رائٹر
سعودی عرب نے پاکستان سے جنگی طیاروں ، بحری جنگی جہازوں اور سپاہیوں کی فراہمی کی خواہش کی ہے۔ وزیر دفاع پاکستان خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں اس موضوع پر بحث کے آغاز پر یہ بات بتائی کہ آیا پاکستان کو یمن میں سعودی زیر قیادت مہم میں شریک ہونا یا ملوث ہونا چاہئے ۔ سعودی عرب، خلیج کی اہم سنی طاقت ہے اور اس نے سنی اکثریتی پاکستان سے خواہش کی ہے کہ وہ سعودی زیر قیادت فوجی اتحاد میں شامل ہوجائے ۔ اس اتحاد نے گزشتہ ماہ یمن میں شیعہ حوثی فورسس کے خلاف فضائی حملے شروع کئے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے بارہا کہا ہے کہ سعودی عرب کی "علاقائی سالمیت" کو لاحق کسی بھی خطرے کو رد کرنے سعودی عرب کی مدافعت کی جائے گی۔ یہ وضاحت کئے بغیر کہ ایسے کسی خطرہ کی صورت میں کیا کارروائی ہوگی ، سعودی عرب نے جنگی طیاروں ، جنگی جہازوں اور سپاہیوں کی فراہمی کی خواہش کی ہے ۔ واشنگٹن میں مقیم اسکالر (ادارہ مشرقی وسطیٰ) عارف رفیق نے یہ صراحت کئے بغیر کہ سعودی عرب ان جہازوں، طیاروں اور سپاہیوں کو کہاں متعین کرنا چاہتا ہے ، کہا کہ قبل ازیں پاکستان کو توقع تھی کہ وہ سعودی عرب کی توقعات کو "اقل ترین "سطح پر پورا کرپائے گا اور یمن کے اندر کوئی با مقصد کارروائی میں پاکستانی فورسس کے حصہ لینے کا امکان نہیں ہے ۔ رفیق نے رائٹر کو بتایا کہ "ممکن ہے کہ پاکستانی فورسس کے ذریعہ سرحد کو مستحکم کیاجائے سال گزشتہ سعودی عرب نے پاکستان کو1۔5بلین ڈالر رقم دی تھی ۔ پاکستان میں معاشی انحطاط کو دور کرنے ایسی بیرونی رقم کی باقاعدہ ضرورت ہے 1999میں فوجی بغاوت کے ذریعہ شریف کی بے دخلی کے بعد سعودی عرب نے شریف کو پناہ دی تھی لیکن سعودی زیر قیادت اتحاد میں پاکستان کی شمولیت سے اندرون پاکستان گروہ واری یا مسلکی تشدد بھڑک اٹھنے کا اندیشہ ہے ۔ پاکستان کی آبادی کا1/5حصہ، شیعہ فرقہ پر مشتمل ہے ۔ پاکستان میں شیعہ افراد کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔۔ اس طرح نیو کلیر اسلحہ سے لیس180ملین آبادی والے اس ملک میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے ۔ یمن میں پاکستان کی مداخلت کے نتیجہ میں پاکستان کو ایران میں شیعہ بر سر اقتدار گروپ کی برہمی مول لینی پڑے گی۔
ایران کے ساتھ پاکستان کی ایک طویل سرحد ہے جہاں سے چوری چھپی مداخلت کاری ممکن ہے ۔ پاکستان کی دیگر سرحدات ہندوستان اور افغانستان سے ملتی ہیں۔ افغانستان میں پاکستانی سپاہی ،انسداد عسکریت پسندی کا رروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ وزیر خارجہ ایران اس ہفتہ پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں ۔ پاکستان اقوام متحدہ امن فوج کے لئے بھی اپنے سپاہی فراہم کرنے کا طویل ریکارڈ رکھتا ہے لیکن رائے عامہ، یمن میں سعودی زیر قیادت کسی کارروائی میں حصہ لینے کی مخالف ہے ۔ ایکسپریس ٹریبون میں گزشتہ جمعہ کو لکھے گئے اداریہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کا غلام نہیں ہے ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کوئی قطعی فیصلہ پا کستان کی فوج کرسکتی ہے کیونکہ پاکستان کے وجود کی تاریخ کی نصف سے زیادہ مدت، پاکستان میں فوج کی حکومت رہی ہے ۔لیکن اب فوجی جنرلس خاموش ہیں ۔ پاکستان میں سر گرم اور محفوظ سپاہیوں کی تعداد15لاکھ ہے لیکن ان میں سے ایک تہائی تعداد سرحد افغانستان پر کارروائیوں میں مصروف ہے ۔ دیگر سپاہی ، حکومت کے انسداد دہشت گردی منصوبوں پر عمل میں مصروف ہیں ۔ ریٹائرڈ میجر جنرل محمود علی درانی نے کہا ہے کہ یمن میں پاکستان کی مداخلت بعید از دانشمندی ہوگی۔ اگر کسی جارحیت کے خلاف سعودی عرب کی مداخلت مقصود ہو تو وہاں سپاہی بھیجے جانے چاہئیں۔ کسی تیسرے ملک کو سپاہی بھیجنا حماقت ہوگی ۔ بہر حال دونوں میں سے کوئی بھی راستہ پاکستان کے لئے نہایت خوفناک ہے ۔
Saudi Arabia asks Pakistan for troops to help fight Houthi rebels in Yemen
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں