پی ٹی آئی
صدر بارک اوباما نے کہا کہ ایران کے ساتھ کھلی جنگ امریکہ اور خلیجی ممالک کے قومی مفادات میں نہیں ہے ۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ایسے ایران کا خیر مقدم کریں گے جو خطہ مٰں ذمہ دار کردار اداکرے۔ اوباما نے کہا کہ انہوں نے خلیجی تعاون کونسل کے قائدین کے ساتھ ایران کے مسئلے پر کافی تبادلہ خیال کیا جس کے دوران انہوں نے خلیجی ممالک کو بتایا کہ ایران کے ساتھ ایک جامع معاہدہ کے لئے مذاکرات جاری ہیں تاکہ اسے جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے باز رکھاجاسکے۔ اوباما نے کل کہا کہ ایرا ن کے ساتھ کھلی جنگ میں ہم میں سے کسی بھی ملک کا مفاد نہیں ہے ۔ ہم ایک ایسے ایران کا خیر مقدم کریں گے جو خطہ میں ذمہ دارانہ رول نبھائے ۔ ایک ایسا کردار جس میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اپنے اختلافات دور کرنے اور اعتماد سازی کے لئے وہ ٹھوس اور عملی اقدامات اٹھائے اور بین الاقوامی قوانین و ضوابط کی پاسداری کرے ۔ انہوں نے کہا کہ خطہ میں کشیدگی دورکرنے اور اپنے اختلافات کو دور کرنے وسیع تر مذاکرات کی ضرور ت ہے جن میں ایران اور اس کے خلیجی تعاون کونسل کے پڑوسی شامل ہوں اور اسی لئے خلیجی تعاون کونسل کے حلیفوں کو سہارا دینے کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارے حلیف اعتماد اور طاقت کے ساتھ ایران کے ساتھ سیاسی اور سفارتی طور پر نمٹ سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم مانتے ہیں کہ ایک جامع قابل تصدیق حل جو ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق علاقای اور بین الاقوامی تشویش کو دور کرتا ہو، نہ صرف عالمی برادری بلکہ جی سی سی حلیفوں کے بھی مفاد میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے میں ہمیں کامیابی ملے یا نہ ملے ، پھر بھی ہمیں خطہ میں کئی خطرات کا سامنا ہوگا، جن میں خطہ کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والی سر گرمیاں اور دہشت گردگروپوں کا خطرہ شامل ہے ۔ لہذا ان حضرات سے نمٹنے کے لئے ہم مل کر کام کریں گے ۔ اپنے درمیان سیکوریٹی تعاون میں اضافہ کریں گے ۔ سیکوریٹی تعاون کا مقصد ایران کے ساتھ طویل المدتی محاذ آرائی کو دوام بخشایا ایران کو یکا ونہتا کرنا نہیں ہے ۔ اجلاس کے دوران وزیر خارجہ جان کیری سمیت اوباما کے کابینی ارکان نے بتایا کہ امریکہ کیوں پر اعتماد ہے کہ اگر فریم ورک معاہدہ کو مستحکم کیا جاتا ہے وہ اس بات کی تصدیق کرسکیں گے کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں بنائے گا ۔ اوباما نے کہا کہ ایک تشویش یہ بھی ہے کہ اگر جوہری مسئلے سے ہم موثر طریقے سے نمٹ بھی لیں تو خطہ کو ایران کی عدم استحکام سے دوچار والی کچھ سر گر میوں کا مسئلہ باقی رہے گا اور بیشتر ممالک نے یہ تشویش ظاہر کی کہ اگر ایران پر تحدیدات میں کمی کی جاتی ہے تو وہ ان وسائل کو خطہ کو مزید عدم استحکام سے دوچار کرنے والی اپنی سر گرمیوں میں استعمال کرسکتا ہے ۔
دریں اثنا ایک علیحدہ اطلاع کے بموجب صدر اوباما نے تشویش میں مبتلا اپنے خلیجی حلیفوں کو دوبارہ تیقن دیا کہ امریکہ ان کی سلامتی میں مد د کرنے کا پابند ہے نیز ایران کے ساتھ معاہدہ ان کی سلامتی کی قیمت پر نہیں کیاجائے گا۔ اوباما نے کل خلیجی تعاون کونسل کے قائدین کے ساتھ ایک روزہ اجلاسوں کے اختتام پر کہا کہ میں اپنے خلیجی حلیفوں کی سیکوریٹی کے تئیں اپنے آہنی عہد کا اعادہ کرتا ہوں ۔ اجلاس کے بعد جاری کردہ مشترکہ بیان میں امریکہ نے کہا کہ وہ خلیجی تعاون کونسل کے ممالک کی علاقائی سالمیت کو لاحق کسی بھی بیرونی خطرہ( جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہو) کو روکنے اور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے جی سی سی رکن ممالک کے ساتھ مشترکہ کام کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کسی بھی جارحیت یا جارحیت کے خطرہ کی صورت میں امریکہ اپنے جی سی سی حلیفوں کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے تاکہ عاجلانہ طور پر اس بات کا فیصلہ لیا جائے کہ کون سے اقدامات مناسب ہوسکتے ہیں ۔ ان اقدامات میں اپنے جی سی سی حلیفوں کے دفاع کے لئے فوجی طاقت کا امکانی استعمال بھی شامل ہوگا اور ایک بات مجھے واضح کرنے دیجئے کہ امریکہ اپنے عہد کا پابند ہے ۔ اوباما نے کہا کہ اپنے قول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہم اپنے پہلے سے موجودہ سیکوریٹی تعاون میں مزید اضافہ کریں گے ۔ ہم تمام خطرات بالخصوص دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے اپنی فوجی مشقوں اور تعاون میں اضافہ کریں گے ۔ یعنی ہماری خصوصی آپریشنزفورسس کے درمیان تعاون اور تربیت میں اضافہ بیرونی جنگجوؤں کے بہاؤ کو روکنے کے لئے طاقتور سرحدی سلامتی اور زیادہ اطلاعات کا تبادلہ اور دہشت گردی کو مالیہ کی فراہمی کو روکنے سخت قوانین کا نفاذ ہوگا ۔ ہم آن لائن سمیت پر تشدد و شدت پسندی کے انسداد کی کوششیں، زیادہ وسیع پیمانے پر اپنی بحری سلامتی میں تعاون میں توسیع اور اپنے حلیفوں کے پیچیدہ انفراسٹرکچر کو سکٹ بنانے کے لئے کام کریں گے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اپنے خلیجی حلیفوں کو اپنے دم پر اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے میں مدد کرے گا ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اپنے خلیجی حلیفوں کو پیچیدہ دفاعی صلاحیتوں کو منتقل کرنے میں سرعت پیدا کرے گا۔ ہم بیلسٹک میزائلوں کے خلاف جی سی سی کی مستحکم دفاعی صلاحیت جس پر میں ماقبل انتباہی نظام بھی شامل ہے ۔ کے فروغ کے لئے مل کر کام کریں گے ۔ علاوہ ازیں ہم انسداد دہشت گردی اور بحالی امن جیسی کارروائیوں کے لئے صلاحیتوں کو تیز ترین بنانے کے لئے بھی ساتھ کام کریں گے ۔ اوباما نے مزید کہا کہ ہم نے خطہ میں مسلح جنگجوؤں کے مسئلے کو بھی ھل کرنے کی مشترکہ کوشش کرنے کا عہد کیا اور ہماری کوششوں کی رہنمائی کے لئے اہم اصولوں پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا، جن میں ملک کی خود مختاری کا احترام ، اس بات کو تسلیم کرنا کہ ان تنازعات کا سیاسی حل ہی نکالا جاسکتا ہے ۔ مشمولاتی حکومت کی اہمیت کا اعتراف اور اقلیتوں کے احترام اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ضرورت شامل ہے ۔ اوباما اور سعودی عرب ، قطر، متحدہ عرب امارات ، کویت ، عمان، بحرین کے قائدین نے وائٹ ہاؤس میں مذاکرات کئے ۔
Conflict with Iran not in our national interest: Obama
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں