ہم مجبوروں میں اک مختار بھی تھا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-04-08

ہم مجبوروں میں اک مختار بھی تھا

Mukhtar-Ahmed-Khan-kanpuri
ہم لوگ صورت پر مرتے ہیں جبکہ ہمارے مذہب میں "سیرت" کی بڑی اہمیت ہے اور صورت تو ایک دن بگڑ ہی جاتی ہے مگر سیرت برسہا برس ذہنوں میں قائم رہتی ہے بلکہ سینہ بہ سینہ آئندگان تک پہنچتی رہتی ہے۔ ۔۔
لکھنے پڑھنے والے یا وہ لوگ جو فنونِ لطیفہ وغیرہ سے کوئی تعلق رکھتے ہیں وہ بھی اسی سلسلے کے ہوتے ہیں یعنی بعد از زندگی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ مگر حیرت ہے کہ بعض افراد نہ توشاعر و ادیب ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی آرٹسٹ وغیرہ۔۔۔ انہی میں ایسے بھی گزرے ہیںجنہوں نے اپنے کردار سے لوگوں کے ذہن میں ایسا نقش بنا دِیا کہ اس جہانِ فانی سے تو رخصت ہوگئے مگر ذہنوں میں زندہ رہ گئے۔ ایسا اکثر نہیں ہوتا مگر۔۔۔ ہوتا ہے ۔۔۔
ایک ایسی ہی مثال تھے یہ جو حال ہی میں دْنیا کو خدا حافظ کہہ گئے ہیں مختار احمد خان (کانپوری)۔
ممبرا میں انہی کی کوششوں سے تنظیم ِ والدین جیسا کام کرنے والا ادارہ قائم ہوا۔ اس تنظیم کی کارکردگی اور لائحہِ عمل ایسا ہے کہ اگر یہ تنظیم تادیر قائم رہی تو انشا اللہ مختار خاں صاحب بھی ذہنوں میں زندہ رہیں گے اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو ان کی سعیِ احسن کم از کم ان کے حق میں "ثوابِ جاریہ" تو بن ہی گئی ہے۔ ہم میں ایسے لوگ خال خال ہی ملتے ہیں وگرنہ تو ہم صرف اپنے لئے اور اپنے لواحقین کیلئے جیتے کیاہیں روزمرتے رہتے ہیں۔ حضرتِ غلام ہمدانی، جو ہماری شعری دْنیا میں مصحفی کے نام نامی سے زندہ ہیں وہ اپنے شعر میں کیا پتے کی بات کہہ گئے ہیں:
عیال و مال نے روکا ہے دَم کو آنکھوں میں
یہ ٹھگ ہٹیں تو ملے راستہ مسافر کو
دیکھئے اس بزرگ نے "عیال و مال" کو کس کردار سے یاد کیا ہے۔ اگر ہم میں ذرا بھی بصیرت ہے تو مصحفی کے اس قول کی صداقت پر ایمان لاتے ہی بنے گی۔ کیونکہ ہماری کتابِ مقدس میں بھی عیال کو ۔۔۔ فتنے۔۔۔ سے تعبیر کیا گیا ہے اور سچ تو یہ بھی ہے کہ جہاں جہاں ہمارے نفس نے کام کیا ہے وہاں وہاں کسی نہ کسی سطح پر بسا اوقات ہمارا سامنا ۔۔۔ "فتنے" ۔۔ ہی سے ہوتا ہے۔

یہ حضرت مختار احمد خان کانپور سے نکلے تھے مع اہل و عیال ممبئی جیسی لاکھوں لاکھوں کی آبادی والے شہر میں کوئی ایک دہے کے آس پاس رہے، اپنی روزی روٹی کیلئے بھی کوشاں رہے اور دوسروں کے بھی کام آتے رہے۔ اس بھرے پْرے شہر میں اپنی کوئی مثبت شناخت بنانا کوئی آسان کام نہیں مگر مختار خان صاحب نے اپنی شناخت بنائی۔ ورنہ آج مَرے کل دوسرا دن۔۔۔ پھر وہی دْنیا ہے اور اس کی وہی کشش۔۔۔کون کس کو یاد کرتا ہے۔۔۔
مگر مختار احمد خان صاحب اتنی مدت میں ایک دو نہیں نجانے کتنے دِلوں پر اپنے کردار کے نقوش چھوڑ گئے ہیں۔

تنظیم والدین کے ذمے داران نے گزشتہ دنوں مختار مرحوم کے سلسلے میں ایک تعزیتی نشست برپا کی۔ اس دْنیا میں روز نجانے کتنی تعداد میں ابن آدم پیدا ہورہے ہیں اور اسی طرح ہر روز نجانے کتنے ابن آدم رزق خاک بھی ہورہے ہیں۔۔۔کچھ دیر رو رْلا لیجئے اور پھر وہی دْنیا ہے اور اس کی طلب میں ہماری گمشدگی ہے۔ تنظیم والدین کے ایک سرگرم رْکن جمال شیخ صاحب نے بتایا کہ ہم نے سو سے زیادہ کرسیاں لگوائی تھیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی خالی نہیں رہی۔ لوگوں نے مختار خان صاحب کواپنی تقریر سے اور اپنی حاضری سے مرحوم کے کردار کو یاد کیا۔۔۔اور کیا چاہئے !۔۔۔ مختار خان اس قدر نرم دل واقع ہوئے تھے کہ کسی کا دُکھ، کسی کا درد ہو وہ اسے اپنا دُکھ درد سمجھتے تھے۔ یہ بات زیبِ داستاں کے لئے نہیںلکھی گئی جن لوگوں نے اْنھیں دیکھا اور ان سے ملے ہیں انھیں اس بات پر کوئی تردد نہیں ہو سکتا کہ یہ امرِ واقعہ ہے۔

کوئی پریشاں حال ان کے پاس پہنچ جائے وہ اس قابل تو نہیں تھے کہ اپنے پاس سے اس کی مالی مدد کرسکیں مگر اْنہوں نے ایسے لوگوں کو دریافت کر رکھا تھا کہ جو دوسروں کے کام آسکتے تھے۔ قوم و ملت اور انسانی حوالوں سے کسی کا کوئی مضمون اخبار وغیرہ میں پڑھا ، مضمون نگار سے کسی طور مل کر ورنہ فون پر اس کی داد و تحسین وہ اپنا فرض سمجھتے تھے۔ لہجے کی نرمی اور خلوص کی گرمی میں ہم نے کبھی ان کے ہاں کمی نہیں دیکھی۔ جن صاحب نے مختار صاحب سے متعارف کرایا تھا انہی نے کسی وقت یہ بھی کان میں ڈالا کہ ندیم صاحب! ان کا کیسٹ Sixty کا نہیں ninty کا ہے۔ یہ جملہ ان کے منہ سے ایک تمسخر کے ساتھ نکلا تھا۔
اب دیکھ رہا ہوں۔ مختار صاحب کی عمر کا کیسٹ تو تمام ہو گیا مگر انکے کردار کا کیسٹ اب بھی چل رہا ہے جو عبد الرحمان اعظمی ، کبھی جمال شیخ اورکہیں اسد اللہ خاں کے لفظوں میں ڈھل گیا ہے۔ مختار صاحب شکل و صورت کے جیسے تھے وہ شکل و صورت تو منوں مٹّی میں مل گئی مگر اْن کی وہ بے داغ سیرت ہمارے ہی نہیں، نجانے کتنوں کے ذہنوں میں روشن رہے گی۔
حضرت علیؓ سے کسی نے پوچھا کہ آدمی مختار ہے یا مجبور ؟
حضرت علیؓ کا جواب تھا: ذرا تٗو اپنا ایک پیر تو اُٹھا۔۔۔
سوال کرنے والے نے ایک پیر اْٹھا لیا تو حضرت علیؓ نے پھر کہا : دوسرا پیر بھی اْٹھالے۔
وہ بولا : یہ نہیں ہو سکتا۔
اب حضرت علیؓ نے کہا : آدمی کتنا مختار ہے اور کتنا مجبور؟ تیرے اسی عمل میں مخفی ہے۔۔۔

ہمارے مختار مرحوم صرف نام کے مختار نہیں تھے ایک دن کہنے لگے کہ مولانا انجم فوقی بدایونی کا ایک شعر تو سنیے :۔۔۔
جو اپنے اِختیار کی حد تک خدا نہیں
وہ آدمی بھی ہو تو کسی کام کا نہیں

مختار صاحب نے اس شعر کو اپنی روح میں اُتار لیا تھا۔۔۔۔ مختار صاحب کا ذوق بھی خوب تھا۔۔۔ وہ بہر لحاظ بڑے کام کے آدمی تھے مختار مرحوم اپنے لئے ہی نہیں دوسروں کیلئے بھی بلکہ دوسروں کیلئے زیادہ۔۔۔ اس نفسا نفسی کے دَور میں ایک نہیں کئی مختاروں کی ضرورت تھی۔۔۔ افسوس کہ ہم میں اب وہ ایک مختار بھی نہیں رہا۔۔۔
مگر انکا کردار زندہ ہے جو چاہے اس سے اپنی سیرت کا چراغ روشن کر لے۔۔۔
ہے کوئی جو مختار بننا چاہتا ہو۔۔۔؟

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

Remembering Mukhtar Ahmed Khan kanpuri. Article: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں