حیدرآبادی اُمراء کی دیوڑھیوں کے ملازمین اور رہائش سے ان کی امیرانہ بودوباش کے ساتھ ساتھ حیدرآبادی مرصع تہذیب کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ محل ، محل سراؤں اور دیوڑھیوں میں نیاز خانہ، باورچی خانہ، انبار خانہ، بھوئی خانہ ،درزی خانہ، شادی خانہ، مشعل خانہ، فراش خانہ ، توشک خانہ ، بگھی خانہ ، پالکی خانہ اور نقار خانہ تو ہوتے ہی تھے۔ بڑی سرکاروں کا بڑا کارخانہ ، ملازمین میں معتمد خصوصی ، مہتمم بازارات و باغات، خانسا ماں، چپراسی،شاگردپیشہ، پہرہ دار، مشعلچی، برچھابردار، ماما، مغلانی، اصیل ، کنیز، لونڈی، باندی ، قلماقنی، مالی ، مالن ، بوا، دستاربند، میر شکاری، چوبدار، کوچوان، عرض بیگی، ہرکارہ ، پیادہ، خاکروب، فراش یہ سب تو تھے ہی لیکن سالارجنگ کے عملہ میں 350 مولوی اور ملا متعین تھے جو اُن کی جاگیرات میں مساجد و عاشورخانوں کا اِنتظام و انصرام کیا کرتے تھے ۔ 40 حافظ قرآن قبرستانوں میں سرشام قرآن خوانی پر معمور تھے جن میں سات حفاظ گنبدانِ قطب شاہی میں متعین تھے کہ روزانہ قرآن خوانی جاری رہے ۔ ان تمام کی یافت دفتر متعلقہ کے بجائے سالارجنگ خود اداکرتے تھے۔ یوں تو سالارجنگ کی رہائش دیوان دیوڑھی کہلاتی تھی لیکن میری چشم گنہگارنے ایک سو ایکر پر مشتمل اس دیوڑھی کو افضل گنج کے پل سے میر عالم منڈی تک دیکھا ہے۔
سالارجنگ کی دیوڑھی قطب شاہی ، مغلیہ ، دکنی اور یوروپین طرز تعمیر کا مرقع تھی۔ اس میں قابل ذکر تعمیرات جو مجھے یاد رہ گئیں وہ نظام باغ، آئینہ خانہ، کتب خانہ، چینی خانہ، جلوخانہ، چھوٹا محل ، بڑا محل، بڑی حویلی، نیامکان، نورمحل ، لال کچہری، مہمان خانہ، شادی خانہ، بگھی خانہ، خزانہ، لکڑکوٹ ہیں۔ جہاں بگھی خانہ واقع تھا وہاں اب عدالت دیوانی واقع ہے ۔ لکڑکوٹ ایک تین منزلہ محل تھا۔کبھی یہاں قطب شاہوں کا محل ہواکرتا تھا۔ میرعالم نے اس مقام پر بارہ دری تعمیر کروائی اور باغ لگوایا۔ آصف جاہ سوم نواب سکندر جاہ اس میں میرعالم کے مہمان ہوئے تھے۔ باغ میں اگر بلبل نغمہ سرائی کرتی تھی تو بارہ دری میں مہہ لقا بائی چندا بھی کوئل کی طرح کوکتی تھی۔ کہ آہِ جگر خراش لب تک نہ آئے پر نالۂ دل بن جائے۔ باغ میں تتلیاں اور غلام گردشوں میں کنیزیں، چھلا سی کمر، چوٹیاں آگے کو ڈالے، رنگ برنگی پوشاکیں پہنے اکٹھی دکھائی دیتی تھیں۔ کون جانے کس کا رنگ کچا تھا جیسے خواب کا رنگ ، جیسے آرزو کا رنگ ۔
آئینہ خانہ کی رونق دیدنی تھی۔ دالانوں اور پیش دالانوں کے درودیوار رنگین آئینوں سے مرصع تھے اور روشنی کے ساتھ ان آئینوں کا عکس اگر خوابیدہ جذبوں کو جگادیتا تھا تو کبھی اس آئینہ خانہ کے ایک حصہ میں وہ مشہور عالم گھڑی جس میں ایک مجسمہ ہر گھنٹہ بجاکر وقت کے گذرنے کا احساس دلادیتا ساتھ ہی انگریزی شاعر شیلی کا یہ کہا بھی یاد دلادیا کرتا تھا کہ
"Life like a dome of many coloured glass stains, the white radiance of eternity."
اسی طرح چینی خانہ بھی چینی ظروف کے کلکشن اور نمائش کیلئے اپنی مثال آپ تھا۔ فن کی سرپرستی ہو تو ذوق ہر فن کا دلدادہ ہوتا ہے۔ سارے ہی سالارجنگ ،رقص و موسیقی کے بھی دلدادہ تھے۔ دیوان کی دیوڑھی میں انگریزی اور ہندوستانی دونوں ہی رقص و نغمہ کی محفلیں سجا کرتی تھیں۔ بسنتی حویلی میں مشہور اداکارہ نرگس کی ماں کجن بائی اور نمی کی ماں وحیدہ بائی نے اپنی آواز کا جادو جگایا تھا۔ بمبئی جانے سے پہلے کجن بائی نے محفل تمام کرنے سے پہلے نعت شریف پیش کی تھی۔
مجھ کو پہنچادے خدا احمدؐ مختار کے پاس
میرے آقا میرے مالک میرے سرکار کے پاس
سنتے ہیں کہ اہل محفل کی آنکھوں سے نہ صرف جھڑی سی لگ گئی تھی بلکہ ہچکیاں بندھ گئیں تھیں۔ اس کے بعد کجن بائی نے کبھی حیدرآباد میں کسی محفل میں شرکت نہیں کی۔
سالارجنگ میوزیم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ ایک گھرانے کے جمع کردہ نواردات کی نمائش گاہ ہے ، اور یہ اعزاز بجا بھی ہے ۔ تاج محل کے تعلق سے یہ بات درست ہے کہ :
جب شہنشاہ بھی ہو عشق بھی ہو دولت بھی
تب کہیں جاکے کوئی تاج محل بنتا ہے
سالارجنگ میوزیم پر بھی یہ بات صادق آتی ہے کہ حیدرآباد میں دولت بہت سارے گھرانوں میں رہی لیکن ذوق ، لگاؤ اور دولت کی یکجائی نے یہ کرشمہ دکھلایا کہ تین نسلوں کی کاوش نے اس عجائب گھر کی صورت اختیار کرلی۔ چنانہ Veiled Rebieca کا مرمریں اور Mehestophiles and Margretta کا چوبی مجسمہ اگر سالار جنگ اول کا انتخاب ہے تو یشب کے بنے ہوئے نواردات میں سے بیشتر نواب میر لائق علی کی پسند ہیں۔ مجموعی اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے ۔ عادل شاہی ، قطب شاہی دور سے آصفیہ دور تک کے باقیات کے علاوہ دنیا بھر کے نواردات میں جہاں تک رسائی ہوسکی اس کی حیدرآباد میں یکجائی میں اس خاندان نے کوئی کسر نہیں باقی رکھی۔ سارلاجنگ سوم نے اسے باقاعدہ ایک میوزیم کی شکل دیدی۔ چالیس ہزار سے زیادہ فن کے نوادرات کا متروکہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ اس کا حقیقی علم عوام کو اس وقت ہوا جب سالار جنگ سوم کے اِنتقال کے بعد سالارجنگ کمیٹی نے ڈاکٹر کوزن اور جی وینکٹاچلم ، ماہر آثار قدیمہ کے تعاون سے اس میوزیم کو ترتیب دیا۔ 16؍ڈسمبر1951ء کو ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو نے ایک کثیر اجتماع میں اس میوزیم کا اِفتتاح دیوان دیوڑھی میں کیا ۔ اسی زمانے میں کوئی 114 دعویدار سالارجنگ کے متروکہ کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ اُن کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ تمام اشیائے متروکہ کے حصہ دار ہیں جس میں میوزیم کی تمام اشیاء بھی شامل ہیں ۔ بعد میں ان ورثاء نے متفقہ طور پر حکومت سے مصالحت کرلی۔ چنانچہ 3؍ڈسمبر1958ء کو عدالت سے جو احکام صادر ہوئے اس کے بموجب تمام ورثاء نے اس سے دستبرداری اختیار کرلی۔ اور یہ تمام اشیاء مرکزی حکومت کی ملکیت قرار پائیں۔ یکم ؍جولائی 1961ء کو میوزیم کا نظم و نسق سالار جنگ میوزیم بورڈ کے حوالے کردیا گیا جس کے صدرنشین ریاستی حکومت کے گورنر قرارپائے اور ایک رُکن سالارجنگ کے افرادِ خاندان سے شامل ہے۔ تاحیات نواب عباس یارجنگ اس کے ڈائرکٹر رہے اور اب نواب احترام علی خاں اس عہدے پر فائز ہیں۔ سالارجنگ کے ورثاء کی جانب سے 5 لاکھ روپئے اور 5 ایکر زمین میوزیم کیلئے عطیہ دی گئی۔ حکومت نے بعد میں مزید 5 ایکر زمین خریدی۔ چنانچہ رودِ موسیٰ کے کنارے سے جہاں کبھی لکڑکوٹ محل ہواکرتا تھا اُس کے احاطے میں اب سالارجنگ میوزیم قائم ہے۔ اس عمارت کا سنگ بنیاد بھی پنڈت جواہرلال نہرو نے 23؍جولائی 1963ء کو رکھا تھا۔ حیدرآباد کے مشہور آرکیٹکٹ جناب حشمت رضا نے اسے ڈیزائن کیا تھا پر اس میں برطانیہ اور جاپان کے آرکیٹکٹ نے اضافے کئے۔ یکم ؍جون 1968ء کو میوزیم کی نئی عمارت میں منتقل کردی گئی اور اس کا رسمی افتتاح ڈاکٹر ذاکر حسین صدرجمہوریہ نے کیا۔
جن احباب نے دیوان کی دیوڑھی میں سالارجنگ میوزیم دیکھا ہے اُن کو یہ گمان ہے کہ نئی عمارت میں سابقہ میوزیم میں جو کچھ دیکھا گیا اُس کی بہ نسبت بہت کم نواردات موجود ہیں اور بہت سارے نوادرات غائب ہوگئے۔ یہ گمان درست بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمارت کی تنگدستی کی وجہ سے صرف25فیصد نوادرات نمائش کیلئے موجود ہیں جب کہ 75 فیصد ابھی اپنی جگہ کیلئے محافظ خانے میں قید ہیں اور صاحبانِ ظرف و نظر کی دادوستائش کے منتظر ہیں۔ لیکن جو کچھ بھی نمائش کیلئے رکھا گیا ہے ان کے تفصیلی معائنے کیلئے بہت وقت چاہیئے۔
سالارجنگ میوزیم کے نوادرات پر تفصیل کیلئے ایک عمر درکار ہے۔ میری نظر میں سالارجنگ کا کتب خانہ ان نوادرات سے زیادہ بیش قیمت ہے۔ ہر خاندان کا کتب خانہ اُس کے علمی ذوق کا مظہر ہوتا ہے۔ اس کتب خانہ کی سب سے قدیم کتاب ایک قلمی قرآن حکیم ہے جس پر سالارجنگ کے جداعلیٰ محمد باقر ابن شیخ محمود علی کے دستخط ہیں اور اسکی شروعات 1656ء میں ہوئی ۔ چنانچہ سالارجنگ اول کی زندگی میں قیمتی اور نادر کتابوں کی تعداد 6000 تک پہنچ چکی تھیں۔ میرلائق علی نے اس میں گراں قدر اضافہ کیا اور علیحدہ علیحدہ فہرست مرتب کروائی۔ سالارجنگ سوم کے زمانے میں یہ کتاب خانہ بہت رئیس ہوچکا تھا اور آج اسے عالمی شہرت حاصل ہے۔
آج اس کتب خانہ میں 56000 سے زیادہ انگریزی کتابیں ، تقریباً 22000 عربی، فارسی اور اُردو کتابیں ، 8000 سے زیادہ مخطوطات شامل ہیں جو سالارجنگ کی وراثت میں ملی ہوئی خوبصورت الماریوں میں اپنے ظاہری اور باطنی حُسن کا شاہکار بنی ہوئی ہیں ۔ خوشی اس بات کی ہے کہ کتب خانہ آصفیہ کی طرح اس کتب خانے سے غفلت نہیں برتی گئی ۔ بلکہ اس میں آج بھی اضافہ ہورہاہے۔ اسی کتب خانے میں سب سے قدیم مطبوعہ کتاب ’’ تاریخ والقدا‘‘ فارسی ترجمے کے ساتھ موجود ہے جو 1723ء میں چھپی جو اب 292 سال پورے کررہی ہے۔ اسی طرح 1721ء کی بائبل اور 1784ء کی ’’ الفاظ الکتابیہ‘‘ بھی موجود ہے۔
ادارۂ سیاست فن خطاطی کی بقاء کیلئے اپنی سعی کررہا ہے ۔ میرے خیال میں اگر توجہ کی جائے تو ان مخطوطات سے خط کوفی، نسخ، نستعلیق، شفیہ، شکستہ، دیوانی ، طفرہ، ثلث اور ان کے انوکھے طرز ، عنبار، جلی، خانی، گلزار، پیچاں، بہار، زلف عروس اور خط ناخن کو ترویج مل سکتی ہے۔ شاہانِ صفوی، ایران ، بخارا، افغانستان ، کشمیر ، مغلیہ ، عادل شاہی ، قطب شاہی ، آصفیہ اودھ کے کتب خانے کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچ کر اپنی منزل پاچکے ہیں ۔ لیکن میری نظر میں وہ دو سو مصور نسخے ایسے ہیں جن میں دو ہزار سے زیادہ قلمی تصاویر ہیں ،اور وہ اہم ترین ہیں۔ایک قلمی قرآن مجید خط کوفی میں دوسری صدی ہجری میں لکھا گیا ،جواس کتب خانے کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے ۔ مشہور خطاط یاقوت ؔ کا اگر ایک بھی نسخہ کسی کتب خانہ میں ہو تو وہ سرمایہ قرار پاتا ہے لیکن اس کتب خانہ میں دو یا تین نسخے موجود ہیں ۔ قرآن مجید کا اورایک نسخہ بھی ہے جو ابراہیم عادل شاہ نے خود لکھا تھا،یہاں موجود ہے۔ ایک نسخہ کوٹ پر لکھا ہے جسے پہن کر سلاطین عادل شاہی انصاف کیا کرتے تھے۔ ان ہی مخطوطات میں آپ کو مرزا غالبؔ کا وہ قصیدہ بھی مل جائے گا جو انہوں نے سالارجنگ کو روانہ کیا تھا ۔ فردوسی ، نظامی ، انوری، قاقانی ، عطار، امیر خسرو، حافظ شیرازی، عبدالرحمن جامی، شاہ راجوقتال حسینی، عرفی، ظہوری، نادِعلی سرہندی، بیدل ، چندولال شاداں، میر عالم اور کئی مشاہیر کی تحریریں آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی قدیم ترین تاریخ ’’تاج الماثر‘‘ عشرتی کا ترجمہ ’’ پدمادت‘‘ اجزاء کیمیاء ، کلیات محمد قلی قطب شاہ اور عبداللہ قطب شاہ ، دکنی آرٹ کی آٹھ قیمتی تصاویر جو شیراز سے مقابلہ کرتی ہیں ۔ ’’ نورس ‘‘ از جگت گرو ۔ موسیقی کے شعبہ میں واجد علی شاہ ، رائے بشیر ، خوشحال خان کے مخطوطات تو ہیں ہی لیکن حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز کا ’’ تلاوت الوجود‘‘ اور شکارنامہ قابل ذکر ہیں۔
سیم وزر، دولت کے انبار انسان کو کس مسرت سے آشنا کرتے ہیں میں فقیر بے مایہ کیا جانوں ! میں تو اِنسانوں کے بھیس میں دوڑتی ہوئی حسرتوں کو رونق بازار دیکھ کر دیدہ حیراں کی صورت صرف یہ کہوں :
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پر طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
***
afarruq[@]gmail.com
18-8-450/4, SILVER OAK, EDI BAZAR,NEAR SRAVANI HOSPITAL, HYDERABAD- 500023
Mob.: +919848080612
afarruq[@]gmail.com
18-8-450/4, SILVER OAK, EDI BAZAR,NEAR SRAVANI HOSPITAL, HYDERABAD- 500023
Mob.: +919848080612
علامہ اعجاز فرخ |
The history of Salarjung Museum of Hyderabad Deccan. Article: Aijaz Farruq
تعمیر نیوز کا شکریہ
جواب دیںحذف کریںعلامہ اعجاز فرخ کے دیگر مضامین کا انتظار رہے گا
وصی بختیاری عمری