آئی سی ایچ آر میں آر ایس ایس کی موجودگی سے تاریخ کو بھگوار نگ دینے کا اندیشہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-04-20

آئی سی ایچ آر میں آر ایس ایس کی موجودگی سے تاریخ کو بھگوار نگ دینے کا اندیشہ

نئی دہلی
یو این آئی
آر ایس ایس کی حمایت یافتہ اکھل بھارتیہ اتہاس سنکالن یوجنا ( اے بی آئی ایس وائی) میں2عہدیداروں کی موجودگی اور ایک سابق پروفیسر کو دوبارہ تشکیل شدہ انڈین کونسل آف ہسٹاریکل ریسرچ( آئی سی ایچ آر) میں ترقی کے بعد تقرر سے ملک کے اہم انسٹی ٹیوٹ کو زعفرانیت کا اختیار حاصل ہوگیا ہے ۔ اب وہ بے دھڑک اور بلا روک ٹوک زعفرانی نظریات کو عام کرسکتے ہیں ۔ کونسل آف آئی سی ایچ آر ردو بدل کے بعد دوبارہ تشکیل دی گئی ہے ، جو 18ارکان پر مشتمل ہے جن میں ایشین آر کیا لوجی کے سبکدوش پروفیسر دلیپ کے چکرورتی یونیورسٹی آف کالی کٹ کے پروفیسر آف ہسٹری ، وی وی ہری داس ، یونیورسٹی آف کلیانی کے سابق پروفیسر اور ہیڈ آف دی اپارٹمنٹ نکھلیش گوہا اور جموں یونیورسٹی کے صدر شعبہ بدھسٹ تعلیمات ، بیدیاناتھ لابھ شامل ہیں ان کے علاوہ ٹی یونیورسٹی کے کارگی کالج کی اسوسئیٹ پروفیسر میناکشی جین اور دلی کے ہنس راج کالج کے سابق اسوسی ایٹ پروفیسر سرودندہ مکرجی بھی ارکان میں شامل ہیں۔ دونوں دائیں بازو نظریات کی تبلیغ و اشاعت کے لئے مشہور ہیں ۔ اکھل بھارتی اتہاس سنکالن یوجنا کے دو عہدیدار نارائن راؤ اور ایشورشرن وشواکرما بھی ارکان میں شامل ہیں ۔ وشوا کرما گورکھپور یونیورسٹی میں اینشینٹ ہسٹری، آرکیلولوجی اینڈ کلچر کے پروفیسر اور نرائن راؤ، اوڈیشہ یونیورسٹی( برہم پور) میں پروفیسر ہیں ۔ کونسل کی3سالہ میعاد دسمبر میں مکمل ہونے کے بعد اس کی دوبارہ تشکیل ضروری ہوگئی تھی تاہم ردو بدل اس انداز سے ہوا ہے کہ تاریخ کو دوبارہ رقم کرنے کی آزادی حاصل ہوگئی ہے ۔ نوتشکیل شدہ کونسل اب اس حوالے سے تنقید کا نشانہ بن رہی ہے ۔ ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر نے طرز پر اور زعفرانیت سے بھری تاریخ دوبارہ رقم کی جائے گی ۔ اطلاعات میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ آر ایس ایس ، ملک میں670اضلاع اور600قبائلی برادریوں کی تاریخ از سر نو رقم کرہی ہے ۔ اور دس سال سے ایک پراجکٹ کی تکمیل میں مصروف ہے جس کے تحت پرانوں پر مبنی تاریخ ہند مرتب کی جارہی ہے ۔ بعض گوشوں سے تنقید اور مخالفت کے باوجود این سی ای آر ٹی کی نصابی کتابیں دوبارہ رقم کی جارہی ہیں تاکہ طلباء میں قوم پرستی کا جذبہ بیدار کرنے کے اسباق کی شمولیت کو یقینی بنایاجاسکے اور ہندوستانی تاریخ میں فرقہ واریت کی وضاحت کی تصحیح بھی ہو جسے پڑھ کر افراد اور طلباء اپنے ماضی پر پشیماں ہوں ۔ موجودہ حالات میں دائیں بازو ماہرین تواریخ ہندوستان کے شاندار مستقبل کو (اپنے نظریات کے مطابق) اجاگر کررہے ہیں ۔ بلا شبہ اب افراد کے ذہنوں میں ایسے شبہات بھی جنم لے رہے ہیں کہ مودی حکومت کی شاندار انتخابی کامیابی سے اکھل بھارتیہ اتہاس سنکالن یوجنا جیسی تنظیموں کے حوصے بلند ہوئے ہیں، جنہوں نے دہلی میں آر ایس ایس ہیڈ کوارٹر میں بھارتیہ پر ان ادھیان سنستھان قائم کرلیا ہے ۔ ایسی تمام تنظیمیں آر ایس ایس سے وابستہ ہیں ۔ آر ایس ایس ، ان تمام الزامات کو مسترد کردہی ہے ، تاہم ان کے دعوؤں پر نہ تو کوئی اعتبار کرتا ہے اور نہ ہی یہ تسلیم کرنے تیار ہے کہ تعلیمی پالیسی میں ترمیم کی کوششیں نہیں ہورہی ہیں ۔ ایرانی نے حال ہی میں علی الاعلان پر زورانداز سے کہا تھا کہ اسکولی نصابی کتب میں ہندو نصاب کو ضرور شامل کیاجائے تاکہ نصابی کتاب میں اقدار و قوم پرستی کو مقام حاصل ہو ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ایرانی کے اس پلان کو دینا ناتھ تبرا کی مکمل تائید حاصل تھی جو این سی ای آر ٹی کی نصابی کتب کو دوبارہ مرتب کرنے کی پالیسی کی حمایت کرتے ہیں تاکہ بچوں(اسکولی بچوں) میں قوم پرستی کا جذبہ بیدار ہو ۔
زعفرانی تاریخ داں اب اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ ہندوستانی تاریخ کو ہندو (ہندو توا) رنگ میں رنگ دیا جائے اور رومیلا تھاپر، آر ایس شرما، عرفان حبیب اور مارکسسٹ تاریخ داں این چندرا کی مرتبہ تاریخ میں تبدیلیوں کے بعد ذہنوں پر دہائیوں سے مرتب اثرات زائل کیے جاسکیں ۔ آر ایس ایس ماہرین تواریخ پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ بائین بازو تاریخ دانوں نے تواریخ میں فرقہ پرستی کا زہر گھولا ہے جس کا مقصد برطانوی عہد نو آبادیات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے برادریوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے اور خلیج حائل کرنا تھا اور یہ کام صرف مفادات حاصلہ کے پیش نظر ہوا۔ اس پالیسی کا مقصد سیاسی مفادات حاصل کرنے کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ بائیں بازو تاریخ داں یہ باور کرتے ہیں کہ آر ایس ایس نظریات کے حامل ماہرین تاریخ نے تواریخ کو ہندوستان برائے ہندو نظریہ سے مرتب کیا ہے اور زعفرانی رنگ گھولتے وقت وہ آج کے ہندوستان کے سنگین حقائق اور برائیوں کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔ نئی نسل حقیقی ہندوستانی تاریخ سے واقفیت کی خواہاں جو کسی بھی رنگ میں نہ رنگی گئی ہو۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے حال ہی میں کوکلکتہ میں اپنی پالیسی کی مدافعت کرتے ہوئے وضاحت کی تھی کہ بھگت سنگھ دہشت گرد ہونے کے بجائے ایک انقلابی شخص تھا ۔ انہوں نے بھگت سنگھ کو انقلابی قرار دیتے ہوئے سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا اسے زعفرانیت سے تعمیر کیا جاسکتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اگر حقیقت کو جوں کا توں پیش کرنے کو زعفرانیت کہتے ہیں تو پھر یہی صحیح ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے انقلابیوں کا احترام لازم اور اس کی برقراری ضروری ہے ۔ آر ایس ایس سربراہ نے خیال ظاہر کیا کہ بچے نصابی کتاب کو ہی صحیح باور کرتے ہیں۔ البتہ طویل عرصہ گزر جانے کے بعدہی انہیں احساس ہوتا ہے کہ تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے ۔ ایک اور سابق وزیر فروغ انسانی وسائل( سابق واجپائی حکومت کے کابینی وزیر) نے زعفرانیت کی مدافعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح ہندوستان پوری دنیا میں سب سے زیادہ اور منفرد ترقی یافتہ ملک ہوگا ۔ انہوں نے تاریخ کی کتابوں کے حوالہ سے کہا کہ ایسی تمام کتابوں میں صرف ہماری شکست کی داستانیں ہیں اور ان جنگوں کا تذکرہ کہیں نہیں ملتا جن میں ہمیں فتحیابی نصیب ہوئی ۔ ڈاکٹر جوشی نے بھی یہی کہا کہ اگر حقائق کو صحیح طور پر پیش کرنے اور غلطیوں کی درستگی کو زعفرانیت کہتے ہیں تو یہ الزام ہمیں قبول ہے ۔ ہندوستانی نصابی کتب کو زعفرانی میں رنگنے کا موقع صرف اس لئے موقع پرستوں کو حاصل ہورہا ہے کہ اب ہمارے درمیان ایسے ماہرین تاریخ کی قلت ہے جو آر ایس ایس نظریات کو مسترد کرنے کے لئے اپنے نظریات کو پرزور طور پر دنیا پر واضح کرسکیں ۔

RSS presence in ICHR raises fears of saffronisation

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں