ساکشی مہاراج کی پیشکش پر اعظم خان کا پس و پیش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-06-15

ساکشی مہاراج کی پیشکش پر اعظم خان کا پس و پیش

sakshi-maharaj-azam-khan
یوگا پر بحث و مباحثہ بہت دور تک جا چکا ہے۔
حکومت ہند بضد ہے کہ مسلمان بھی یوگا میں شریک ہوں اور اس کے لئے اس بات پر اصرار کررہی ہے کہ یوگا کوئی مذہبی عمل نہیں ہے ۔ معروف صحافی شکیل حسن شمسی نے بھی اپنے ایک مضمون میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ یوگا میں سوائے اوم اور ہندو اشلوکوں کے کوئی برائی نہیں ہے۔اگر ان ہندو اشلوکوں کو ہٹاکر اللہ کا لفظ شامل کرلیا جائے تو یوگا کرنے میں کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے۔ اب مولانا محمود مدنی کا بھی بیان آگیا ہے کہ یوگا میں کچھ الفاظ کو بدل دیا جائے یعنی ہندو اشلوک (اوم وغیرہ ) کو ہٹادیا جائے تو یوگا میں کچھ بھی ہندوانہ نہیں ہے۔ مگر مسلم پرسنل لا بورڈ کا مؤقف یہ ہے کہ یہ ویدک کلچر اور ہندوؤں کی عبادت کا حصہ ہے جس میں کئی مشرکانہ اعمال کئے جاتے ہیں اس لئے یوگا غیر ہندوؤں یعنی وحدت پرستوں کے لئے جائز نہیں ہے۔اس بیچ کسی نے کہا کہ جو لوگ یوگا کو براسمجھتے ہیں وہ پاکستان چلے جائیں۔
اعظم خان اور ساکشی مہاراج میں زبانی جنگ اخبارات کی سرخیوں میں ہے۔ اعظم خان نے ساکشی مہاراج کے کسی بیان پر کہا کہ اگر ساکشی مہاراج نماز پڑھ لیں تو ان کادماغ درست ہوجائے۔ اس پر ساکشی مہاراج نے کہا کہ اگر اعظم خان جے شری رام کہہ دیں تو وہ نماز پڑھنے کو تیارہیں۔
اب اعظم خان پس و پیش میں ہیں کہ اس کا کیا جواب دیاجائے ۔ لہٰذا، ابھی تک ساکشی مہاراج کی اس پیش کش کا ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیاہے۔ وہ یہ تو سوچ رہے ہونگے کہ ساکشی مہاراج کو مصلے پر لایا جاسکتا تو بڑا ثواب ملتا مگر اس کے لئے جے شری رام کہنا ہوگا انہیں یہ منظور نہیں ہوگا۔ یعنی کسی کو توحید تک لانے کے لئے خود شرک کا مرتکب ہونا ہوگا۔ یہ سودا انہیں بہت مہنگا معلوم ہورہاہوگا۔
پتہ نہیں اس وقت اگر علامہ اقبال زندہ ہوتے تو ان کا کیا ردعمل ہوتا۔ بانگِ درا میں انہوں نے رام پر ایک نظم ہی کہہ ڈالی ہے جو رسمی نظم نہیں ہے ۔ اس کے اشعار ملاحظہ ہوں:
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند
اعجاز اس چراغِ ہدایت کا ہے یہی
روشن تر از سحر ہے زمانے میں شامِ ہند
تلوار کا دھنی تھاشجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں جوشِ، محبت میں فرد تھا

واضح رہے کہ یہاں دوسرے مصرعے میں "اہل ہنود کہتے ہیں اس کو امام ہند" نہیں لکھا گیاہے۔
یعنی اقبال یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ رام صرف اہل ہنود (ہندوؤں) کی نظر میں ہند کے امام ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ رام "اہل نظر " کے نزدیک امام ہند ہیں۔
مسلمانوں کے بہت سے علما ء اس بات پر متفق ہیں کہ جب قرآن کہتاہے کہ اللہ نے دنیا کے ہر خطے میں اپنے نبی اور رسول بھیجے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان جیسے بڑے خطے میں بھی یقیناً بنی اور رسول آئے ہونگے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ احتیاط کا تقاضا ہے کہ ہندو جن مذہبی شخصیتوں کو اپنا دیوتا مانتے ہیں انہیں برا نہ کہنا چاہئے کیونکہ ہوسکتاہے کہ وہ خدا کے بنی ہوں اور بعد کی نسلوں نے ان کی تعلیمات کو توڑ مروڑ دیاہو اور ان کی اصل تعلیمات باقی نہ رہی ہوں۔اس لئے انہیں برا کہنے پر قرآن کے حکم کی خلاف ورزی ہوگی۔ لہٰذا، جب اقبال "اہلِ ہنود" کے بجائے "اہلِ نظر " کی ترکیب استعمال کرتے ہیں تو دراصل وہ اسی نقطۂ نظر کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اگلے شعر میں وہ شری رام کو "چراغ ہدایت " بھی کہہ دیتے ہیں جو اوپر کے مصرع میں پیش کئے گئے خیال کی توسیع ہے ۔اقبال کی نظر میں رام امامِ ہند بھی تھے اور ہدایت کا چراغ بھی ۔ہدایت کا چراغ کن شخصیات کو کہا جاتاہے یہ اہلِ نظر خوب سمجھتے ہیں اس لئے وضاحت کی ضرورت نہیں ۔
نیز ا قبال کہتے ہیں کہ رام شجاعت میں اپنی مثال آ پ تھے ، پاکیزہ کردار کے مالک تھے اور ان میں جوش محبت بھراہواتھا۔اقبال اپنی شاعری میں 'حب 'کی جگہ 'عشق 'کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور یہ عشق ، عشق خدا اور عشق رسول کے معنی میں استعمال ہواہے۔ مگر یہاں چونکہ مصرعہ اولی میں قافیہ شجاعت ہے اس لئے مصرعہ ثانی میں شجاعت کا قافیہ عشق کی جگہ ضرورت شعری کے تحت محبت لایاگیا ہے۔علامہ اقبال کی نگاہ میں مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ شجاعت میں فرد ہو، اس کا کردار پاکیزہ ہو اور اس کے سینے میں عشق کی پاکیزہ آگ روشن ہو۔ اوریہی سب خوبیاں وہ رام میں دیکھتے ہیں۔یہ سب کہنے کے بعد کہنے سننے کو باقی کیارہ جاتاہے۔ اس طرح اقبال نے صرف جے شری رام کا نعرہ نہیں لگایا۔ اس کے سوا سب کچھ کہہ دیا۔علامہ اقبال ؒ کے ان اشعار کی روشنی میں اعظم خان فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ساکشی مہاراج کی پیش کش کا کیا جواب دیں۔

***
Sohail Arshad
Mob.: 09002921778
s_arshad7[@]rediffmail.com

If You Have Courage, Say Jai Shri Ram, Sakshi Maharaj Dares Azam Khan
Azam Khan's dilemma on Sakshi Maharaj's offer. Article: Sohail Arshad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں