آصفجاہی دور حکومت کے گورنمنٹ اسکول میں داخلے کا اردو اشتہار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-06-13

آصفجاہی دور حکومت کے گورنمنٹ اسکول میں داخلے کا اردو اشتہار

اردو کی زبوں حالی اور موجودہ صورتحال کیلئے غیروں سے زیادہ ہم خود اردو والے ذمہ دار ہیں ! بچوں کے بہتر مستقبل اور دیگر اقوام مسابقت کی جھوٹی خواہش میں ہم نے اپنے بچوں کو اردو سے دور کردیا جبکہ تمام ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بچے کو مادری زبان میں تعلیم لازمی ہے جس سے اسکے اخلاقی اقدار قائم رہتے ہیں اور ساتھ ہی وہ مادری زبان میں جتنا بہتر طریقہ سے اپنی صلاحیتوں کو مزید ابھار سکتا ہے اتنا کسی اور زبان میں نہیں ابھارسکتا ! لیکن برا ہو زمانے کی دیکھا دیکھی ہم نے اپنی مادری زبان کو اس طرح نظر انداز کردیا کہ یہ کوئی ممنوعہ چیز ہو ! بھاری بھاری ڈونیشن اوربڑی بڑی فیس ادا کرکے ہم اپنے بچوں کو کانوینٹ اسکولوں میں شریک کروانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور اردو اسکولس چونکہ زیادہ تر سرکاری ہوتے ہیں انہیں قوم کے غریب بچوں کیلئے چھوڑدیا کہ جیسے ان پر ہی ذمہ داری ہیکہ وہ اردو کو سنبھال کر رکھیں ! ہمارے اسی رویہ کی وجہ سے اردو زبان اجنبی کی طرح بن کر رہ گئی جبکہ سب یہی کہتے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان نہیں ہے اور انگریزی کے بعد ساری دنیا میں یہی زبان بولی جاتی ہے جبکہ ہم نے اردو کو عملی زندگی سے دور اسکو صرف مشاعروں اور سیمیناروں کی زبان بناکر رکھ دیا ہے ۔ متحدہ آندھرا پردیش کے 13؍اضلاع میں اردو دوسری سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی تھی تب ہم نے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا اور ناں ہی حکومت وقت کو مجبور کرسکے کہ اردو کو روزگار کیساتھ جوڑا جائے ! اب علحدہ ریاست تلنگانہ کے تمام 10؍اضلاع میں بھی اردو کو وہی مؤقف حاصل ہے اور ساتھ ہی اردو کے تئیں وزیراعلیٰ کے سی آر کی نیت پر شک بھی نہیں کیا جاسکتا !بس ضرورت ہیکہ قوم کے ذمہ دار جاگیں اور اردو کے جملہ حقوق کے حصول کیلئے حکومت سے مؤثرنمائندگی کریں صرف مشاعرہ کرکے ، سرکاری دفاتر اور آرٹی سی بسوں پر اردو تحریر کا مطالبہ کرکے یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے اردو کا حق ادا کردیا ! یہاں موجود سرکاری اردو اسکولوں میں طلبہ کی تعدادکو دیکھتے ہوئے حالات کو موافق اردو ہی کہا جاسکتا ہے خاصکریہاں موجود گورنمنٹ اردو میڈیم گرلزہائی اسکول میں طالبات کی تعداد کو دیکھتے ہوئے اس گرلز اسکول کو ضلع رنگاریڈی کا ٹاپ اسکول کہا جاسکتا ہے جہاں 570؍ سے زائد طالبات بہترین نظم و ضبط، مکمل پردہ کیساتھ تعلیم حاصل کیا کرتی ہیں یہی حالت یہاں کے دیگر اردو میڈیم سرکاری اسکولس کی بھی ہے ۔اردو کشی کے اس دؤر میں مسلم طلبہ کو اردوزبان اور سرکاری اسکولوں کی جانب راغب کرنے کیلئے گو ر نمنٹ ہائی اسکول ( جونیئر کالج ) کے گزیٹیڈ ہیڈ ماسٹر ڈی۔ اشوک نے ایک نئی پہل کی ہے جسے قابل تحسین اقدام ہی کہا جاسکتا ہیکہ انہوں پہلی مرتبہ یہاں اردو زبان میں پمفلٹس اور اشتہارات کی تقسیم کے ذریعہ طلبہ اور سرپرستوں سے داخلہ کی اپیل کرتے ہوئے اس اشتہار میں کہا ہیکہ اردو کی نئی نسل کو تیار کرناہم سب کا اولین فرض ہے اور اردو ہماری پہچان ہے ،بچوں کی صلاحیتیں انکی مادری زبان سے ابھرتی ہیں ، تہذیب زبان سے پہچانی جاتی ہے اس اشتہارمیں کہا گیا ہیکہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنا بچہ کا پیدائشی حق ہوتا ہے اور اور اردو سے غفلت ہماری تہذیب کا خاتمہ ہے اس اشتہار میں یہ بھی واضح کیا گیا ہیکہ گورنمنٹ ہائی اسکول ( جونیئر کالج ) تانڈور کا قیام 1939ء میں حکومت آصفجاہی کے دؤر میں عمل میں لایا گیا تھا اور اس اردو میڈیم اسکول سے اب تک ہزاروں کی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں تعلیم حاصل کرکے کئی سرکاری محکمہ جات اور خانگی اداروں میں اونچے عہدوں پر فائز ہیں اور قوم و ملک کی بہترین خدمات انجام دینے میں مصروف ہیں اس اسکول میں جماعت ششم تا دہم تعلیم کا نظم ہے ۔ بہرحال اس اشتہار کو دیکھ کر اردو کے تعلق سے یہ احساس ہوگیا کہ اردو ابھی زندہ ہے اور ضرورت ہیکہ اسکی آبیاری کی جائے ۔ اس اشتہاری مہم کے سلسلہ میں اسی اسکول کے ٹیچر عبدالرحمن کی خدمات کی بھی سراہنا کی جانی چاہئے جو کہ مختلف علاقوں میں گھر گھر جاکر طلبہ کو راغب کررہے ہیں جسکے حوصلہ افزاء نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں ۔ضرورت شدید ہیکہ یہاں کے مسلم ذمہ داران اور تنظیموں کے نمائندے بھی اردو کی بقاء اور اسکی ترقی و ترویج کیلئے اس مہم کا حصہ بن جائیں اور اس اسکول کیساتھ ساتھ دیگر اردو میڈیم اسکولس میں بچوں کے داخلوں کیلئے اپنی جانب سے ایک منظم مہم کا آغاز کریں جس سے مستقبل میں اردو کے عظیم سپاہیوں کی ایک کھیپ تیار ہوسکتی ہے ! اس سرکاری اردو میڈیم اسکول کے غیر مسلم ہیڈ ماسٹر کی اس کوشش کو دیکھنے کے بعد ساحرؔ لدھیانوی کا یہ شعر بے اختیار یا دآجاتا ہے ۔

میں زندہ ہوں یہ مشتہر کیجئے
میرے قاتلوں کو خبر کیجئے

Urdu Ad for Admissions in Tandur school

1 تبصرہ: