Supreme Court issues notices to LK Advani, MM Joshi & 19 Others in Babri Masjid case
بابری مسجد کے انہدام(شہادت) کے23سال بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیس بی جے پی کا تعاقب کررہا ہے۔ ملکیت(تولیت) کیس کے ایک فریق حاجی محبوب احمد نے جو مسلم فرقہ کی نمائندگی کرتے ہیں ایک تازہ درخواست سپریم کورٹ میں داخل کی ہے ، جس پر چیف جسٹس ایچ ایل دتو کی زیر صدارت ڈیویژن بنچ نے سی بی آئی سے و نیز سینئر بی جے پی قائدین ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی اوما بھارتی، کلیان سنگھ( سابق چیف منسٹر اتر پردیش و موجودہ گورنر ہماچل پردیش) اور دیگر14افراد سے جوابات طلب کئے ہیں ۔ حاجی مھبوب نے الہ آباد ہائی کورٹ لکھنو بنچ کے ایک حکم( صادر کردہ 2010) کے خلاف اپنی درخواست داخل کی ہے ۔ اس حکم کے ذریعہ لکھنو بنچ نے بابری مسجد انہدام (شہادت) کیس میں ان افراد کے خلاف سازش مجرمانہ کے الزامات حذف کردئیے تھے ۔ اس کیس کے ملزمین19قائدین کے علاوہ صدر شیو سینا بال ٹھاکرے اور وی ایچ پی لیڈ ر اچاریہ گری راج کشور بھی شامل تھے ، جواب اس دنیا میں نہیں ہیں ۔ اسی دوران س پریم کورٹ بنچ نے تازہ حلف نامہ داخل کرنے کیلئے سی بی آئی کو چار ہفتوں کا وقت دیا ہے تاکہ وہ (سی بی آئی) سپریم کورٹ میں اپیل داخل کرنے تاخیر کی وضاحت کرے ۔ یہاں یہ بات بتادی جائے کہ قائدین کے خلاف سازش مجرمانہ کا الزام حذف کرنے کے خلاف سی بی آئی بھی سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی تھی ۔ بنچ نے کہا ہے کہ آئندہ تاریخ سماعت پر اس کیس کے میرٹس پر اور اپیل کے ادخال میں تاخیر پر بحثوں کی سماعت کی جائے گی ۔ حاجی محبوب نے اپنی درخواست میں مانگ کی ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ لکھنو بنچ کے حکم (مورخہ20مئی2010) کو کالعدم قرا ر دیاجائے ۔ قانون تعزیرات ہند کی دفعہ120(B)(سازش مجرمانہ) کے تحت عائد کردہ الزام کو مذکورہ حکم کے ذریعہ حذف کردیا گیا تھا۔ درخواست گزار نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تحت کی عدالت نے ہر ملزم کے سلسلہ میں ایک رول کو بتانے کی کوشش کرتے ہوئے اور یہ دیکھنے کے لئے کہ کون سے جرائم ثابت ہوتے ہیں ، مصنوعی فرق و امتیاز کیا ہے ۔ تحت کی عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں غلطی کی ہے کہ21افراد(قائدین) کرائم نمبر197/1992میں مقدمہ چلائے جانے کے مستحق نہیں تھے ۔ یہ فرق امتیاز اس بنیاد پر کیا گیا ہے کہ جن افراد کے خلاف صرف اشتعال اور دیگر مماثل نوعیت کے الزامات تھے انہیں کرائم کیس نمبر198/1992کے تحت مقدمہ چلایاجائے ۔ حقیقی انہدام میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف مقدمہ کو غلطی سے علیحدہ کیا گیا ہے ۔ تحت کی عدالت اور ہائی کورٹ کے فیصلہ میں غلطی، فوجداری قانون کے بنیادی اصولوں کے مغائر ہے ۔ کارروائی کو ایک کلیت کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے اور دو مختلف عدالتوں میں شہادتیں نہیں پیش کی جاسکتیں ۔ یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ سی بی آئی، مختلف افراد بشملو ونئے کٹیار اور وشنو ہری ڈالمیا کے خلاف بھی سازش مجرمانہ کا الزام حذف کرنے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی تھی ۔ یو این آئی کے بموجب حاجی محبوب نے استدلال پیش کیا کہ کیس میں اڈوانی اور دیگر افراد کے خلاف سازش کے الزامات ثابت کرنے سی بی آئی نے کافی کوششیں نہیں کی ۔ یہاں یہ بات بتادی جائے کہ بابری مسجد انہدام(شہادت) کیس،3مارچ2011سے سپریم کورٹ میں زیر دوراں ہے ۔ الہ آباد نے20مئی2010ء کو اپنے فیصلہ میں بی جے پی قائدین کو عدم ثبوت کی بنا پر سازش مجرمانہ کے الزامات سے بری کردیا تھا اور سی بی آئی نے ہائی کورٹ کے اس حکم کو18فروری2011ء کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا ۔ سی بی آئی نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے9ماہ بعد سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ تاہم تحقیقاتی ایجنسی9ماہ کی اس تاخیر کے جواز کا قائل کرانے میں ناکام رہی ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں