرکار قبرستان میں دفن کردیاگیا مگر یہ اس علاقے کے لئے ایک مستقل مسئلہ بن گیاہے۔
یہ دونوں واقعات ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی مسلکی منافرت کا عندیہ ہیں اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اجتماعی کوششیں نہیں کی گئیں تو یہ آگ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور آج جو تعلیم یافتہ طبقہ ایک گوشے میں یہ سوچ کر دبکا ہواہے کہ وہ اپنے گوشہ عافیت میں محفوظ ہے اسے ان جھگڑوں سے کیا تو انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ آگ جب پھیلے گی تو ان کے دامن بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔وہ زندگی چاہے جتنے سکون اور لاتعلقی سے گذارلیں ،مگر جب وہ مریں گے تو ان کی لاش مسلمانوں میں خون خرابہ کا باعث ہوگی کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی میں اس خون خرابہ کو ٹالنے کا کوئی انتظام نہیں کیاتھا۔
ایسا نہیں ہے کہ مسلک اور فرقے صرف مسلمانوں میں ہیں ۔ دنیا کے دیگر آسمانی اور غیر آسمانی مذاہب میں بھی اتنے ہی فرقے ہیں جتنے مسلمانوں میں مگر دوسرے مذاہب کے پیروکاروں نے اختلافات کے ساتھ امن وسکون سے جینا سیکھ لیا ہے۔ عیسائیوں میں بھی کئی فرقے ہیں اور ایک زمانے میں ان فرقوں کے درمیان بد ترین مسلکی تشدد ہوتاتھا اور عیسائی ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے مگر انہوں نے رفتہ رفتہ یہ محسوس کرلیا ہے کہ انسانوں میں ہرزمانے میں مختلف مکتب فکر و نظر کے لوگ رہیں گے اور کروڑوں لوگوں کے ذہن کو ایک نقطے پر باندھ کر رکھنا غیر فطری اور غیر ممکن ہے ۔ہندوؤں میں بھی لاتعداد فرقے ہیں اور ہر فرقے کا اپنا پسندیدہ بھگوان ہے ۔حتیٰ کہ ایک فرقہ تو رام اور سیتا کے دشمن راون کوبھی پوجتاہے مگر پھر بھی وہ ہندو ہی کہلاتاہے ۔ کوئی فرقہ یہ نہیں کہتاکہ فلاں بھگوان کے ماننے والے اصل ہندو نہیں ہیں اس لئے انہیں ہلاک کردو اور ان کے مندروں کو مسمارکردو۔مسلمان تو پھر بھی ایک خدا، ایک رسول ، ایک کلمہ اور ایک قرآن پر متفق ہیں ان کے درمیان فکر ونظر کا اختلاف اتنا شدید نہیں ہوناچاہئے تھا کہ ہر اختلاف کرنے والا گروہ صرف اپنے گروہ کو ہی اسلام قراردے اور دوسروں کو نہ صرف کافر قرار دے بلکہ ان کے ساتھ سماجی تعلقات کے بائیکاٹ کا بھی حکم دے اور تنازع کی صورت میں مسلمان ایک دوسرے کی جان لینے پر بھی آمادہ ہوجائیں۔
خدا نے مسلمانوں کو فرقہ بندی سے جس سختی سے منع کیا ہے اتنی ہی سختی سے مسلمان فرقہ پرستی پر قائم ہیں ۔ آج یہ دیکھ کر دکھ ہوتاہے کہ" دینی " جلسوں میں "اسلام زندہ باد " کا نعرہ لگانے کے بجائے مسلمان "مسلک زندہ باد " کا نعرہ لگاتے ہیں۔یہ قرآن کی کھلی ہوئی خلاف ورزی نہیں تو اور کیاہے۔قرآن میں خدا کئی مقام پر لوگوں کو انتشار اور تفریق پیداکرنے سے منع کرتاہے۔ ایک دوسرے سے ترک تعلق کو بہت بڑا گناہ قراردیتاہے ۔ سلام کو عام کرنے اور سلام کا جواب دینے کی تاکید کی ہے ۔ قرآن کی دو سورتیں خاص طور سے پیش ہیں جن میں اللہ نے فرقہ بندی کی سخت لعنت ملامت کی ہے اور فرقہ بندی کے مرتکب کو اسلام کا دشمن قراردیاہے۔ یہ آیت پیش ہے۔
"جن لوگوں نے اپنے دین میں فرقے نکالے اور کئی کئی فرقے ہوگئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ،ان کا کام خدا کے حوالے ، پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو بتائے گا۔"(الانعام :159)
اس آیت میں خدا اپنے رسول ﷺ سے کہہ رہاہے کہ جو لوگ دین میں فرقہ بندی کرتے ہیں اور امت کو ٹکڑوں میں بانٹتے ہیں ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہوناچاہئے ۔ اللہ آخرت میں ان کے اعمال کی حقیقت ان کو بتادے گا۔اس طرح قرآن فرقہ بندی کرنے والوں پر سخت لعنت بھیجتاہے اور آخرت میں ان کی جوابدہی کی تبنیہہ کرتاہے ۔
ایک دوسری آیت میں قرآن فرقہ بندی کو اللہ کے عذاب کی ہی ایک قسم قراردیتاہے۔ پیش ہے وہ آیت:خدا اپنے رسول ﷺ سے کہتاہے:
"کہہ دوکہ وہ قدرت رکھتاہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یاتمہارے پاؤ ں کے نیچے سے عذاب بھیجے یا تمہیں فرقہ فرقہ کردے اور ایک دوسرے (سے لڑاکر آپس کی ) لڑائی کا مزہ چکھادے ۔دیکھو ہم اپنی آیتوں کو کس کس طرح بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں۔" (الانعام : 65)
اس آیت میں اللہ واضح طو رپر کہتاہے کہ جس طرح اللہ قوموں کے گناہوں اور غلط کاریوں کی سزا کے طور پران پر آسمان سے پتھروں، طوفانوں اور بارش کی شکل میں عذاب بھیجتاہے اور زمین کے ینچے سے زلزلے ، قحط ، بیماریوں اورجنگوں کی صورت میں عذاب بھیجتاہے اسی طرح فرقے بھی اللہ کے عذاب کی ایک شکل ہیں جنہیں وہ مسلمانوں کے گناہوں کی سزا کے طور پر پیدا کرتاہے اور پھر مسلمان ان فرقوں کے نام پر آپس میں جو خون خرابہ کرتے ہیں وہ بھی اللہ کا ایک عذاب ہے ۔ مگر المیہ یہ ہے کہ مسلمان فرقوں کے عذاب کو نہ صرف خوشی سے ڈھوتے ہیں بلکہ اس عذاب (فرقوں کے نام پر خون خرابہ) پررونے اور متاسف ہونے کے بجائے اسے کارِ ثواب سمجھتے اور اس پر فخر کرتے ہیں۔
آج مسلمانوں میں قرآن کی مختلف تفسیروں اور تعبیروں کے نتیجے میں نظریاتی اختلافات شدید ہوگئے ہیں اور یہ نظریاتی اختلافات الگ الگ فرقوں کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔فرقہ بندی کے زیر اثردوسرے فرقے کے افراد کے لئے کچھ منفی اصطلاحات گھڑ لی گئی ہیں جن کی قرآن اور حدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ قرآن مسلمان ، مومن ، مشرک، منافق یا کافر کے الفاظ استعمال کرتاہے اور ان کی تعریف بھی متعین کردی ہے ۔ہر فرقے کا پیروکار اپنے فرقے یا گروہ کے علاوہ سب کو کافر سمجھتاہے ۔اور یہیں سے سارے فسادات شروع ہوتے ہیں۔اور ان اختلافات کو حل کرنے میں ملت کے زعماء اب تک ناکام رہے ہیں ۔
اردو پریس کا رول بھی ان اختلافات کو کم کرنے میں حوصلہ افزاء نہیں رہاہے ۔اکثر اردو اخبارات میں یہ اعلان شائع ہوتاہے کہ ہمارا اخبار مسلکی نوعیت کے مراسلے یا مضامین شائع نہیں کرتا اس لئے مسلکی نوعیت کی تحریریں نہ بھیجیں۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مسلکی منافرت پھیلانے والے اور دوسرے فرقے کی برائی کرنے والے مراسلے شائع نہیں ہونے چاہئیں مگر حقیقتاً اخبارات ان مضامین یا مراسلوں کو بھی شائع نہیں کرتے جن میں علمی دلائل کے ساتھ مسلکی اختلافات کو ختم کرنے کی بات کی گئی ہو جیسا کہ اس مضمون میں کیاگیاہے ۔اخبارات تنازعات سے بچنے کے لئے مسلکی منافرت کے موضوع پر صحت مند مواد والے مضامین بھی شائع کرنے سے کتراتے ہیں۔اس وجہ سے مسلکی منافرت او ر مسلک کے قرآنی نقطہ نظر اور احکام سے عام مسلمانوں کو واقفیت نہیں ہوپاتی۔عام مسلمان عموماً قرآن کی تعلیمات سے ناواقف ہے اس لئے مسلک اورفرقہ بندی پر قرآن کے سخت مؤقف سے ناواقف اور اس پر اللہ کے عذاب کی تنبیہہ سے بے خبر ہے ۔ مسلکی تشدد میں یہی ناواقف طبقہ ہی سرگرم حصہ لیتاہے۔عام مسلمانکٹھ ملاؤں کی مسلکی باتوں کو عین اسلام سمجھنے کی غلطی کربیٹھتے ہیں۔ اس سلسلے میں اردو میڈیا کو ایک فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔قرآن سے گہری واقفیت رکھنے والے تعلیم یافتہ طبقے، قلم کاروں اور اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے والے علمائے اسلام کو مسلکی سوچ سے اوپر اٹھ کر اس مسلکی فتنے کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے آگے آنا ہوگا۔
خدا یا آرزو میری یہی ہے
مِرا نورِ بصیرت عام کردے
(اقبالؒ )

***
Sohail Arshad
Mob.: 09002921778
s_arshad7[@]rediffmail.com

Muslim society is burning under sectarianism. Article: Sohail Arshad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں