ملک میں غریبوں کی تعداد میں اضافہ کا امکان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-05-12

ملک میں غریبوں کی تعداد میں اضافہ کا امکان

نئی د ہلی
آئی این ایس انڈیا
ہندوستان میں غریبوں کی تعداد کتنی ہے ؟ کانگریس کی قیادت والی متحد ہ ترقی پسند محاذ( یو پی اے) کے دور اقتدار میں بتایا گیا تھا کہ ملک کی تقریباً1۔2ارب آبادی کا تقریبا30فیصد یعنی36۔30کروڑ لوگ غریب ہیں ۔ اس اعداد و شمار میں اب بڑا اضافہ ہوسکتا ہے ۔ دراصل غربت کی سطح طے کرنے کے لئے فی شخص کے یومیہ خرچ کا جو پیمانہ بنایا گیا تھا، اس کو نیتی آیوگ کم کرسکتا ہے ۔ ایسا کرنے سے آبادی میں غریبوں کا تناسب40فیصد تک جاسکتا ہے ۔ دو سینئر سرکاری حکام نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس سے ملک میں غریبوں کی تعداد تقریبا48۔40کرو ڑ تک پہنچ سکتی ہے ۔ غریبی کے اعداد و شمار کی سیاسی اہمیت رہی ہے ۔ تجزیہ نگاروں نے کہا ہے کہ اگر کوئی حکومت اپنی غریب پرور شبیہ کو چمکانا چاہتی ہو اور وہ سرمایہ کاروں سے ملی بھگت کے الزامات کا سامنا کررہی ہو تو غریبوں کی زیادہ تعداد دکھانے سے اسے فائدہ ہوسکتا ہے ۔ نیتی آیوگ کے نائب چیئرمین اروند پنگڑھیا کی صدارت والی14رکنی ٹیم40فیصد کی سطح پر کام کررہی ہے۔ یہ سب نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن ّاین ایس ایس او) کے 2011کے اعداد و شمارپر مبنی ہے۔ امید ہے کہ یہ ٹیم جون میں وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنی رپورٹ سونپ دے گی ۔ گزشتہ مہینہ اس ٹیم کی ایک میٹنگ ہوئی تھی ، اس میں شامل رہے ایک حکومتی افسر نے بتایا کہ یہ ٹیم کئی اقدامات پر غور کررہی ہے، لیکن آبادی میں غریبوں کی تعداد کو حقیقت کے زیادہ قریب دکھانے کی بات پر تقریبا اتفاق رائے بن گیا ہے ۔ میٹنگ میں موجد رہے ایک دوسرے افسر نے کہا کہ حکومت تو اس جائزے کا استعمال تجزیہ کے کاموں میں کرنا چاہتی ہے کیونکہ این ایس ایس او کے اعداد و شمار ہر پانچ سال پر دوہرائے جاتے ہیں۔ اس سے حکومت کو یہ پتہ لگانے میں بھی مدد ملے گی کہ سماجی شعبے کی اسکیموں کا فائدہ غریبوں کو مل پارہا ہے یا نہیں۔ ساتھ ہی ہر شخص کے یومیہ خرچ کی بنیادپر خط افلاس کے پیمانہ کو طے کرنے سے جو تنازعہ ہوا تھا، ویسی صورت حال سے بھی حکومت بچ جائے گی ۔ خط افلاس کی اہمیت یہ بھی ہے کہ سماجی شعبوں کی کئی اسکیمیں خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کے لئے ہوتی ہیں۔ اگر خط افلاس کو بہت نیچے طے کردیاجائے تو کئی ایسے لوگوں کو ان اسکیموں کا فائدہ نہیں ملے گا۔جو اس کے صحیح حقدار ہوسکتے ہوں گے ۔ اگر اس لکیر کو زیادہ اٹھا دیا جائے تو اس میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے ، جنہیں ان اسکیموں کی ضرورت نہیں ہوگی اور اس سے اخراجات بھی بڑھیں گے۔ سریش تندولکر کمیٹی نے دیہی علاقوں میں27روپے فی کس یومیہ خرچ اور شہری علاقوں میں33روپے فی شخص یومیہ خرچ سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو غریب ماننے کی بات کی تھی ۔ کمیٹی نے2011-12میں یہ بات کہی تھی ۔ اس طرح آبادی کا22فیصد حصہ خط افلاس سے نیچے آیا تھا جس پر تنازعہ بھی ہوگیا تھا ۔ ناقدین نے کہا تھا کہ یہ اعداد و شمار حقیقت سے دور ہیں ۔ اس کے جائزے کے لئے سی رنگا راجن کمیٹی بنائی گئی ۔ رنگا راجن کمیٹی نے دیہی علاقوں کے لئے پیمانہ بڑھا کر32روپے اور شہری علاقوں کے لئے47روپے کردیا تھا ۔ اس طرح خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا مجموعی آبادی میں تناسب30فیصد ہوا تھا۔2014کی اس رپورٹ سے بھی ناقدین خاموش نہیں ہوئے ۔ نریندر مودی حکومت نے بھی اسے قبول نہیں کیا اور ملک میں غربت کا اندازہ کرنے کے لئے اس نے ایک اور کمیٹی بنادی تھی ۔

Number of poor people in India? NITI Aayog will find out

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں