فاروقی کی افسانہ نگاری کے خلاف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-06-17

فاروقی کی افسانہ نگاری کے خلاف

sawaar-shamsur-rahman-faroqui
" چپ رہو ۔ جانتے ہو ، لفظ 'واقعہ' کے معنی حقیقت بھی ہیں ، اور خواب بھی اور موت بھی "
( لاہور کا ایک واقعہ: صفحہ نمبر 351)

شمس الرحمن فاروقی نے چند برس قبل " افسانے کی حمایت میں " مفصل اور مدبرانہ دلائل پیش کر ، اس یتیم صنف کے ساتھ جو سلوک کیا تھا اس سے اچھے اچھے افسانہ نگار اپنی عفت و عصمت کے بکھرے ریشوں کو جمع کرنے میں ناکام پڑگئے تھے۔ مگر قیامت دیکھئے اسی صنف نے فاروقی صاحب کے اندر پوشیدہ تخلیقی ذہن کو اردو ادب کی دنیا میں احترام کا مقام عطا کیا ہے۔ بے شک بطور ناقد شعر اور شعریات فاروقی صاحب کی صلاحیتیں اردو ادب کی تاریخ میں اپنا لوہا منوا چکی ہیں، مگر شاعر وہ عمدہ کبھی نہ کہلا سکے۔ یعنی 'تخلیق کار"کا درجہ انھیں کبھی اس معیار و قدر کا حاصل نہ ہوا تھا جس کے امکانات ان میں موجود تھے ۔ شاید یہی احساس تھا جس نے انھیں اپنی کہانیوں کو اپنے نام سے چھپوانے کی ہمت نہیں دی۔ وہ نام بدل کر بہروپئے کی طرح اردو فکشن کے اسٹیج پر وارد ہوئے اور "غالب افسانہ" کے ساتھ اردو افسانے پر غالب ہوگئے۔ مجھے یاد ہے " غالب افسانہ" پڑھتے ہی میں نے بھی انھیں فوراً خط لکھا تھا اور کہا تھا اس اسلوب میں افسانہ نیّر مسعود اور آپ کے علاوہ شاید ہی کوئی اور لکھ سکے۔ اور یہی غالباً دیگر حضرات کا خیال تھا جو فکشن سے واقف تھے / ہیں۔
فاروقی صاحب کے افسانوں پر گفتگو کا بازارگرم ہوا اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ ان پانچ افسانوں نے اردو کہانی کو ایک طرف تہذیبی ثقافت /ادبی لسانی ثقافت/قومی تاریخی ثقافت/ارتقائی سیاسی اثر پذیری /ماضی کی بازیافت اور بیانیہ کے رول/تاریخی حقیقت نگاری کے اسالیب /افسانوی غیر حقیقت نگاری/داستانوی متن کی تشکیل نو/جیسے کئی مسائل پر بحث کے لیے نئے زاویے دیے ہیں۔ تو دوسری طرف خاص طور پر بائیں بازو کے ادیبوں کے لیے عجیب کشمکش پیدا کردی ہے ۔ [میں ان میں سے ایک ہوں]
(1) زبان کا رشتہ مذہبی ثقافت سے کس حد تک ہو؟
(2) ادب کی تخلیق میں ارادے کا دخل کتناہو؟
(3) تاریخ کی تشکیل نو کے مآخذ کا احتساب کن بنیادوں پر کیا جائے؟
(4) تاریخ پرستی سے مستقبل کی دریافت ممکن ہے یا نہیں ؟
(5) ادبی سرمائے کی اہمیت کا جواز کیا ہو؟
(6) احتجاج کے بغیر سماجی و تاریخی حقیقت نگاری کیوں کر ممکن ہے؟
(7) ماضی پرستی کے نقصانات کیا کیا ہیں ؟
(8) اور ایسا بیانیہ کس کام کے لیے ، جس سے حال کا نوحہ رقم نہ کیا جائے؟
(9) جدلیاتی نظام کے بغیر سماج کی تصویر کشی کسی سیاسی منشور کا حصہ تو نہیں ؟

اس طرح کے بے شمار سوالات میرے ذہن اور میری طرح کے بائیں بازو اور احتجاج میں یقین رکھنے والے ادیبوں کے دماغ میں آتش فشاں بن کر اُبلے' ___بعض نے چپ سادھ لی ، بعض نے فاروقی کے افسانوں کو غیر حقیقی اور زندگی سے فرار قرار دیا۔ اور بعض نے " فاروقی کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔" ایسے ذیلی عنوانوں سے خود کو بہلایا۔ بعض نے کہانیوں کو پڑھے بغیر انھیں غیر معیاری قرار دینے کے بہانے مثلاً مابعد جدید تعویزیں ایجاد کرلیں___میرے اندر خود کو بہلانے کے ہنر موجود نہ تھے اس لیے میں نے بیشتر افسانہ نگاروں سے فاروقی صاحب کی افسانہ نگاری پر گفتگو کی چند ایک سے خط و کتابت کی ___میں نے سوال کیے:بتائے فنّی ، تکنیکی اور ادبی نقطۂ نظر سے فاروقی کی افسانہ نگاری میں کیا عیوب ہیں؟ جواب نہ ملے ___میں نے پوچھا بتاؤ : وہ ماضی پرستی کیوں عذاب ہے جس میں ثقافت مسخ نہیں کی گئی ہے؟ جواب نہ ملا___میں نے پوچھا بتاؤ : کس اردو افسانے پر اس قدر گفتگو ہوئی ؟ جواب نہ ملا ۔ میں نے پوچھا :____
خیر جواب نہ ملے۔ اسی دوران فاروقی صاحب کی کتاب "سوار اور دوسرے افسانے " قمر صدیقی نے مجھے بھیجی ۔___ میں نے کہانیوں کو سنجیدگی سے پڑھنا شروع کیا ۔ کیوں کہ اپنے سوالات کی صلیب اس کتاب کی سطور میں مجھے خود تلاش کرنی تھی___مجھے اردو فکشن نگاروں سے سنجیدہ ادبی بحث کی توقع کم رہتی ہے۔ اکثر لوگ جذباتی ہیں اور بیشتر تو عمدہ قاری بھی نہیں ہیں تو آپ کیا خاک بات کریں گے۔

فاروقی نے دیباچے میں اپنے منشا اور ان کہانیوں کے تعلق سے سیر حاصل باتیں لکھی ہیں جن سے کئی ابہام کھل جاتے ہیں۔
" اچانک مجھے خیال آیا کہ غالب کے بارے میں افسانے اور حقیقت پر مبنی ایک بیانیہ کیوں نہ لکھوں جس میں غالب سے متعلق ادب کے معاملات ، کچھ اس زمانے کی ادبی تہذیب ، اور کچھ تاریخ ، سب حل ہوکر یکجا ہوجائیں ۔ میں کئی برس سے اردو قدیم ادبی تاریخ اور تہذیب پر بیک وقت اردو اور انگریزی میں کتاب لکھ رہا تھا۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ہماری پرانی ادبی تہذیب ہمارے حافظے اور علم سے تقریباً غائب ہوچکی ہے۔ اگر یہ وقت کی سطح کے نیچے اتر کر ڈوب گئی تو ہمارا نقصان عظیم ہوگا، اور اس کی بازیافت تو خیر ممکن ہی نہ ہوگی۔ جن تہذیبوں کاماضی نہیں ، ان کا مستقبل بھی نہیں۔ اردو ادب و تہذیب کو فراموش کردینے ، اسے پایۂ اعتبار سے ساقط تصور کرنے یا ساقط قرار دلوانے کی جو کوششیں ملک میں جگہ جگہ ہورہی ہیں ( اور ان کوششوں میں ہمارے بھی بعض سربرآوردہ حلقے شریک ہیں) ، ان کو دیکھتے ہوئے یہ اور بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے تاریخی حافظے کو زندہ رکھیں اور اپنی ادبی تہذیب جاندار قائم رہنے والی، اور آج بھی بامعنی حقیقت کے طور پر پیش کریں۔"
(دیباچہ : صفحہ نمبر 20)

"ان صحبتوں میں آخر " ، "زمین آفتاب " اور "سوار" کی تخلیق کا سبب فاروقی یوں بتاتے ہیں:
"اٹھارویں صدی کو ہند اسلامی تہذیبی تاریخ کا ذرّیں باب سمجھتا ہوں۔ اردو ، فارسی ادب ، تصوف ، علوم عقلیہ و نقلیہ ، فنون حرب و ضرب ، موسیقی ، ان میدانوں میں اٹھارویں صدی والوں نے جو نئے نئے ممضمار و بیدا دریافت کئے ، ان کی مثال پہلے نہیں ملتی ، بعد میں ملنے کا تو خیر کوئی سوال ہی نہیں۔ اور اٹھارویں صدی کی دہلی کا کوئی کیا حال لکھے ۔ ہم لوگ چند شہر آشوبوں ، چند ہجوؤں ، تعصب اور کینہ پر مبنی چند افسانوں کو تاریخ قرار دے کر اٹھارویں صدی کی زوال ، انتشار ، بد امنی ، طوائف الملوکی ، امیروں کی مفلسی اور غریبوں کی فاقہ کشی کا شہر سمجھتے ہیں۔"
(دیباچہ : صفحہ نمبر 24)

مزید :
" میں اس دلی کا دلدادہ تھا ، کیوں کہ اردو کی ادبی تہذیب صحیح معنی میں اپنا رنگ اور طور طریق محمد شاہ اور احمد شاہ اور پھر شاہ عالم ثانی کے زمانے میں حاصل کرتی ہے۔ سیاسی قوت اس شہر کی بھلے ہی گھٹ گئی ہو، لیکن اس کی تہذیب زوال آمادہ اور انحطاط آلود نہ تھی، اور دس بار لٹنے کے بعد بھی اس شہر کی گلیوں میں بھیرونہیں ، بلکہ اس زمانے کی حسین ترین رقاصائیں ناچتی پھرتی تھیں۔ دلی کا چھوٹا سا پیکر آصف الدولہ کے وقت سے لے کر واجد علی شاہ کے عہد کا لکھنؤ تھا۔ لیکن افسوس کہ لکھنؤ کی تصویر ہمارے ذہنوں میں پریم چند کے افسانے اور ستیہ جیت رائے کی فلم نے بنائی ہے ، ٹھوس تاریخ نے نہیں ۔
دلی کا حق تھوڑا بہت ادا کرنے کے لیے میں نے پہلے میر کے بارے میں افسانہ نہیں لکھا۔ بلکہ 'سوار' لکھا۔ میرے اپنے حساب سے اس افسانے کا مرکزی کردار خود شہر دہلی ہے کہ جس کے بغیر نہ وہ پر اسرار سوار ہوتا ، نہ بدھ سنگھ قلندر ، نہ عصمت جہاں ، اور نہ افسانے کا راوی مولوی خیر الدین ۔ان سب کی شخصیتیں دلی کی شخصیت کا ذرا ذرا سا ٹکڑا ہیں۔ پھر 'سوار' کے بعد مجھے 'ان صحبتوں میں آخر ' لکھنا ہی تھا۔ اور وہاں بھی ، جیسا کہ بہت سے پڑھنے والوں نے محسوس کیا، صرف میر نہیں ہیں۔ اس کے بعد 'آفتاب زمین ' آتا ہے، جس میں دہلی کی جھلک بھی ہے ،اور دہلی کی اولاد معنوی ، یا اس کے جانشین کے طور پر لکھنؤ دھیرے دھیرے خود کو قائم کررہا ہے۔ لیکن اس کے لیے شجاع الدولہ اور سعادت علی خان کا خون گرم برق خرمن بن گیا۔"
(دیباچہ : صفحہ نمبر 27 اور 28)

فاروقی صاحب نے اپنا موقوف بیان کردیا اور اب اس پر گفتگو ممکن ہے، گو فاروقی صاحب نے اپنے ناقدین کاکام آسان کردیا ہے شاید اسی سبب مجھے اس روز شدید حیرت ہوئی تھی جب اقبال مجید نے ممبئی میں "فکشن کی جمالیات " پر منعقد سمینار میں کہا تھا کہ " یہ دیکھو ان کی افسانے لکھنے کی نیت کیا ہے ___"اور تمام افسانہ نگاروں نے تالیاں بجائی تھیں۔ پھر انھوں نے "نمک" کا ذکر کیا تھا جس میں جبر کے خلاف "سرد احتجاج " تھا۔ فاروقی کے یہاں احتجاج نہیں ہے؟ یا سماجی حقیقت نگاری نہیں؟ یا جبر اور انسانی استحصال کو انھوں نے بیان نہیں کیا ہے؟ کہنا کیا چاہتے تھے اقبال مجید صاحب یہ شاید کسی کو نہیں پتہ ___شاید اقبال مجید صاحب کو بھی نہیں پتہ ورنہ فاروقی کی کہانیوں کے مندرجہ ذیل اقتباسات ان کی نظروں سے گزرے تھے نا ____؟؟

" لیکن وہ 1856ء کا سال مجھ پر کچھ عجیب بھاری گذرا۔ اودھ کی سلطنت کے انتزاع کا ہم لوگوں پر براہ راست اثر یہ پڑا کہ کلکتے کے بڑے لاٹ کے خلاف دلوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑنے لگی ۔ ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ اشیا کی قیمتیں آپ سے آپ بڑھنے لگی تھیں۔ ضروری اشیا بھی عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا اودھ کی پیداوار اب مشرقی اضلاع میں آنا بند ہوگئی ہے۔ موٹے اور باریک اناج سب ایک بھاؤ ہوکر روپئے کے آٹھ نو سیر بکنے لگے۔ لوگوں میں خبر اڑی کہ کمپنی نے اودھ اور اطراف کا سارا مال ولایت بھیج دیا۔"
(غالب افسانہ : صفحہ نمبر 37)

" بادشاہ جان عالم کے کلکتہ پہنچنے کے چند ہفتے بعد لوگوں میں خفیہ باتیں مشہور ہونے لگیں کہ نہ صرف اودھ ، بلکہ دلی کی بھی بادشاہت واپس آنے ولی ہے۔ کبھی کبھی کوئی شخص سرگوشی میں "چپاتی" نام کی کسی چیز کا ذکر کرتا جو دراصل خفیہ پیغام رسانی کا ایک طریقہ تھی۔ کبھی کوئی کہتا کہ منڈیاؤں کی چھاؤنی میں جو فوج کمپنی بہادر نے شاہ اودھ کو دبائے رکھنے کے لیے متعین کررکھی تھی ، اب وہ باغی ہونے والی ہے ، یا ہوگئی ہے۔ آرکاٹ کے ڈنکا شاہ کا ذکر 1856ء کے اواخر میں زبانوں پر پھیلنے لگاکہ وہ جہاں جاتے ہیں ، ان کے آگے آگے ڈنکا بجتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کے سردار آرہے ہیں۔ اپنے مواعظ میں وہ (ان کا اصل نام بعد میں معلوم ہوا کہ مولوی احمد اللہ ہے) کھلے بندوں ہندو مسلمان دونوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد و جنگ کی ترغیب دیتے ۔ ان کا کہنا تھا کہ انگریزوں کی حکومت بے دینی اور باطل پر مبنی ہے۔ یہ لوگ ہندو مسلمان دونوں سے ان کا مذہب چھڑا کر انھیں خدا سے دور کردیں گے۔"
(غالب افسانہ: صفحہ نمبر 37)

" 1857ء کو شروع ہوئے ایک دومہینے گذرے تھے کہ چپکے چپکے یہ خبر پھیلی کہ ڈنکا شاہ کو انگریزوں نے فیض آباد میں گرفتار کرلیا ہے۔ ہمارے لوگوں میں عجب بے چینی اور کشمکش سی پھیل گئی۔ میں نے ایک دن اپنے والد کو میری ماں سے کہتے سنا کہ بینی مادھو کو اس کے ماموں کے پاس شاہجہاں پور بھیج دو۔ یہاں حالات اب دگرگوں ہونے والے ہیں۔
پھر ایک رات یہ خبر جنگل کی آگ کی سی تیزی سے پھیلی کہ میرٹھ میں انگریزوں کے ساتھ کچھ بہت خراب سلوک دیسی سپاہیوں کے ہاتھوں ہوا اور فرنگی سب میرٹھ ، بلند شہر وغیرہ چھوڑ کر پنجاب کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ واقعہ کیا ہوا ، اس کی تفصیل نہ معلوم ہوئی ، بجز اس کے کہ سپاہیوں کو ایسے کارتوس منھ سے کاٹنے کو ملے تھے جن میں سور یا گؤ کی چربی تھی۔ منگل پانڈے نامی سپاہی نے کارتوسوں کو کاٹنے سے انکار کیا اور اپنے انگریز افسر کوگولی ماردی ۔ کہا جارہا تھا کہ انگریزوں نے یہ خبر دبا رکھی تھی لیکن اب یہ ہر طرف پھیل گئی ہے۔ دیسی سپاہی جگہ جگہ خروج کررہے ہیں اور اعلیٰ حضرت ظل سبحانی ابو ظفر سراج الدین بہادر شاہ ثانی کو شاہ ہند کا لقب دے کر دوبارہ تخت نشین کردیا گیا ہے۔ دوسرے دن اور نزدیک کی یہ خبر آئی کہ دیسی سپاہیوں اور ڈنکا شاہ کے ساتھیوں نے فیض آباد کا جیل خانہ توڑ کر ڈنکا شاہ کو رہا کرالیا ہے اور اب وہ ایک جم غفیر کے ساتھ عازم لکھنؤ ہیں۔"
(غالب افسانہ: صفحہ نمبر 83)

"چند مہینے اور نکل گئے ، میں اس میش گم کردہ راہ کی طرح زندگی گزاررہا تھا جو قوت لایموت کے لیے ادھر ادھر بھٹکتی پھرتی ہے، اور امید کرتی ہے کہ گرگ ، درندہ کے آلینے سے پہلے اسے گھر کا راستہ بھی مل جائے گا۔ 1179ھ کا سال تھا ، اور ماہ صفر اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا ]مطابق اگست 1765ء، مرتب[کہ خبر آئی ہمارے بادشاہ جمجاہ نے اپنے اسم سامی ابو المظفر جلال الدین کی مناسبت سے صفر المظفر کی 24 کو بنگال اور بہار کی دیوانی کمپنی بہادر کے حوالے کردی۔ بکسر کی جنگ میں شکست کا اہل دہلی کو اتنا غم نہ ہوا تھا جتنا اس سانحے پر ہوا۔ جنگوں میں شکست و فتح تو ہوتی ہی رہتی ہے۔ آخر ابدالی نے مراٹھا کو چند ہی برس پہلے یہیں دہلی کے پاس پانی پت کے میدان پر شکست فاش دی تھی ]جنوری 1761ء ، مرتب[ ابھی اس واقعے کو ایک دہائی بھی نہ گزرنے پائی ہے کہ مراٹھا گردی دوبارہ اپنے شباب پر نظر آتی ہے۔ لیکن اختیارات ملکی و مالی ایک بار ہاتھ سے نکل گئے تو نکل گئے ۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ بادشاہ جمجاہ ، ظل الہیٰ الہٰ آباد ہی میں فرنگیوں کے زیر سایہ عمر کاٹ دیں گے، لال قلعے کو دوبارہ دلھن بننا اب نصیب نہ ہوگا۔"
(سوار: صفحہ نمبر 83)

سماجی و سیاسی جدلیاتی صورت حال کا بیان جسے ان دنوں احتجاج کہاجاتا ہے یعنی سیاسی حالات کا بیان اور عام آدمی کی حمایت یا استبداد کے خلاف تحریر، تو یہ باتیں فاروقی کے افسانوں میں انتہائی خوبصورتی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ یہ افسانے جس عہد کا رزمیہ المیہ خلق کرتے ہیں اس کی شکستہ حالی اور سماجی صورت حال کو یہ اسی عہد کی بیانیہ تراکیب اور محسوساتی نہج میں پیش کرتے ہیں۔فاروقی نے سماج کے گوناگوں چہرے اور روپ پیش کئے ہیں ۔ مثلاً:
" سارا شہر ، ہلکے پستئی زرد رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ کیا ہندو کیا مسلمان ، بسنت کا ذوق سب کو تھا۔ سلطان جی کی بارگاہ پر بسنتی کپڑے پہنے عورتوں مردوں کے جھنڈ شام و سحر نظر آتے تھے۔ پہلے مسلمانوں کو اس موسم اور اس میلوں سے رغبت نہ تھی ۔ لیکن حضرت سلطان جی اور امیر خسرو کا تعلق بسنت کے تیوہار سے قائم ہوا تو چیت کے مہینے کا وسط ہوتے ہوتے دلی کے سارے مسلمان بسنتی رنگ میں رنگ جاتے تھے۔ چاند رات ہی سے بسنت چڑھانے کی تقاریب کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ سب سے پہلے اللہ میاں کی بسنت بھوجلہ پہاڑی پر جامع مسجد کے نیچے ، چاند رات کو چڑھتی ۔ پھر دن نکلنے پر قدم شریف پر بسنت چڑھاتے۔"
(سوار : صفحہ نمبر 100)

سماجی حقیقت نگاری ، تاریخی شعور اور جدلیت ؛ ثقافت کے ارتقائی عمل میں تحلیل ہوگئے ہیں اور اسی سبب فاروقی کے افسانوں میں زندگی کا کوئی ایک گوشہ اجاگر نہیں ہے بلکہ زندگی اپنے پورے جمال اور چہرے کے ساتھ نمودار ہے ۔ سماج نہ صرف انتشار کا شکار ہوتا ہے ، نہ صرف جبر کا ، نہ ہمیشہ پر امن رہتا ہے، نہ ہر آدمی غریب نہ ہر آدمی امیر ، نہ سب جنگ کرتے ہیں اور سب بزدل ہوتے ہیں۔ نہ ہر آدمی مذہبی ہوتا ہے اور نہ ہر بے دین ___ایک مجموعی شکل سماج کی ہوتی ہے اور فاروقی اس مجموعی سماجی ثقافت کے باقیات کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
سیلاب اور قدرتی آفات کے کرب اور الم ناکی کا بیان دیکھئے۔

" ساحل پر چڑھائی کے ساتھ ساتھ سمندر کے ہزاروں مردہ ، نیم مردہ جانور ، مرغابیاں ، کچھوے ، گھونگھے، سانپ ، خونخوار شارک اور بام ، سمندر کی گہرائیوں میں دیر سے گلتی سڑتی لاشیں ، ہڈیوں کے ڈھانچے ، پرانے غرقاب جہازوں کے تختے ، پانی ہی کی رفتار کے ساتھ ساحل ، اور عمارتوں ، اور عمارتوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کے درمیان آکر سروں کو قلم کرتے ، ران اور کمر کی ہڈیوں کو توڑتے ، چہروں کو مسخ کرتے ، انسانوں اور جانوروں کے حلق اور پیٹ کے اندر دور تک سرایت کرتے ہوئے ، زمین کی اونچ نیچ میں پھنس کر رہ گئے تھے۔
اس شکست و تاخت نے جگہ جگہ ملبے کے اونچے نیچے ڈھیر بناکر انسانوں کی آمد و رفت اور بھی مشکل کردی تھی۔ تھکے ماندے ، خوف اور بھوک سے ادھ مرے لوگ بہزار خرابی اس اونچی نیچی اوبڑ کھابڑ زمین اور ملبے کے تلے دبی اشیا کو یوں کریدتے اور اپنے زندوں یا مردوں کو یوں تلاش کرتے تھے جس طرح چیونٹیاں دھیرے دھیرے محنت کرکے ایک لمبی مدت میں زمین میں ننھے منے سوراخ بناتی ہیں۔ اور یوں بھی ، اس ملک گیر تباہی کے پس منظر میں انسان کی ہستی چیونٹی سے بڑھ کر حقیر محسوس ہوتی تھی۔"
(ان صحبتوں میں آخر ۔۔۔۔۔۔ صفحہ نمبر 118)

موت ہلاکت اور لاشوں کا حزنیہ گویا خلا میں معلق ہوکر رہ گیا ہے:
" سارے ملک میں بھی اتنے کوے اور چیلیں اور گدھ نہ تھے جو ایک دو ہفتے کی مدت میں مل جل کر زمین کی صفائی کرسکتے۔"
(ان صحبتوں میں آخر ۔۔۔۔صفحہ نمبر 119)

زمانے کی ستم ظریفی بچوں ، بوڑھوں اور وارث و لاوارث کے ساتھ کیا ستم ڈھاتی ہے دیکھئے:
"وہ زمانہ ایسا نہ تھا جب ننھے لاوارث بچوں ، اور خاص کر لاوارث نادار بچیوں کے ساتھ مروت یا رعایت کا سلوک کیا جاتا ۔ خریدے ہوئے انسانی بچے اور خریدے ہوئے جانور میں صرف یہ فرق تھا کہ جانور کو کبھی کبھی پاؤں میں رسی ڈال کر چراگاہ یا اوسر زمین میں کھلا چھوڑ دیتے تھے کہ جس طرح چاہے اپنا پیٹ بھر لے۔ لیکن انسانی بچوں کو گھر کی دیوار کے باہر جھانکنے کی بھی اجازت نہ ہوتی تھی۔"
(ان صحبتوں میں آخر ۔۔۔۔۔صفحہ نمبر 120)

مندرجہ بالا اقتباس میں وہ سفاکی اور سماجی صورت حال بھی ہے جس کو ترقی پسند بیان کرنے پر زور دیتے تھے۔ جو ،انسانی جان کی ارزانی اور اسفالی حالت کو بیان کرتا ہے۔
" قمر الدین خان نے تب سے اپنی شہادت]1748ء مرتب[کے وقت تک منصب وزارت کو بڑی خوبی اور نیک نامی کے ساتھ نباہا۔ ان کے زمانے میں منصور علی خان صفدر جنگ عرف مرزا مقیم ،اور عماد الملک غازی الدین خان سوئم ]جو نظام الملک آصف جاہ کا ، اور اس لیے قمر الدین خان کا بھی نبیرہ تھا ، مرتب [جیسے اولوالعزم ، لائق ، لیکن بے ضمیر اور سنگ دل امرا کو سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکا تھا۔ قمر الدین خان کے بعد صفدر جنگ نے احمد شاہ جیسے با صلاحیت اور ہمہ صفت موصوف بادشاہ کو ، جو محمد شاہ کے بعد تخت نشین ہوا تھا ، بالکل بے اثر کرکے رکھا اور بالآخر اسے اندھا کراکے تخت سے اتار دیا۔]1754ء ، مرتب[ عماد الملک غازی الدین خان نے ایک قدم اور آگے جاکر احمد شاہ کے جانشین عالم گیر ثانی کو مروا ہی دیا۔ ]1759ء ، مرتب[ سلطنت مغلیہ کے زوال اور ذلت و ناکامی کی موت کے اصل ذمہ دار جو سچ پوچھئے تو یہی دونوں صاحبان ہیں۔"
(ان صحبتوں میں آخر ۔۔۔۔ صفحہ نمبر 156)

تاریخ کا شعور ، عمیق مطالعہ اور تجزیہ کہانی کی ضرورت بن گیاہے جس کے اثرات عملی اور سیاسی و سماجی زندگی سے مربوط ہیں۔ فاروقی نے زندگی ، سیاست اور ثقافت کے درمیان رشتے کو پیش کرنے کا بہترین نمونہ ہمارے سامنے کھڑا کیا ہے۔ ایک اور مثال دیکھئے:
" کچھ کا کہنا تھا کہ ادھم بائی نے عمدۃ الملک کو اس لیے مروا دیا کہ نواب موصوف کو ادھم بائی کے بطن سے پیدا محمد شاہ پادشاہ کے بیٹے شاہزادہ مجاہدالدین ابو نصر احمد ( جو احمد شاہ کے نام سے بادشاہ بنا) کی ولی عہدی سے اتفاق نہ تھا۔ کچھ ، بلکہ اکثر لوگ اس خیال کے تھے دربار خسروی میں عمدۃالملک کی مقبولیت بعض امرا کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ اور عمادالملک غازی الدین خان ]جس نے 1759ء میں بادشاہ عالم گیر ثانی کو قتل کرایا ، مرتب[ یا صفدر جنگ ] جس نے 1754ء میں خود احمد شاہ کو تخت سے اتار کر اندھا کرایا، مرتب[کے اغوا سے بعض پیشہ ور ڈاکوؤں کو اس کام پر لگایا تھا۔"
( ان صحبتوں میں آخر ۔۔۔۔صفحہ نمبر 211)

یہ وہ واقعات ہیں جن کا ادبی اظہار سماج کی تفہیم کے دروازے کھولتا ہے۔ دوسری طرف افلاس ، غربت ، بے راہ روی کا نقشہ امیری کے رنگوں کے درمیان دیکھئے کس ہنر مندی سے پیش کیا گیا ہے:
"ہم تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ برات کا شور سنائی پڑا۔ معلوم ہوا نواب مستطاب گورنر جنرل بہادر کے دربار میں وکیل شاہی نواب محمد خلیل الدین خان کے بھتیجے کی برات ہے۔ ہاتھیوں اور اونٹوں کی وہ کثرت تھی کہ الاماں۔ ہم تو ایک گھنے درخت کے نیچے دبک کر محفوظ رہے لیکن آرائش لوٹنے والوں کی وہ گت دیکھی کہ خدا یاد آگیا۔ نو عمر لڑکیاں میلے چیکٹ دوپٹے اوڑھے ، پاجامے لیر لیر، اکثروں کے بدن کرتے یا شلوکے سے بے نیاز ، بالوں کی جگہ بئے کی بھوری جھونجھ سی بنائے ۔ادھر سے لونڈے لفنگے ، بھیک منگے جن کا حال ان لڑکیوں سے بھی بدتر۔ چہروں سے وحشت ٹپکتی ہوئی ، بالوں کا رنگ شدت غبار آلودگی سے سیاہ کے بجائے گندہ ماشی ۔ بعضوں کے بر میں صرف ایک سیاہی مائل گزی کی لنگوٹ ، ایک آدھ اس سے بھی بے نیاز ۔ سب کے بدن سے پسینے اور میل اور چیکٹ تیل کا تعفن پھوٹتا ہوا۔ انھیں ہاتھیوں کے پاؤں تلے آنے کا خوف تھا نہ اونٹوں کے چوڑے کھائی جیسے جبڑے کے درمیان سر دینے کا۔ دوچار تو ہمارے سامنے زخمی ہوئے۔ ایک کاکاسۂ سر گھوڑے کی ٹاپ سے چور چور ہوا۔ اور پھر جب روپیہ اشرفی پھلواری لوٹنے والے کامیاب ہوکر برات کے محاذ سے باہر نکلے تو شرابی لچوں نے اکثر کمزور عورتوں اور ضعیفوں کو چاقو دکھا ، یا محض ڈپٹ کر ان کی ساری لوٹ خود ہتھیا لی۔ کسی نے مقاومت کی تو اسے دوٹھوکریں اوپر سے رسید کیں۔ یقین ہے کہ گھر پہنچتے پہنچتے ، اگر ان کا گھر کوئی تھا ، تین چار بوڑھے عورت مرد تو یقیناً جاں بحق تسلیم ہوچکے ہوں۔"
(آفتاب زمیں: صفحہ نمبر 241)

آسماں کی بے انصافی کے اسباب دیکھئے کس دلیری سے مندرجہ ذیل اقتباسات میں ملتے ہیں۔ خداکی خدائی اور انصاف پر سوالات قائم ہوتے ہیں۔ یہ سوالات تاریخ کے تجزیے اور زندگی کے باطنی کرب سے پیدا ہوئے ہیں:
"بھورا بیگم ، اللہ کے یہاں انصاف ہوتا تو نہ یہاں فرنگی ہوتے اور نہ ٹیپو سلطان کی شہادت ہوتی۔ اور نہ مجھ سا یگانۂ روزگار نان شعیر اور ٹھنڈے آبخورے کی دھن میں دن رات ایک کرتا:
مصحفی میں تو تہی دست رہا کیا حاصل
گو موئے پر مرا دیوان مطلا ہووے
سنتی ہو ، دنیا میں اتنی برائی ، اتنی ناانصافی ، اتنا ظلم ہے۔ ایمان داری اور حق پرستی کبھی کبھی ہی ظہور میں آتی ہیں۔ مجھے تو یقین ہے کہ اللہ میاں نے اپنے سب کام شیطان کے سپرد کردئے ہیں۔" پھر انھوں نے شعر پڑھا ، اور شعر کیا پڑھا میری تو جان ہی لے لی:
فتنے لاکھوں یہ اسی نے تو اٹھائے جس کے
کن کے کہنے میں ہوا عالم امکاں تیار
( آفتاب زمیں: صفحہ نمبر271)

جنگ و جدل ، تکالیف، سازشوں اور سنگینی کا بیان داستانوی اور کلاسیکی اسلوب اختیار کرلیتا ہے تو واقعات کی زہریلی فضا میں ایک خوش رنگ موسیقی اپنا ہالہ بناتی ہے جس سے قاری لطف اندوز بھی ہوتا ہے:
" ذوالفقار الدولہ اور مراٹھوں کے دست تطاول نے مژہ برہم زدن میں اس سارے چمن کو تاراج کردیا ، روہیلوں نے پچاس برس جس کی آرائش اور تقطیع کی تھی۔ وہ مجلس بہشت آئین زمہر یر سے سرد تر اور مرگھٹ سے ویران تر ہوگئی۔ میں وہاں سے اٹھا اور افتاں و خیزاں لکھنؤ پہنچا۔"
( آفتاب زمیں: صفحہ نمبر 279)

آج کے انسانی جنون کی تاریخ خاصی پرانی ہے اور اس کا مطالعہ ماضی کی روشنی میں زیادہ معنی خیز ہوگا:
" حملہ آوروں نے پورے انصرام و انتظام سے منصوبہ بندی کی تھی۔ مضبوط قوی ہیکل ادھیڑ عمر کے جنگجویوں نے پورے گاؤں کو گھیرے میں لے لیا تھا، کسی کو راہ فرار نہ تھی۔ ادھر گاؤں کے اندر گھس آنے والے جم غفیر نے بیک وقت بیسیوں گھروں کو آگ دے دی۔"
(آفتاب زمیں: صفحہ نمبر 313)

انتقامی کاروائی کو پیش کیا ہے جو ابدی کنبہ پروری ، حسب نسب پروری ، انسانی تقسیم اورقبائلی نظام کی اذیت ناک رسوم و روایات کو پیش کرتی ہے۔ آج مذہبی جنون جو منظر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے ، دیکھئے" نسلی و خاندانی جنون" اس سے زیادہ درد ناک منظر عہد مغلیہ سے ذرا پہلے کس طرح پیش کرتا تھا۔
"مشعلوں اور جلتے ہوئے چھپروں کی سرخ لپلپاتی روشنی میں محض سائے اور دھندلی خون آلودہ لاشیں نظر آتی تھیں اور ہوا میں کچے گوشت کے جلنے کی بھیانک چراندھ پھیلی ہوئی تھی۔ شیخ قوام الدین تو پہلے ہی ہلے میں قتل ہوچکے تھے، اب ان کی بیوی کو بھی تہہ تیغ کرکے حملہ آوروں نے بھسیلے میں آگ لگانے کی ٹھانی۔"
(آفتاب زمیں : صفحہ نمبر 313)

فاروقی نے انتہائی عرق ریزی کے ساتھ سماجی جدلیت کو پیش کیا ہے ، ان کی کہانیوں میں سماجی و سیاسی واقعات بھرے پڑے ہیں اس کے باوجود محض خام خیالی کی بناء پر یہ کہنا کہ وہ سماجی شعور نہیں رکھتے ، طفلانہ حرکت ہے۔
" حملہ آوروں کو اہلیان اکبر پور کا قتل عام کرتے ایک پوری ساعت گزرچکی تھی۔ مظلوموں کے شور اور شعلوں کی لالی اور دھویں کے بھورے ملگجے بادلوں نے شیخ پور منجھاولی کے لوگوں میں بھی یہ بات پھیلا دی کہ یہ رات اکبر پور کے باشندوں پر آخری ہے۔ پھر کچھ تولوٹ مار کی غرض سے ، اور اکثر تماشا دیکھنے کے لیے ، یہ لوگ گھروں سے نکلے اور گھوڑیوں ، سانڈنیوں پر سوار دھاوا مارتے ہوئے سواد اکبر پور میں پہنچے ۔ بعض تو اپنی بہوؤں اور بیویوں کو بھی موت کی تفریح سے بہرہ اندوز کرانے لائے تھے۔ انھیں میں شیخ پور کے ایک زمیندار شیخ ممو کی بیوی بھی تھی۔ اس نے بھسیلے میں آگ لگتے دیکھی تو پکارا کر کہا ، " ارے ذرا رکو لوگو ذرا رکو۔ کہیں اس میں کوئی بے زبان ڈھور ڈنگر نہ ہو۔" یہ کہتی ہوئی وہ بھیگا ہوا دوپٹہ منھ میں لپیٹ کر بھس خانے میں گھس پڑی۔"
(آفتاب زمیں: صفحہ نمبر 213)

مندرجہ بالا مثالوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ فاروقی نے حال کی تفہیم کے لیے ماضی کی ادبی ثقافت اور تاریخ کو استعمال کیا ہے۔ کسی ایک پہلو پر توانائی ضائع نہیں کی ہے بلکہ زندگی کو کلیّت و جامعیت کے ساتھ ازسرِ نو تشکیل و تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے۔

لاہور کا ایک واقعہ کے علاوہ چاروں افسانوں میں بیانیہ حیران کن حد تک جاذب اور متاثر کن ہے۔ بلکہ بعض اوقات رشک کے جذبات سے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ فاروقی کے بیانیہ کو جو استحکام ، قوت اور معنی آفرینی ملی ہے اس کی تصویر یوں سامنے آتی ہے۔

فاروقی کے افسانوی تخیّل نے ادبی ثقافت کے ٹھوس اور جامد حقائق کو تاریخی مآخذات کی چھان بین کے ساتھ فارسی و عربی الفاظ کی سحر کاری [جو اس عہد کے تذکروں کی عام زبان کے عناصر تھے] اور اس کے متصوفانہ رجحانات و سیاسی اتار چڑھاؤ کے سہارے بیان کیا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اس ادبی ثقافتی تاریخ کے لسانی اسالیب اور عربی و فارسی آمیز اردو سے تو بے شمار لوگ واقف تھے اور ان پر علحیدہ کام بھی کئے گئے مگر تخلیقی شعور کے تجزیے اور ثقافتی تاریخ کو فکشن کے روپ میں اس جامعیت سے پہلے پیش نہیں کیا گیا تھا۔ اس لیے فاروقی صاحب کی اہمیت اس باب میں مسلّم ہوجاتی ہے ۔اور ان کے تخلیقی شعور کی آبیاری اور سرشاری کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے۔
فاروقی کے کردار بینی مادھو رسوا ، غالب ، لبیبہ خانم، زہرۂ مصری ، بایزید شوقی ، نور السّعادۃ ، رائے کشن ، میر تقی میر، بدھ سنگھ قلندر ، بے نام سوار ، عصمت جہاں ، سوار کا راوی مولوی خیر الدین ، حیات النسا بی بی ،عرف بھورا بیگم ، مصحفی ، درباری مل وفا، گویا کسی مدفون سے جاگ اٹھے ہیں اور ہزاروں برسوں کے زندگی کے عرفان کو بیان کرتے ہیں۔ سارے کردار وں میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ سب زندگی کی گرفت میں لمحۂ انبساط کی جستجو یا عرفانِ کُل سے ماورا اسی میں مدغم ہونے کا المیہ بن جاتے ہیں۔ ادبی ثقافت زندگی کے نفیس پیرائے میں اور تعلیم و ترتیب کے سلیقہ شعار اسلوب میں انھیں پیش کرتی ہے۔ مگر زندگی سے ان کے تقاضے ابدی آفاقی اور عالمی ہیں___سب محبت کے متلاشی شکستہ رشتوں کے اندوہ میں قید ، تکمیل فن یا ذات کے شکا ر___وقت کی لکیریں ان میں سے بعض کو ہجرت کرنے پر مجبور کرتی ہیں بعض کو تنہائی میں اشکبار ہونے پر ، بعض صحرامیں گم ہوجاتے ہیں بعض محلوں کی رنگ مستی میں شخصیت کا اثاثہ فروخت کر بیٹھتے ہیں۔
سارے کردار زندگی کے تسلسل میں وقت ، جغرافیہ ، سیاست ، تقدیر ، علم ، فلسفے اور موت کے اصول بیان کرتے ہیں۔
فاروقی نے ان کرداروں کے حوالے سے ہماری ثقافتی تاریخ کی تصویر بنائی ہے۔ جس میں ہند ایرانی عربی؛ لسان و مزاج کی آمیزش اور رواداری کے نقوش صاف ظاہر ہیں ___یہ ثقافت بغیر کسی سیاسی پروپگنڈے کے پیش کی گئی ہے۔ اور ضروری اس لیے بھی تھی کہ ہمارا دور ہندو فسطائیت کے عروج کا دور ہے۔ جس کی زد میں نہ صرف مستقبل بلکہ قومی ماضی بھی ہے۔ قومی ثقافتی تاریخ بھی ہے۔ اس کا صحیح شعور ، اس پر کامل اعتبار ضروری تھا اور ان کرداروں ، ان کے تاریخی سیاق و سباق اور زندگی کے تصور نے ہمارے اندر یقیناً وہ اعتبار پیدا کیا ہے۔
میں یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ ان میں سے بعض کردار اردو فکشن کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

فاروقی کے ان افسانوں میں تکنیک کی جلوہ گری جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ کرداروں کا راوی سے واحد متکلم میں بدل جانا۔واحد متکلم سے متکلم غیر حاضر میں اشعار کا استعمال ، خواب اور خواب سے حقیقت میں چلے آنا۔ حقیقت کو خواب تصور کرنا ، وغیرہ ۔ فنّی طور پر ان کہانیوں کا حسن بے پناہ ہے اور فکشن کی تھوڑی بہت سدھ بدھ رکھنے والا ان اوصاف کو جان لے گا اور ان پر جان دے گا۔ کئی مقامات پر تاریخ کو تکنیک کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ہاں چند ایک مقام پر تاریخ بوجھ سی لگنے لگتی ہے۔ مگر اک مخدوش اور سرکاری امداد سے جس عمارت کو منہدم کرنے کی کوشش کی گئی ہو اس کی تشکیل نو میں ان بوجھل پتھروں کا سہارا بھی ضرورت بن جاتا ہے۔
ان کہانیوں میں مسلم ثقافت کے تعلیمی لوازم ، متن کی تفہیم کے قدیم پیمانے ، داستانوں کے کرداروں کا احیاء ، معاشرتی حقائق ، کلاسیکی اردو ، اردو شعراء کے درمیان جاری چشمک ، سلطنت مغلیہ کے زوال ، دہلی اور لکھنؤ کی گلی کوچوں کی رونق ، بازار ابدان کے تذکرے ، سماجی تقسیم ، طبقاتی تقسیم ، عشق کے سوز و گداز، قدرتی آفات کے زندگی پر اثرات ، مذہبی روا داری ، ہجرت نصیبی ، امراض سے معرکہ آرائی ، تصوف کے سرچشمے ، لطف بدن اور زیست و موت سے جنگ آزمائی کے بے شمار مناظر انتہائی دلکشی اور اثر آفرینی کے ساتھ قاری کے سامنے آتے ہیں۔

" سب افسانے سچے ہوتے ہیں ! سب افسانے سچے ہوتے ہیں !!" ایک لمحے کی خاموشی کے بعد میں چیخ کر بولا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
( لاہور کا ایک واقعہ: صفحہ نمبر 351)
***
بشکریہ: اردو چینل "شمس الرحمٰن فاروقی نمبر"۔
***
rahmanabbas[@]gmail.com
Rahman Abbas , Mumbai.
--
Rahman Abbas
رحمن عباس

The Fiction of Shamsur Rahman Faruqi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں