عثمانیہ یونیورسٹی اراضی پر غریبوں کے لئے تعمیر امکنہ کا تنازع - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-05-23

عثمانیہ یونیورسٹی اراضی پر غریبوں کے لئے تعمیر امکنہ کا تنازع

حیدرآباد
منصف نیوز بیورو
حالیہ عرصہ میں چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کے اعلان کے بعد کہ عثمانیہ یونیورسٹی کی11ایکر اراضی پر غریبوں کے لئے مکانات تعمیر کئے جائیں گے، یونیورسٹی پھر ایک بار سرخیوں میں آگئی ۔ سیاسی جماعتوں خاص کر کانگریس اور تلگو دیشم پارٹی کا کہنا ہے کہ اگرچہ کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے ارادے نیک ہیں مگر یونیورسٹی کی اراضیات پر مکانات کی تعمیر کا فیصلہ غیر درست ہے ۔ اس مسئلہ پر حکومت اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے درمیان لفظی جنگ جاری ہے۔ حکومت کا استدلال ہے کہ یونیورسٹیز کے لئے وسیع و عریض اراضیات کی ضرورت نہیں جب کہ اپوزیشن جماعتوں کا ماننا ہے کہ مستقبل کی ضروریات اور یونیورسٹیز کی توسیع کے لئے اراضیات کا رہنا ضروری ہے ۔ دوسری طرف ملک میں یونیورسٹیز کے لئے قائم نگراں ادارہ یو جی سی یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے پاس کسی یونویرسٹی کے قیام کے لئے کتنی اراضی درکار ہونی چاہئے کے متعلق واضح قواعد و ضوابط موجود نہیں ہیں ۔ عالمی سطح پر یونیورسٹیز کے لئے وسیع و عریض اراضیات مختص کرنے کا طریقہ کار چلاآرہا ہے ۔ برطانیہ کی سب سے بڑی آکسفورڈ یونیورسٹی1240ایکر اراضی پر محیط ہے ۔ جب کہ امریکہ کی مپیگن یونیورسٹی 22,000ایکر اراضی پر قائم ہے ۔ ہندوستان میں بھی یونورسٹیز کے قیام کے لئے کم از کم500تا800ایکر اراضیات کی موجودگی کو ضروری تصور کیاجاتا رہا ۔ بنار کی ہندو یونیورسٹی 1300ایکر اراضی ، راجیو گاندھی یونیورسٹی ساوت زون کیمپس2700ایکر اراضجی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی1000ایکر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 1155ایکر اور ملک کے تمام حصوں میں موجود سنٹرل یونیورسٹیز2300ایکر رقبہ پر محیط ہیں۔ آصف سابع نواب میر عثمان علی خان نے1918میں شہر کے علاقہ اڈیکمیٹ میں یونیورسٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے1923تا1937کے درمیان عنبر پیٹ ، اوپل، حبشی گوڑ، رانتا پور اور تارناکہ کے پانچ دیہاتوں میں1800ایکر اراضی حاصل کی گئی ۔ رنگا پور نامی دیہات کی150ایکر اراضی حاصل کرتے ہوئے وہاں آبزرویٹری قائم کی گئی ۔ بیگم پیٹ میں15ایکر اراضی حاصل کرتے ہوئے رونالڈ روس ریسرچ سینٹر قائم کیا گیا ۔ اگران تمام اراضیات کے اعداد و شمار جمع کئے جائیں تو عثمانیہ یونیورسٹی کے لئے تقریباً2600ایکر اراضی مختص کی گئی تھی۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ مختلف حکومتوں کی جانب سے عثمانیہ یونیورسٹی کی اراضیات کو مختلف تحقیقاتی مراکز اور دوسری یونیورسٹی کے قیام کے لئے99برس کی لیز پر دی گئیں جن میں دی انگلش اینڈ فارئن لینگویجس یونیورسٹی کے لئے37ایکر ، آندھرا مہیلا سبھا کے لئے10ایکر ، آئی پی کے لئے پانچ ایکر ، آئی آئی سی ٹی، سی سی ایم بی کے لئے70تا80ایکر،نیشنل نیٹریشن سنٹر کو10ایکر ، آر ٹی سی ہاسپٹل تارنا کہ کو10ایکر ، دوردرشن کیندر رانتا پور کو10ایکر ، ہومیو پیتی کالج کو پانچ ایکر رانتا پور پبلک اسکول کو70ایکر اراضی لیز پر دی گئی۔ موجودہ طور پر چند اداروں کی جانب سے لیز پر حاصل اراضیات کو مکمل طور پر اپنی تحویل مٰں لے لیا گیا ہے اور چند کی جانب سے لیز کی مدت میں توسیع کرالی گئی ۔ دوسری طرف مختلف دور حکومتوں میں چند افراد کی جانب سے عثمانیہ یونیورسٹی کی اراضیات پر غیر قانونی قبضہ کرلیا گیا ۔ ریکارڈس کے مطابق یونیورسٹی کی300تا400ایکر اراضیات پر غیر مجاز قبضہ کرلیا گیا۔ اسی طرح جب ٹی انجیا وزیر لیبر تھے تب عثمانیہ یونیورسٹی کے توسیعی کام جاری تھے ۔ اس وقت تعمیراتی کاموں کے مزدوروں کے لئے پکے مکانات تعمیر کرنے1976میں اس وقت کی حکومت جی او نمبر59جاری کرتے ہوئے 24ایکر اراضی(مینکیشور نگر، عثمانیہ یونیورسٹی کی ملکیت) کو حوالہ کیا تھا ۔ جملہ755افراد کو فی کس90گز اراضی کے ڈی پٹہ حوالہ کئے گئے ۔ اس کے باوجود مزید10ایکر اراضی پر ناجائز قبضہ کرلیا گیا تھا۔ ایسے ہی حبشی گوڑہ میں عثمانیہ یونیورسٹی کی اراضیات پر غیر قانونی کالونیاں تعمیر کی گئی۔ حبشی گوڑہ چوراہا پر ایک ذی اثر سیاسی قائئد نے ہمہ منزلہ ہوٹل تعمیر کر ڈالی جو عثمانیہ یونیورسٹی کی اراضی پر ہے۔ اب چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤکا یونیورسٹی کی اراضیات میں سے11ایکر مزید حاصل کرتے ہوئے غریبوں کو مکانات تعمیر کرنے کا فیصلہ یونیورسٹی کے وجود کے لئے سوالیہ نشان بن جائے گا ۔ عموما یونیورسٹی کی اراضیات کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے مگرعثمانیہ یونیورسٹی کی بد قسمتی ہے کہ محافظ ہی رہزن بن گیا ہے ۔ اب سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ شکایت کس سے کی جائے۔ جہاں تک یونیورسٹی کی اراضیات پر دوسرے تعلیمی اداروں اور تحقیقاتی مراکز کے قیام کی بات ہے تو دل کو تسلی دی جاسکتی ہے کہ ان اداروں سے عوام کو فیض پہنچ رہا ہے مگر300ایکر اراضی پر غیر مجاز قبضہ اور حکومتوں کی خاموشی ناقابل فہم ہے۔ حیدرآباد میں ہزاروں ایکر سرکاری اراضیات پر غیر قانونی قبضہ ہے ۔ حکومت ان قبضوں کو برخواست کرتے ہوئے غریبوں کے لئے مکانات تعمیر کرسکتی ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ عثمانیہ یونیورسٹی کی اراضیات پر قابض افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے ان اراضیات کو دوبارہ ھاصل کرے۔ یونیورسٹی کی ترقی پر توجہ دے اور آصف سابع کے خواب کہ عثمانیہ یونیورسٹی دنیا بھر میں بہترین یونیورسٹی کے طور پر ابھرے ، کو پورا کرے ۔

Osmania students protest as Telangana CM eyes varsity land for housing

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں