برطانوی انتخابات اور سیاست کا نیا رخ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-05-13

برطانوی انتخابات اور سیاست کا نیا رخ


british-elections-2015
ارے یہ کیا ہوگیا، کیوں ہوگیا اور کس طرح ہوگیا!
ہر کسی کی زبان پر یہ ہی سوال تھا، ہر وہ شخص جس نے لیبر پارٹی کو ووٹ دیا تھا یا لبرل ڈیموکریٹ پارٹیکو ووٹ دیا تھا، مگر کم تجسس کنزرویٹوز پارٹی(ٹوریز) کے کارکنان کو نہیں بھی نہیں ہوا تھا، وہ بھی پہلے پہل حیرت میں ڈوبے ہوئے تھے کہ واقعی ہم نے اتنی بڑی جیت حاصل کرلی!
یہ صرف الیکشن ہی نہیں تھے مگر سیاستدانوں کی تقدیر کے فیصلے ہونے تھے، یہ برطانیہ کے تاریخ کے واحد الیکشن تھے جس میں عام ووٹر سے لےکر سیاسی لیڈران تک، میڈیا کے تجزیہ کاروں سے لےکر پولیٹیکل پنڈتوں تک ، سب کے سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے ، کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے، کون جیتے گا، کس کی حکومت ہوگی؟ ہاں، ایک بات سب کی زبان پر تھی کہ لیبر اور کنزرویٹو کا توڑ کا مقابلہ ہونا ہے اور جو بھی پارٹی جیتے گی وہ اتحادیوں کے بغیر حکومت نہیں بنا سکے گی، مگر الیکشن تنائج نے سب کو حیرت اور شش و پنج میں ڈال دیا۔

لیبر کو تاریخی شکست ہوئی ، لبرل سرے سے ہی ختم ہوگئی اور کنزرویٹو نے تاریخی کامیابی حاصل کرکے ایک رقم تاریخ کی جس کی ان کو بھی امید نہیں تھی۔ اب پارلیمنٹ میں کوئی بھی قانون پاس ہوگا، ان کو کسی بھی قسم کی مشقت کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، اور نہ ان کو کسی اتحادی سے مشورہ کرنے کی ضرورت پڑے گی۔
اگر دیکھا جائے تو جب کبھی بھی کنزرویٹو کی حکومت آئی ہے، برطانیہ معاشی طور پر کمزور رہا ہے، چاہے وہ مارگریٹ تھیچر کی حکومت ہو یا جان میجر کی یا پھر ڈیوڈ کیمرون کی، لاکھوں لوگ بیروزگار ہوئے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے اور جرائم میں بے حد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ہاں، ایک فرق ضرور ہوا ہے کہ کنزرویٹوز (ٹوریز) کی حکومتوں میں امیر طبقہ بے حد امیر ہوتا گیا، بڑی بڑی کمپنیاں دن دوگنی اور رات چگنی ترقی کی منزلیں طے کرتی گئی اور یہ بات بھی یہاں کرنا مقصود ہوگا کہ یہ امیر طبقہ ہی ہے جو ٹوری پارٹی کو بے حد فنڈنگ کرتا ہے۔ اور غریب غربت کی انتہا پستی میں چلا گیا ہے، یوٹیلٹی کمپنیوں نے پچھلے 5 سالوں پر محیط ٹوری حکومت میں تین گنا سے بھی زیادہ منافع کمایا ہے اور لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے تھے۔ ٹوریز پارٹی کا اصل منشور، امیر امیر تر، غریب غریب تر۔
حکومتی 5 سالہ کارکردگی پر اگر نظر دوڑائيں تو بہت سے ایسی مثالیں ملیں گی جو کبھی نہ سننے میں آئيں اور نہ دیکھنے میں۔ ایسی لاتعداد حکومتی اور نجی کمپنیاں ہیں جہاں کٹوتی کی گئي، مگر سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ سرکاری مشنریاں جو کہ سکیورٹی کے لحاظ سے ملک کے ستو ن کہلاتی ہیں ان کو بھی نہیں بخشا گيا جن میں سر فہرست لندن پولیس اور برطانوی آرمی ہے۔
آرمی میں کٹوتی کرکے ٹوریز نے ملک کی سلامتی پر کدغن لگايا اور تو اور سونے پہ سہاگا یہ کیا کہ لندن میٹروپولٹن پولیس جو کہ ملک کی داخلی سکیورٹی میں ریڑھ کی ہڈی مانی جاتی ہے کے 300 تھانے بند کرنے کا اعلان کردیا، سیکڑوں پولیس تھانے لندن میں بند کردیے گئے جس سے لندن شہر جوکہ برطانیہ کا نہ صرف دارالخلافہ ہے بلکہ پورے برطانیہ کی معاشی شہ رگ بھی ہے ،میں جرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ۔

خیر ہم بات کو دوبارہ الیکشن پر ہی مذکوز رکھتے ہیں۔
لیبر پارٹی جس کا اصل ووٹ بینک انگلینڈ کے علاوہ اسکاٹ لینڈ میں ہے، پچھلے 15-20 سالوں میں جب بھی لیبر حکومت میں آئی ہے، سکاٹ لینڈ کے ووٹ بنک کا بہت بڑا حصہ اس میں شامل رہا ہے۔ لیبر پارٹی کی کم از کم 40 تا 45 سیٹیں صرف اسکاٹ لینڈ سے حاصل ہوتی ہے۔ اور اب وہاں سے اسکاٹش نیشنل پارٹی " ایس این پی" نے ساری سیٹیں حاصل کرلی ہیں۔ اگر آپ نیچے ديے گئے الیکشن نقشہ کو دیکھیں اوپر کی طرف تو وہاں آپ کو اسکاٹ لینڈ میں ایس این پی جن کا الیکشن رنگ پیلا ہے نے بھرپور کامیابی حاصل کی ہے اور وہاں کہیں بھی آپ کو لال رنگ جوکہ لیبر کا الیکشن رنگ ہے نظر نہیں آئے گا۔

اس کے علاوہ ویلز سے بھی اس کو پذیرائی ملتی ہے اور لندن شہر تو ویسے بھی لیبر پارٹی کا گڑھ تصور کیا جاتے ہے اور ہر وہ شہر جہاں ایشیائی کمیونٹی زیادہ ہے وہاں ہمیشہ سے لیبر جیتی ہے اور اس دفعہ بھی لیبر پارٹی ان شہر پر اپنی گرفت برقرار رکھی ہے۔
ان میں سر فہرست شہر برمنگھم، مانچسٹر، شیفیلڈ، بیڈفورڈ، لوٹن، بریڈفورڈ، کیمبرج، بلیک پول، لیڈز اور بہت سے شہر جہاں لیبر پارٹی نے پھر سے کامیابی حاصل کی ہے۔
اب آتے ہیں لند ن شہر کی طرف،جہاں لیبر نے اس دفعہ 45 سیٹیں حاصل کی ہیں اور کنزویٹو (ٹوری) نے 27 سیٹیں جیتی ہے، پچھلے 2010 کے الیکشن میں لیبر نے لندن سے 38 سیٹیں اور ٹوریز نے 28 سیٹیں جیتی تھیں، اس طرح لیبر نے لندن میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ ذیل دیے گئے نقشے سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔

تیسری پارٹی جو لبرل ڈیموکریٹ کے نام سے پچھلے الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی اس سال اس پارٹی کا مکمل طور پر صفایا ہوگیا اور پچھلےالیکشن میں پورے یوکے سے 57 سیٹیں لینے والی لبرل ڈیموکریٹ پارٹی اس الیکشن میں صرف 8 سیٹیں ہی حاصل کرپائیں۔
نئی ابھرنے والی سکاٹ لینڈ کی قوم پرست " سکاٹش نیشنل پارٹی" 56 سیٹیں جیت کر ملک کی تیسری بڑی جماعت بن گئی ہے جو پچھلےالیکشن میں صرف 6 سیٹیں ہی جیت پائي تھی۔ اور لیبر نے پچھلے الیکشن اسکاٹ لینڈ سے 41 سیٹیں حاصل کی تھیں اور لبرل اسکاٹ لینڈ سے 11 سیٹیں کےساتھ اسکاٹ لینڈ کی دوسری بڑی پارٹی ابھری تھی اور ٹوریز کو اسکاٹ لینڈ سے پچھلے الیکشن میں 1 سیٹ ملی تھی اور اس دفعہ بھی صرف ایک سیٹ کی حاصل کرپائي۔ نیچے دیے گئے 2010 اور 2015 کے الیکشن نقشے سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح اسکاٹ لینڈ میں ان بڑی پارٹیوں کا کلین سوئیپ ہوگیا ۔

ان پارٹیوں کا اس طرح صفایا ہونا کوئی عجیب با ت نہیں ہے کیونکہ لیبر اور لبرل نے پچھلے الیکشن میں جو بویا اس الیکشن میں انہوں نے کاٹ لیا۔
دراصل پچھلے الیکشن میں لوگوں نے ایک تیسری پارٹی کو آزمانے کا فیصہ کرلیا تھا اور ووٹ کا استعمال کرکے اس پارٹی کو برطانیہ کی تیسری بڑی پارٹی کے منصب پر فائز کردیا ، اس پارٹی کا نام لبرل ڈیموکریٹ ہے جس کا سربراہ نک کلیگ تھا۔ مگر نک کلیگ نے پچھلی حکومت میں اتنے مارجن سے جیتنے کے بعد ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ ہاتھ ملا کر وزارتیں حاصل کرلی اور خود نک کلیگ نے برطانیہ کے نائب وزیر اعظم کا عہدہ لے لیا اور برطانیہ کے ووٹروں کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ کیا جس کا بدلہ برطانوی عوام نے اس الیکشن اس پارٹی کو ہیرو سے زیرو تک پہنچانے سے لے لیا ور اس پارٹی کا سربراہ بالآخر اس پارٹی سے استعفی دے کر اپنے گھر کو چلتا بنا۔
رہی بات لیبر پارٹی کی تو جس طرح اسکاٹ لینڈ سے بری طرح نکال دی گئی ہے اس کی مثال 100 سالوں میں کہیں بھی نہیں لی۔ لیبر نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنے عرصے سے اسکاٹش عوام کے دلوں پر راج کرنے والی پارٹی کو ادھر کی عوام اس طرح اچانک اسکاٹ لینڈ سے دھکیل کر نکال باہر کرے گی۔
مگر کہتے ہیں کہ " جیسی کرنی ویسی بھرنی" اور لیبر پارٹی کے ساتھ بھی کچھ اس طرح ہی ہوا۔ پچھلے سال 2014 میں اسکاٹش عوام نے انگلینڈ سے تنگ آکر برطانیہ سے علیحدگی حاصل کرنے کے لیے ریفرنڈم کروایا تھا اور برطانیہ کے قانون کے مطابق سیکڑوں سالوں کے بعد ہی کسی اور ریفرنڈم کی باری آتی ہے۔ مگر لیبر پارٹی نے انگلینڈ کا ساتھ دے کر اسکاٹش عوام کو تاریخی دھوکہ دیا اور تو اور لیبر لیڈر ایڈ ملی بینڈ نے کنزرویٹو کے لیڈر اور وزیر اعظم ڈیوڈ کیمروں کے ساتھ مل کر اسکاٹ لینڈ میں ایک ریلی سے بھی خطاب کرڈالا جسے اسکاٹش عوام نے اپنی بدترین توہین قرار دیا ۔ کہیں کچھ افواہیں بھی سننے میں آرہی تھی کہ حکومت مشینری نے اسکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم کو ہرانے کے لیے دھاندلی کا بھی سہارا ليا تھا مگر بہت کم حد تک، کہ اس کا کسی کو شک تک نہ گذرے۔ نیچے دیے گے رزلٹ سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔

اب سوچنے بات یہ ہے کہ اگر اسکاٹش عوام برطانیہ سے علحیدگی نہیں چاہتی تھی تو اس بار الیکشن نے برطانوی حمایت یافتہ پارٹیوں کو کیوں ہمیشہ کے لیے دھکیل کر اسکاٹش کی قوم پرست پارٹی کو برسر اقتدار لے کر آئے جو برطانیہ سے ہر حال میں علحیدگی چاہتی ہے!
اس کا مطلب ہے کہ پچھلے سال کے ریفرنڈم میں کچھ تو گڑبڑ کروائی گئی تھی کہ رزلٹ ویسٹ منسٹر کے حق میں آئے تھے۔ خیر یہ ایک الگ سی بحث ہے کہ اگر اسکاٹ لینڈ الگ ہوجاتا تو اس کے منفی اثرات کس طرح دنیا میں پڑتے اور دنیا کے ہر اس ملک میں جہاں علحیدگی کی تحریکیں عروج میں ہیں وہاں ریفرنڈم کرواکر ان علائقوں کو علحیدہ کرنا پڑتا ۔
آخر کار اس الیکشن میں اسکاٹش عوام نے لیبر کے دھوکہ کو کسی طرح بھی برداشت نہیں کیا اور لیبر سمیت برطانوی حمایت یافتہ پارٹیوں کو اسکاٹ لینڈ میں بین کردیا جسے یوں کہیں تو عجب نہیں ہوگا کہ ان کی ضمانت تک ضبط کردی۔
یہاں آخر میں ایک اور بات کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھوں گا کہ اس الیکشن میں کچھ ایسے بھی چہر ےہیں جنہوں نے میڈیا سے خوب پذیرائی حاصل کرکے رقم تاریخ کی۔
٭ اسکاٹ لینڈ سے جیت حاصل کرنے والی "مہیری بلیک" جن کا تعلق اسکاٹش نیشنل پارٹی سے ہے اور وہ برطانیہ کی سب سے کم عمر ممبر آف پارلیمنٹ ہوئی ہے جن کی عم اس وقت صرف 20 سال ہے۔ اور پچھلے سال اس نے سیاست میں قدم رکھا تھا جب ان کی عمر 19 سال تھی۔ اس سے پہلے 1667 عیسوی میں 13 سالہ کرسٹوفر مونک سب سے کم عمر ممبر پارلیمنٹ مقررہوئے تھے۔
٭ پنجاب کے سابق گورنر چودھری سرور جو گلاسگو سینٹرل سے پچھلے تقریبا18 سالوں سے زیادہ جیتتے آررہے ہیں اور حلقہ ایک طرح سے ان کا خریدا ہوا حلقہ تھا اور پچھلے الیکشن میں ان کے بیٹے انس سرور نے یہاں سے کامیابی حاصل کی تھی مگر اب کی بار اسکاٹش نیشنل پارٹی نے ان کی 2 دہائیوں پر مشتمل سیاست کو دھکیل باہر کردیا اور اس حلقہ سے " ایلیسن" نے کامیابی حاصل کرکے تاریخ رقم کی۔
٭ لندن کے ہیمسٹیڈ اور کلبرن کے حلقہ سے بنگلادیشی وزیر اعظم حسینہ معین کے بھانجی اور لیبر پارٹی کی تلیپ رضوانہ صدیق نے کامیابی حاصل کرکے رقم تاریخ کی۔
٭ ویلز کے ایک حلقہ سے لیبر پارٹی کے امیدوار مسٹر سٹیفن کنوک الیکشن جیت کر پرلیمنٹ کے ممبر بن چکے ہیں اور یہ ڈنمارک کی وزیر اعظم کے شوہر ہیں ۔
٭ انگلینڈ کے بریڈفورڈ شہر سے ریسپیکٹ پارٹی کے جارج گیلوے کو ایک پاکستانی نزاد لیبر پارٹی کی ناز شاہ نے ہرا کر تاریخ رقم کی۔
٭ پاکستانی ٹی وی اداکارہ تسمینا احمد شیخ اسکاٹش نیشنل پارٹی کی طرف سے پہلی بار برطانوی پارلیمنٹ کی ممبر بن کر ایک الگ تاریخ رقم کی۔
٭ پاکستان کے پنجاب صوبے کے شہر گجرات میں پیدا ہونے والی لیبر پارٹی کی یاسمین قریشی نے پچھلی الیکشن کی طرح اس الیکشن میں بھی بولٹن سے کامیابی حاصل کرکے برطانوی پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوگئی ہیں۔
اس طرح دوسرے کامیاب یاقتہ پاکستانی امیدواروں کو ملا کر 10 پاکستانی برطانوی پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوگئے ہیں اور ان 10 کو ملا کر تقریبا 21 ایشیائی نزاد امیدوار الیکشن میں کامیاب ہوکر برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔
لیبر پارٹی اور لبرل پارٹی کے دونوں سربراہوں ایڈ ملی بینڈ جو سابق برطانوی وزیر خارجہ کا ڈیوڈ ملی بینڈ (جو سیاست چھوڑ کر امریکہ منتقل ہوچکے ہيں) کا بھائی ہے اور نک کلیگ، نے اپنے ورکروں اور پارٹی لیڈروں سے معافی مانگ کر پارٹی سے استعفی دے دیا ہے، اب برطانوی عوام ان کے چہرے کبھی بھی دیکھ نہیں پائے گی، یعنی ان کی سیاست کا کیریئر ہمیشہ کے لیے ختم۔
امید کرتے ہیں اس بار ٹوری حکومت برطانوی عوام سے خصوصی طور پر اسکاٹش عوام سے کیے گئے وعدہ پورے کرے گی وگرنہ برطانوی عوام اس پارٹی کو بھی ماضی کا حصہ بنانے میں دیر نہیں کریں گے۔

***
The author is a Pakistan origin UK national and counter-terrorism expert.
dahri.noor[@]hotmail.com
نور ڈاہری

British Elections and its new political direction. Article: Noor Dahri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں