خانہ بدوش وزیر اعظم ہند نے ہنوز کسی مسلم ملک کا دورہ نہیں کیا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-05-26

خانہ بدوش وزیر اعظم ہند نے ہنوز کسی مسلم ملک کا دورہ نہیں کیا

کسی بھی حکومت کے پہلے سال کے دوران اس کی کامیابیوں کی پیمائش کو محض قیاس آرائی کہاجاسکتا ہے ، لیکن نریندر مودی کے بارے میں کچھ باتیں یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہیں ، کیونکہ انہوں نے بحیثیت وزیر اعظم سال بھر کے دوران کبھی مسلم ٹوپی نہیں پہنی ۔ بہر حال مسلم ٹوپی نام کی کسی چیز کا تعین کرپانا بھی دشوار ہے ۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہندو اور مسلمان یکساں طور پر دو پلی ٹوپی یا ململ کی سفید ٹوپی پہنا کرتے تھے ۔ سردیوں میں ململ کی ٹوپی کے بجائے اونی ٹوپی پہنی جاتی تھی۔ وزرائے اعظم کی افطار پارٹیوں میں جو کانگریس کے دور میں ایک روایت تھی ، مختلف قسم کی توپیاں دیکھنے میں آتی تھیں تاہم کانگریس کے زوال کے ساتھ ہی یہ بھی انحطاط پذیر ہوگئی ہیں ۔ ملائم سنگھ یادو نے جو مسلم ووٹ حاصل کرنے مساوی طور پر کوشاں رہا کرتے ہیں ، وہ بھی مختلف قسم کی مضحکہ خیز ٹوپیاں پہنے ہوئے افطار پارٹیوں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔تاہم انہوں نے اپنی سیکولر شناخت کو بھی ثقافتی طور پر برقرار رکھا ہے۔سیاسی قائدین اب تک دیوبند کے علمائ، جامع مسجد کے امام بخاری اور دیگر ملاؤں کو ووٹ حاصل کرنے والوں کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں ۔ ملائم سنگھ یادو کو بتایا گیا کہ مسلمان، مذہبی شناخت کے ساتھ ثقافتی پہلو بھی رکھتے ہیں ۔ وہ اردو شاعری کو بھی بے حد پسند کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اتر پردیش میں ہر پتھر کے نیچے ایک شاعر دبا ہوا ہے ۔ عصر حاضضر میں کچھ مشہور شعرا ہوئے ہیں۔ کسی نے جو ش ملیح آبادی کے نام کا تذکرہ کیا تھا تاہم وہ پاکستان منتقل ہوگئے جہاں فیض احمدفیض نے مقبولیت کے معاملہ میں انہیں پیچھے چھوڑ دیا ۔ اس کے بعد فراق گورکھپوری کا نمبر آتا ہے لیکن ان کا پورا نام رگھوپتی سہائے ہے۔ ملائم نے سوال اٹھایا کہ اس کا رائے دہندوں پر کیا اثر پڑے گا۔ جگر مرادآبادی ، مجروح سلطانپوری ، شکیل بدایونی ، علی سردار جعفری( بلرام پور) اور ان سب سے زیادہ عظیم، مجاز لکھنوی ہیں اور یہ تمام شعرا ملائم سنگھ کی دسترس میں ہیں ۔ لیکن ان سب کے ساتھ ایک مجبوری ہے کہ انہیں پیش کرنے کے لئے کوئی لابی موجود نہیں ہے ۔ اس لحاظ سے کیفی اعظمی زیادہ خوش نصیب ہیں۔ ان کی دختر و ممتاز اداکارہ شبانہ اعظمی اور گیت کاروشاعر داماد جاوید اختر نے بہت ہی احتیاط سے ملائم سنگھ کی فنون لطیفہ کے نظریات پر کام کیا۔ ہندوستان میں کسی بھی زبان کا ایسا کوئی شاعر نہیں ہے جس سے کوئی ٹرین موسوم کی گئی ہو لیکن کیفی ایک ایسے واحد شاعر ہیں جن کے نام سے ایک ٹرین"کیفیت اکسپریس" اعظم گڑھ تک چلائی جاتی ہے جہاں موضع وجوان میں لڑکیوں کا ایک مدرسہ اور حویلی بھی ان کے نام سے قائم کی گئی ہے، صرف یہی نہیں لکھنو میں اردو زبان کی خدمت کے لئے کیفی اعظمی اکیڈیمی قائم کی گئی ہے جہاں ریاستی حکومت سے وافر رقمی امداد دی جاتی ہے ۔ ملائم سنگھ کی جانب سے کیفی اعظمی کی سرپرستی س اردو کے کاز کی خدمت ہورہی ہے اور اس کا خیر مقدم کیاجانا چاہئے لیکن لکھنو میں جو اردو کے عظیم استادوں کا شہر ہے، ہر ایک کے ساتھ یہی معاملہ نہیں ہے ۔ صرف کیفی اعظمی کو جوبلا شبہ ایک بہترین شاعر تھے ، عظمت کی علامت بنالیا گیا ہے ۔ مودی نے اپنے پہلے سال کے دوران رنگون کے خیاطانہ امتزاج کے سوائے فنون لطیفہ کے لئے کسی حساسیت کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ ان سے وابستہ مسلمان نجمہ ہبت اللہ ، مختار عباس نقوی اور ظفر سریش والا ان تمام کو مسلمانوں کے لئے چند اقسام کے جانور جمع کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے ۔ نجمہ ہبت اللہ اور نقوی اقلیتی امور کے سینئر اور جونئیر وزیر ہیں ، جب کہ سریش والا حیدرآباد میں قائم مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی کے نو تقرر کردہ وائس چانسلر ہیں۔ مودی دو اشارے دے رہے ہیں ، پہلا یہ کہ وہ میرے فراخدلانہ اور حقیقی سیکولرازم کے دور میں اقلیتوں کے لئے تین راستے ہیں۔ دوسرا اور زیادہ اہم پیام یہ ہے کہ مسلمانون کے لئے فائدے حاصل کرنے کے مختلف راستے ہیں ۔ کیا اس سے تعصب کی بو نہیں آتی۔ بہر حال کسی بھی سیکولر ملک میں اقلیتوں کے لئے وزارت ایک رجعت پسندانہ نظرییہ ہے ۔ بہر حال اگر ایسی وزارت کا ہونا ضروری ہے تو یہ روشن خیال ہندوؤں کے ہاتھ میں زیادہ مناسب معلوم ہوگی۔ مودی نے اپنی حلف برداری کے بعد پارلیمنٹ میں جو پہلا خطاب کیا تھا ، اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے بارے میں ان کے تصورات یا ان کی سوچ واضح ہوگئی تھی ۔ انہوں نے1200سال کی غلامی کی بات کی تھی۔ بالفاظ دیگر وہ سارے مسلم حکمرانوں کے دور کو غلامی کا دور تصور کرتے ہیں ۔ ان کا یہ تبصرہ براہ راست اور ممکنہ طور پر تکلیف دہ ہے ، تاہم برطانوی حکومت کے خاتمہ کے صرف200سال بعد نہرو کی سوچ اور تعمیر سے ایک بہت بڑا اختلاف ہے ۔ ایک ایسا وزیر اعظم جس نے اپنے پہلے سال میں سب سے زیادہ بیرونی دورے کیے ہیں، مودی نے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے ، تاہم یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہوگی کہ ابھی تک انہوں نے کسی مسلم ملک کا دورہ نہیں کیا ہے ۔ انہوں نے22اپریل کو منعقدہ بانڈنگ کانفرنس کی ساٹھویں برسی میں بھی شرکت کرنے سے انکار کردیا جس میں چین کے صد شی جن پنگ جیسے مدبر نے شرکت کی تھی ۔ انڈونیشیائی صدر یوکو ودودو نے مودی سے فون پر ربط پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن اس میں ناکام رہے تھے ۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک کے دارالحکومت جکارتہ سے بچ رہے تھے یا پھر نہرو کے راستہ کو ترک کررہے تھے ۔ خارجہ پالیسی کے معاملہ میں بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ ہندوستان کے لئے کامیابی کی کہانی کہی جاسکتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا مودی عنقریب ڈھاکہ کا دورہ کرتے ہوئے مسلم ممالک کے سفر سے اجتناب کی اپنی پالیسی کو ختم کردیں گے ۔ آنے والا وقت ہی یہ بتائے گا۔

Saeed Naqvi on Modi not visiting a Muslim country

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں