وہ 53 برس کی عمر میں 500 مضامین اور 35 کتابیں دے گیا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-06-14

وہ 53 برس کی عمر میں 500 مضامین اور 35 کتابیں دے گیا


Imam-Abu-Hamid-Al-Ghazali
لفظ غزالہ ہمارے ہاں لڑکیوں کے نام کے طور پر معروف ہے ۔ پڑھے لکھوں کے نزدیک غزال یا اُس کی جمع غزالاں ،ہرن کے معنو ں میں ہے۔ راجہ رام نرائن موزوں کا یہ شعر مشہور ہے:
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دِوانہ مر گیا آخر کو وِیرانے پہ کیا گزری
ہمارے ہاں ایک امام علم و دانش گزرے ہیں ، عموماً جن کا نام ' امام غزالی' کے طور پر معروف ہے۔ جن کی کتابیں دُنیا بھر میں مشہور ہیں۔ مگر کوئی ہم جیسوں سے پوچھ لے کہ یہ امام غزالی کے نام کے ساتھ' غزالی' کا کیا تعلق ہے یا انکے نام کے ساتھ' غزالی ' کیوں لکھا جاتا ہے؟ امام غزالی کا اصل نام کیا ہے؟ جواب میں ہم اپنے بارے میں تو یہ کہہ ہی سکتے ہیں کہ اس سوال پر ہمیں دائیں بائیں کے سوا کچھ سجھائی نہیں دے گا۔ خیر یہ تو ہوا اِک امرِ واقعہ۔ اب آئیے اصل بات پرجس میں ہم آپ کو شریک کرنا چاہتے ہیں۔ امام غزالی تدبر و دانش کی ہماری تاریخ یا شخصیات میں ایک محترم اور نہایت علم و فضل کے مرتبے کا حامل نام ہے۔ ہم جس پر فخرو ناز کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں جومزاج بنا دِیا گیا ہے یا ہم نے بنا لیا ہے۔ اس کے پیش نظر ہم اس فخر وناز سے آگے بڑھ ہی نہیں پاتے اور سچ تو یہ بھی ہے کہ ہم بڑھنا بھی نہیں چاہتے اور بڑھنے کےلئے جن صفات ِ احسن کی ضرورت ہے فی زمانہ وہ ہم میں ہے ہی کہاں۔؟
اصل بات کسی اور سمت نہ چلی جائے سو اس بات پر پہنچتے ہیں جس میں ہمیں، آپ کو شریک کرنا ہے۔ امام غزالی کی ایک اِجمالی تاریخ حال ہی میں ہم نے پڑھی جو وہ یوں ہے:
"گاؤں کا نام تھا غزالہ، یہ گاؤں طوس کے قریب واقع تھا اور طوس ایران میں تھا، یہ علاقہ اس وقت سلجوق ریاست کا حصہ تھا، غزالہ میں 1058ءمیں ایک بچہ پیدا ہوا، والدین نے ابو حامد نام رکھ دیا، یہ بچہ علم کا متوالہ تھا، اس نے غزالہ میں کیسے تعلیم حاصل کی؟ یہ بھی ایک کہانی ہے۔میں یہ کہانی آپ کو کسی اور وقت سناؤں گا، بچے نے علم حاصل کیا، علاقے میں معروف ہوا، سلجوق سلطان کے وزیر نظام الملک تک پہنچا، وزیر نے سلطان سے ملاقات کرائی، سلطان علم سے متاثر ہوا اور اسے مدرسہ نظامیہ بغداد کا سربراہ لگا دیا، مدرسہ نظامیہ اس وقت عالم اسلام کی آکسفورڈ تھا، وہ اسلامی آکسفورڈ کا سربراہ بن گیا، وہ 1091ءسے 1095ءتک چار سال مدرسہ نظامیہ کا سربراہ رہا، یہ اس کا علمی، تحقیقی اور دُنیاوی لحاظ سے ایکٹو دور تھا، اس نے اس دور میں دنیا کو دو بڑے فلسفے دیے، پہلا فلسفہ علم سے متعلق تھا" علم دو قسم کے ہوتے ہیں۔دینی اور دنیاوی وہ علوم کی اس تقسیم کا بانی تھا، اس سے قبل دینی اور دنیاوی علم ایک سمجھے جاتے تھے اور یہ دونوں علوم ایک دوسرے سے الجھتے رہتے تھے، یہ فلسفہ شروع میں مسترد کر دیا گیا لیکن دُنیا آہستہ آ ہستہ یہ حقیقت ماننے پر مجبور ہو گئی یہاں تک کہ آج دنیا کے 245 ممالک میں دنیاوی اور دینی علوم الگ الگ پڑھائے جا رہے ہیں، دوسرا فلسفہ بجٹ تھا، غزالہ کے اس 33 سالہ جوان نے دنیا میں پہلی بار بجٹ کا تصور دیا، اس کا کہنا تھا، ریاست ہو یا خاندان یہ اپنی آمدنی اور اخراجات میں توازن نہیں رکھے گا تو یہ تباہ ہو جائے گا۔اس نے دنیا میں پہلی بار بجٹ کی مختلف مدیں بھی طے کیں، اس کا کہنا تھا، ریاست آمدنی کا تخمینہ لگائے، اس آمدنی کا ایک حصہ فوج پر خرچ کرے، ایک حصہ ترقیاتی کاموں مثلاً پانی کے کنوؤں، سڑکوں، درختوں کی افزائش، شہروں میں روشنی، فصیلوں کی تعمیر، نہروں، بندوں اور آبپاشی جیسے کاموں پر خرچ کرے، تیسری مد فلاحِ عامہ تھی ،ریاست آمدنی کے ایک حصے سے مویشی پالے، شفاخانے بنائے، مدارس قائم کرے اور غربا، مساکین اور مسافروں کو امداد دے اور چوتھا اور آخری حصہ بادشاہ، وزرا، مشیروں اور عمائدین ریاست پر خرچ کیا جائے۔
اس نے عام آدمی کو گھریلو بجٹ بنانے کی ترغیب بھی دی، اس فلسفے کو بھی پہلے فلسفے کی طرح شروع میں زیادہ قبولیت نہ ملی مگر دُنیا آہستہ آہستہ اس کی اس فراست کو بھی ماننے پر مجبور ہو گئی، آج دُنیا کے 245 ممالک میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں بجٹ نہ بنایا جاتا ہو اور وہ ملک اپنے پاؤں اپنی چادر کے اندر رکھنے کی کوشش نہ کرتا ہو، وہ 1095ءمیں روحانی خلفشار کا شکار ہوا، شاندار نوکری چھوڑی، اپنے من کی تلاش میں نکلا، دنیا میں بھٹکا، صوفی ہوا اور باقی زندگی تصوف میں گزار دی، وہ کون تھا؟ دنیا اس شخص کو امام غزالی کہتی ہے۔وہ 1111ءمیں دُنیا سے رخصت ہو گئے، کل 53 سال عمر پائی، ان 53 برسوں میں 500 مضامین اور35 کتابیں لکھیں، کیمیائے سعادت تخلیق کا نقطۂ کمال تھی، یہ آج بھی یورپ کے دانشوروں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔"
امام غزالی کو ہمارے عامی اور ہم جیسے فخر زدہ ایک' امام' سے زیادہ نہیں جانتے۔ ہم نے اسی ہفتے جاوید چوہدری کے مضمون میں یہ سب پڑھا اور آپ تک بھی پہنچایا۔ صرف اس لئے کہ ہم سب کو اپنے اسلاف سے اور ان کی تاریخ سے واقف رہنا چاہیے بلکہ اپنی نئی نسل کو بھی اس سے آگاہ رکھنا چاہئے ۔ جو لوگ اپنی تا ریخ اور اپنی تاریخی شخصیات سے بے خبر رہتے ہیں ، پھر تاریخ اورزمانہ بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو انہوں نے تاریخ کے ساتھ کیا۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اپنے اسلاف و اکابر پر فخر کرنا تو عام سی بات ہے ۔ بڑی قومیں بالخصوص جنہیں دُنیا میں سرداری کا دعویٰ ہو، اُنھیں اپنے پیش روؤں کی روایت کو، ورثے کو نہ صرف زندہ رکھنا چاہیے بلکہ اپنی روایت بھی بنانی چاہیے تاکہ آئندگان کےلئے وہ ایک مثال ہی نہ بنیں بلکہ ترغیب و تحریک اور حوصلے کے چراغ بھی روشن کر جائیں کہ جن کی روشنی میں ان کی راہ واضح ہو جائے، ورنہ تو ترقی رُکتی نہیں وہ دوسری قوموں کا مقدر بن جاتی ہے۔

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

Imam Abu Hamid Al Ghazali. Article: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں