چتور انکاؤنٹر - قومی انسانی حقوق کمیشن تحقیقاتی ٹیم روانہ کرے گا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-04-24

چتور انکاؤنٹر - قومی انسانی حقوق کمیشن تحقیقاتی ٹیم روانہ کرے گا

حیدرآباد
آئی اے این ایس/ پی ٹی آئی
قومی انسانی حقوق کمیشن نے آندھرا پردیش پولیس کے ہاتھوں ٹاملناڈو کے 20لکڑ ہاروں کی ہلاکت کی بر سر موقع تحقیقات کے لئے اپنی ایک ٹیم روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سیول سوسائٹی اور ریاستی حکومت کے موقف کی سماعت کے بعد کمیشن نے یہ فیصلہ کیا ۔ صدر نشین قومی انسانی حقوق کمیشن نے یہ فیصلہ کیا۔ صدر نشین قومی انسانی کمیشن کے جی بالا کرشنن کی قیادت میں کمیشن کے ارکان ، کل حیدرآباد پہنچے اور آج اپنے کیمپ کے دوسرے دن انہوں نے چتوانکائونٹر واقعہ کی سماعت کرتے ہوئے اس واقعہ کی بر سرموقع تحقیقات کے لئے اپنی ٹیم روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ کمیشن نے انکائونٹر میں ملوث تمام پولیس ملازمین کے موبائل فون نمبرات اور کارروائی میں زخمی ہونے والے پولیس ملازمین کی میڈیکل لیگل رپورٹ بھی پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ آندھرا پردیش اور تلنگانہ پولیس نے قومی انسانی حقوق کمیشن کو سیشا چلم کے جنگلات میں20لکڑ ہاروں اور آلیر میں5زیر دریافت قیدیوں کی انکائونٹر ہلاکتوں پر اپنی رپورٹس پیش کردی ہیں ۔ دونوں ریاستوں کے پولس عہدیدار ۔ قومی انسانی حقوق کمیشن کے سامنے پیش ہوئے جب کہ کمیشن نے7اپریل کو پیش آئے دونوں انکائونٹر واقعات کے مقدمہ کی تفصیلی سماعت کی ۔ پولیس عہدیداروں نے دونوں انکائونٹرس میں اسمگلروں اور مبینہ دہشت گردوں کے ساتھ بندوقوں کی لڑائی ، کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے پولیس کی کارروائی کے بارے میں بھی کمیشن کو واقف کروایا ۔ واضح ہو کہ کمیشن، انکائونٹر مہلوکین کے ارکان خاندان کے الزامات پر ان واقعات کی سماعت کررہا ہے جس میں انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے فرضی انکائونٹر انجام دیتے ہوئے تمام افراد کا سر د خوں قتل کردیا ۔ انسانی حقوق گروپس ان معاملات میں پیش پیش ہیںٰ جن کا الزام ہے کہ پولیس نے ماورائے عدالت کارروائی انجام دی ہہے جب کہ اسے ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں تھا ۔ منصوبہ بند سازشوں کے ذریعہ انکائونٹر انجام دیے گئے جن میں ایک ہی دن25افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ اے پی پولیس نے اپنی رپورٹ میں ان حالات کو واضح کیا جن پر پولیس کو مجبور ہوکر ضلع چتور کے سیشا چلم جنگلات میں20لکڑہاروں کا خاتمہ کرنا پڑا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ٹاملناڈو سے تعلق رکھنے والے لکڑ ہارے ، سرخ صندل کی لکڑی کے اسمگلروں کے لئے کام کرتے تھے اور صندل کے درختوں کی کٹائی کے موقع پر جب پولیس نے چھاپہ مارا تو انہوں نے خود سپرد ہونے کے بجائے پولیس پر حملہ کردیا جس کے جواب میں حفاظت خود اختیاری کے تحت پولیس کو فائرنگ کرنی پڑی ۔ قومی انسانی حقوق کمیشن کے ارکان نے یہ جاننا چاہا کہ انکائونٹر واقعہ کی عدالتی تحقیقات کا حکم کیوں کرجاری نہیں کیا گیا جس پر انہیں بتایا گیا کہ حیدرآباد ہائی کورٹ اس معاملہ کی سماعت کررہی ہے۔ تلنگانہ پولیس نے ضلع نلگنڈہ کے آلیر کے قریب انکائونٹر کی رپورٹ پیش کی۔ پولیس نے بتایا کہ5زیر دریافت قیدیوں کو عدالت نے پیش کرنے کے لئے ورنگل سنٹر جیل سے حیدرآباد لایاجارہا تھا ۔ راستہ میں انہوں نے پولیس پر حملہ کرکے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی جس پر پولیس کو مجبوراً فائرنگ کرنی پڑی اور فائرنگ کے تبادلہ میں پانچوں کی ہلاکت واقع ہوگئی۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ تلنگانہ حکومت اس واقعہ کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے ذریعہ تحقیقات کا حکم جاری کرچکی ہے ۔ انسانی حقوق گروپس تاہم دونوں انکائونٹرس کی سی بی آئی یا پھر ہائیکورٹ کے ایک برسر خدمت جج کے ذریعہ تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ قومی انسانی حقوق کمیشن نے تاہم چتور انکائونٹر کی عدالتی تحقیقات کا حکم جاری کرنے کی حمایت کی ہے ۔

کمیشن کا کہنا ہے کہ حکومت اے پی اس واقعہ کی عدالتی تحقیقات کرائے ۔ اس سلسلہ میں ابتدائی اقدام کے طور پر کمیشن نے اپنی ایک ٹیم انکائونٹر کے مقام پر روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ بر سر موقع تحقیقات انجام دی جاسکیں۔ کمیشن نے یہ بھی کہا کہ قانون کے تحت یہ لازمی ہے کہ ایسے واقعات کی عدالتی تحقیقات انجام دی جائیں ۔ صدر نشین قومی انسانی حقوق کمیشن کے جی بالا کرشنن نے عوامی سماعت کے دوران کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تمام تحقیقات ، عدلیہ انجام دے ۔ آندھرا پردیش حکومت نے تاہم بتایا کہ ایک ریوینیو عہدیدار کے ذریعہ واقعہ کی عدالتی تحقیقات کا حکم جاری کیا گیا ہے ۔ بالا کرشنن نے یہ بھی حکم دیا کہ واقعہ کی تمام تفصیلات جیسے وہیکل لاگ بکس وغیرہ محفوظ رکھی جائیں ۔ انہوں نے حکومت اے پی کو یہ بھی ہدایت دی کہ واقعہ سے متعلق تمام وائر لیس مواصلات کی تفصیلات بھی کمیشن کو پیش کی جائیں ۔ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم پیپلز واچ نے کہا کہ سیشا چلم جنگلات کے جو گواہ ہیں وہ اے پی میں خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے ۔ گروپ نے گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں