یہ کتاب اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس مختصر سی کتاب میں رضوان احمد مرحوم کی مکمل زندگی کا تقریباً احاطہ کر لیا گیا ہے۔ مرتب نے رضوان احمد کے جو منتخب مضامین اس کتا ب میں شامل کئے ہیں وہ مرتب کے حسنِ ترتیب کے غماز ہیں۔ یہ مضامین سیاسی نوعیت کے بھی ہیں ، سماجی، قومی و ملی نوعیت کے بھی۔ ان مضامین کو پڑھ کر رضوان احمد کی سیاسی بصیرت اور قومی و ملی درد کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ بابری مسجد کے موضوع پر اپنے ایک مضمون میں وہ لکھتے ہیں:
"سوال صرف ایک مسجد کی شہادت یا پھر اس زمین کے ٹکرے کا نہیں ہے جس پر پانچ سو برسوں سے وہ مسجد بنی ہوئی تھی، بلکہ سوال اس بات کا ہے کہ کیا مسلمانوں کو اس ملک میں اُن کے جائز حقوق حاصل ہوتے رہیں گے یا پھر انہیں اُن کے آئینی حقوق سے محروم کر دیا جائے گا۔"
(صفحہ110)
رضوان احمد صرف ایک منجھے ہوئے صحافی ہی نہیں تھے۔ وہ ایک بہترین افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کے تین افسانوی مجموعے شائع ہوئے۔ یہ اور بات ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی صحافت کے لیے وقف کر دی اور تادمِ مرگ ظلم و استحصال اور ناانصافیوں کے خلاف قلمی جہاد میں شامل رہے۔ادب کے تعلق سے ان کا نظریہ بالکل واضح اور سلجھا ہوا تھا۔ جدید افسانے کے حوالے سے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
"تجربے ہر زمانے میں ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ لیکن ہمارے یہاں تجریدیت یا ابسٹریکٹ کے نام پر جو کچھ ہوا اس کے منفی نتائج ہی برآمد ہوئے۔ مثبت کچھ بھی نہیں نکلا۔ افسانہ وہی ہے جو انسان کے ذہن کو اپنی جانب راغب کرے اور جو کچھ دیر یا تا دیر سوچنے پر مجبور کرے۔ جو ذہن کو معمہ میں الجھا دے، وہ افسانہ نہیں ہے۔ اس کو پہیلی یا معمہ کہا جا سکتا ہے۔"
(صفحہ35)
نثری اصناف بالخصوص افسانوی ادب سے نئی نسل کی دوری پر ان کے خیالات ملاحظہ کیجیے:
"بدقسمتی سے ہمارے یہاں افسانے میں نئی نسل پیدا ہی نہیں ہو سکی۔ اب اس کے جو بھی اسباب ہوں، ہمارے یہاں تو بحث ترقی پسند ادب، جدید ادب اور مابعد جدید ادب میں الجھ کر رہ گئی۔ 1980 کے بعد لکھنے والوں نے خود کو مابعد جددیت کا علمبردار کہنا شروع کر دیا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ 1980 کے بعد لکھنے والے کچھ افسانہ نگاروں نے قلم کے وقار کو باقی رکھا ہے۔ اس میں مشرف عالم ذوقی اور صغیر رحمانی وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔"
(ایضاً)
معاشرے کی تعمیر و ترقی میں صحافی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ وہ ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا سے بے نیاز ہو کر اپنے مشن میں لگا رہتا ہے۔لیکن افسوس کہ اس کے مرنے کے بعد چند تعزیتی بیانات دے کر ہم اس کی خدمات کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ البتہ شعرا و ادبا کے معاملہ میں ہمارا شعور کسی حد تک بیدار ہے۔ اشرف استھانوی نے اس کتاب کے توسط سے فوت شدہ صحافیوں کو یاد کرنے اور ان کی تحریروں کو زندہ رکھنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کی اس کوشش کی نہ صرف یہ کہ ستائش کرنی چاہیے بلکہ رضوان احمد جیسے بے شمار صحافی جنھیں زمانہ فراموش کرتا جا رہاہے، ان کی شخصیت اور خدمات پر بھی اس طرح کی کتابیں سامنے آنی چاہئیں۔
248 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو آفتاب بک ڈبو، پٹنہ، بنگال لا ہاؤس، اشکوک راج پتھ ، پٹنہ اور دیگر بُک اسٹال سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کتاب کی قیمت 210 روپے ہے۔ مرتب سے ان کے موبائل نمبر 9431221357 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
***
کامران غنی (مدیر اعزازی اردو نیٹ جاپان)
موبائل : 9835450662
ای-میل : kamran2ghani[@]gmail.com
کامران غنی (مدیر اعزازی اردو نیٹ جاپان)
موبائل : 9835450662
ای-میل : kamran2ghani[@]gmail.com
![]() |
کامران غنی |
Review of book on journalist Rizwan Ahmad's columns. Reviewer Kamran Ghani
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں