سعودی اتحاد پر حوثیوں کے خلاف کلسٹر بموں کے استعمال کا الزام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-05-04

سعودی اتحاد پر حوثیوں کے خلاف کلسٹر بموں کے استعمال کا الزام

دبئی
اے ایف پی
سعودی زیر قیادت اتحاد اب یمنی باغیوں کے خلاف مہم میں امریکہ سے حاصل کلسٹر بم استعمال کررہا ہے۔ امریکی تنظیم ہیومن رائٹس واچ( ایچ آر ڈبلیو) نے اس اطلاع کے ساتھ یہ انتباہ بھی دیا کہ عام شہریوں پر اس کے دیر پا اور مستقل خطرناک اثرات مرتب ہوں گے ۔ کلسٹر بموں کے استعمال پر امتناع ہے جن میں کئی چھوٹے چھوٹے بم شامل ہوتے ہیں ، جو بعض اوقات پھٹنے سے رہ جاتے ہیں اور نتیجہ میں بارودی سرنگ کاکام کرتے ہیں جس سے ٹکرا کر افراد یا تو ہلاک ہوجاتے ہیں یا پھر اعضا سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ ہیومن رائٹس واچ نے یہ وضاحت بھی کی کہ دعویٰ ثابت کرنے کے لئے اس کے پاس تصاویر کے علاوہ ویڈیوز اور کئی دیگر ثبوت بھی موجود ہیں ۔ سعودی زیر قیادت اتحاد نے یمن کے شمالی پہاڑی علاقوں میں حوثی باغیوں کے خلاف کلسٹر بم استعمال کئے ہیں ۔ سعدہ صوبہ در حقیقت حوثی باغیوں کا مضبوط گڑھ ہے ۔ حقوق انسانی تنظیم نے یہ وضاحت بھی کی کہ سٹیلائٹ سے حاصل تصویروں کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بم آبادیوں کے600میٹر کے حدود میں کھیتوں میں غرا۔ کلسٹر بموں پر2008کے ایک معاہدہ کے تحت امتناع عائد ہے جس پر116ممالک نے دستخط کئے ہیں تاہم سعودی عرب اور اس کے حلیفوں کے علاوہ امریکہ نے بھی دستخط کرنے سے انکار کیا ہے ۔ ایچ آر ڈبلیو کے آرمس ڈائرکٹر اسٹیو گوز نے کہا کہ سعودی زیر قیادت اتحاد مواضعات کے قریب کلسٹر بم حملے کرہا ہے جس کے سبب مقامی آبادیاں خطرات سے دوچار ہیں ۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ سعودی عرب اور اتحاد میں شامل ممالک کے علاوہ سربراہ ملک امریکہ، عالمی معیارات کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے ۔ کلسٹر بموں کے استعمال پر امتناع کی خصوصی وجہ یہ ہے کہ عام شہریوں کے لئے یہ مستقل خطرہ ہے ۔

دریں اثنا ریاض سے اے ایف پی کی علیحدہ اطلاع کے بموجب گلف کو آپریشن کونسل میں شامل6سنی ممالک کا سالانہ اجلاس کل شروع ہوگا ۔ یمن میں جنگ اور جہادیوں کے خطرات کے بھنور میں پھنسے خطہ سے متعلق حل طلب مسائل کی یکسوئی یقینا دشوار گزار ہوگی جب کہ اس کے نتیجہ میں ایران کے ساتھ کشیدگی بھی پیدا ہوگئی ہے ۔ واشنگٹن میں مرکز برائے فوجی حکمت عملی و بین الاقوامی مطالعات کے عہدیدار اینتھونی کارڈسمین نے کہا کہ مسائل کی فہرست پر نظر ڈالنے سے ہی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے۔ کارڈ سمین نے تیل اور گیس سے مالا مال خطہ کے قائدین کے حوالہ سے کہا کہ انہیں فکر اس بات کی ہے کہ شیعہ اکثریت کا حامل ملک جوہری بم تیار کرسکتا ہے ۔ واشنگٹن اور پیرس نے یہ تیقن دیا ہے کہ بین الاقوامی معاہدہ اس انداز سے مرتب کیا گیا ہے کہ ایران کو ایٹم بم تیارکرنے کا موقع ہی نہیں حاصل ہوگا ۔ اس تیقن کے باوجود ان کی تشویش برقرار ہے۔ تہران اور6دیگر ممالک کے درمیان ایک لائحہ عمل معاہدہ مرتب ہورہا ہے اور جلد ہی اس پر دستخط کی توقع بھی کی جارہی ہے جس کے بعد ایران کی نیو کلیر صلاحیتیں محدود ہوجائیں گی ۔ اس کے عوض ایران پر عائد تحدیدات برخواست کردی جائیں گی۔ صدر فرانس فرینکوئی اولاند بھی جی سی سی اجلاس میں شرکت کریں گے ۔ جی سی سی کا قیام1981میں عمل میں آیا تھا ۔ اس کے بعد سے کونسل کے اجلاس میں شرکت کرنے والے وہ اولین مغربی قائد ہوں گے ۔ اس دورہ سے امریکہ سے قطع نظر دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ سعودی تعلقات میں وسعت اور گہرائی کے مواقع پیدا ہوں گے ۔ اولاند، کل بحرینی، کوویتی، عمانی، قطری، سعودی اور اماراتی قائدین کے ہمراہ ہوں گے ۔ اس اجلاس کے ایک ہفتہ بعد خلیجی قائدین روایتی حلیف ملک امریکہ کا دورہ کریں گے ۔ صدر بارک اوباما نے ایک خصوصی اجلاس کا اہتمام کیا ہے جس کا مقصد امریکہ اور ایران کے درمیان روابط سے متعلق خلیجی قائدین کی تشویش دور کرنا ہے ۔ وہ اس بات کی بھی وضاحت کریں گے کہ اس معاہدہ کا مقصد علاقائی کشیدگی و تنازعات کم کرنا ہے ۔ بیشتر خلیجی ممالک، عراق اور شام میں داعش کے خلاف کارروائیوں کے لئے امریکہ کی زیر قیادت اتحاد کی تائید کرتے ہیں جس نے دونوں ہی ممالک کے وسیع تر علاقوں پر قبضہ کررکھا ہے ۔ گزشتہ ماہ سعودی عرب نے بیشتر داعش سے وابستہ100جہادیوں کو گرفتار کرنے اور حملوں کی ساز ش ناکام بنانے کا دعویٰ کیا تھا ۔ ریاض اس بات سے بھی خوفزدہ ہے کہ حوثی باغی پورے یمن پر قابض ہوکر شیعہ ایران کے حلقہ میں شامل نہ ہوجائیں ۔

Saudi-Led Coalition Accused of Using US-Supplied Cluster Munitions in Yemen

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں