آئی اے این ایس
تاج محل کی 2003 سے پہلی کی گئی بیشتر تصاویر میں دریائے جمنا کو اس عمارت کی عقبی بنیادوں کے قریب بہتا دیکھاجاسکتا ہے بلکہ پانی اس کی پچھلی دیوار پر بھی چڑھ جایاکرتا تھا لیکن اب آر کیا لوجیکل سروے آف انڈیا( اے ایس آئی) کی جانب سے تعمیر کردہ ایک پارک(چمن) کی وجہ سے اب دریائے جمنا اس شہرہ آفاق یادگار محبت سے تقریبا100گز دور ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ سے17ویں صدی کی اس یادگار کی بنیادوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور عمارت کسی جانب جھک سکتی یا زمین میں دھنس سکتی ہے ۔ مشہور مصنف اور مغلیہ تاریخ کے ممتاز مورخ آرناتھ نے یہ انتباہ دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تاج محل کی بنیادوں کی صحت دریائے جمنا پر منحصر ہے اور اسے بھرپور سطح تک بہنا اور عمارت کے عقبی حصہ کو چھونا چاہئے ۔ مغلیہ دور کے ماہرین تعمیرات اور کنسٹرکشن ورکرس پانی کے اہم رول سے اچھی طرح واقف تھے ۔ انہوں نے کئی محل اور یادگاریں یا تو دریاؤں کے بیچ یا کنارے پر تعمیر کی تھیں ۔ بتایاجاتا ہے کہ تاج محل کو بھی اس مقام پر اس لئے تعمیر کیا گیا کیونکہ اس کے پیچھے ایک دریا بہتا ہے ۔ آرناتھ نے اجمیر سے فون پر آئی اے این ایس کو بتایا کہ دریائے جمنا میں اگر پانی نہیں ہوگا تو تاج محل کو سہارا دینے والی ترتیب اور قدرتی ماحول غیر متوازن ہوجائے گا تا تاج محل کو سہارا دینے والی ترتیب اور قدرتی ماحول غیر متوازن ہوجائے گا جس کی وجہ سے عمارت کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگا۔ آر ٹی آئی کے تحت ایک سوال کے جواب میں اے ایس آئی نے کہا کہ یادگار محبت کے اصل تعمیری منصوبہ میں یہ چمن شامل نہیں تھا لیکن اس کے محکمہ باغبانی نے اس چمن کو فروغ دیا ہے تاہم وہ اس کی وجوہات کی وضاحت نہیں کرسکی۔ اس نام نہاد خوبصورت مقام کو آگرہ میں اس وقت کے آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا کے سربراہ کے کے محمد کی ایماء پر تعمیرکیا گیا تھا اور کسی بھی خصوصی اتھاریٹی یا ایجنسی سے کوئی منظوری حاصل نہیں کی گئی تھی ۔ اس کی وجہ سے قدیم تعمیر کے ماہرین اور مورخین نے اعتراض کیا اور تاج محل اور دریائے جمنا کے درمیان مصنوعی خلائ تخلیق کرنے کی وجوہات کا سوال اٹھایا کیونکہ اصل ڈیزائن میں یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اے ایس آئی کے حکام کا کہنا ہیکہ دریا کے عمارت کے قریب یاد ور بہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ان کا استدلال ہے کہ انہوں نے دریا کے کنارے کو خوبصورتی عطا کی ہے جو پہلے بدنما معلوم ہوتا تھا اور ہر طرف کچرا پھیلا ہوا ہوتا تھا ۔ سیاحت کے لئے آنے والے تاج محل کے اونچے چبوترے سے مختلف اشیایہاں پھینکا کرتے تھے ۔ ناتھ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اس پارک کی وجہ سے عمارت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ۔ حکام نے ایک مصنوعی پارک تعمیر کیا ہے جو کہ تاج محل کے اصل تعمیر ی منصوبہ میں شامل نہیں تھا۔ دریائے جمنا کافی دور ہوگئی ہے جو اچھی علامت نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکام نے1923میں شائد جان مارشل مینول کا مطالبہ نہیں کیا ہے جس کے مطابق کسی بھی تاریخی عمارت کے محل وقوع کو تبدیل نہیں کیاجاسکتا ۔ اس کے علاقہ قدیم بابتہ1958بھی تبدیلیوں کی اجازت نہیں دیتا ۔ بیشتر تحفظ پسندوں نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ دریا کو پانی سے بھرا ہوا ہونا چاہئے اور تاج محل کی بنیادوں کو چھوتے ہوئے رہنا چاہئے۔ سینٹ جانس کالج کے شعبہ تاریخ کے سابق سربراہ آر سی شرما نے بتایا کہ اصل ڈیزائن میں کوئی پارک نہیں تھا ۔ شاہی خاندان کے ارکان کشتیوں کے ذریعہ تاج محل آیا کرتے تھے اور عقبی دروازوں سے عمارت میں داخل ہوتے تھے ۔ اس نئے اضافہ سے یقینا غیر متوقع طریقہ پر عمارت پر دباؤ پڑے گا ۔ انہیں تاج محل کا کوئی ایسا خاکہ یا قدیم تصویر پیشکرنے دیں جس میں جمنا اس عمارت کے عقبی دیوار کو چھوتی ہوئی نظر نہیں آتی ۔ برج منڈل ہیرپٹج کنزورویشن سوسائٹی کے سدر سریندر شرما نے یہ بات بتائی ۔ سریندر شرما نے مزید کہا کہ تاج محل کی قدیم تصاویر اور1942میں تیار کردہ تقریباً45نقشوں اور ڈیزائنوں میں جمنا کو عقبی دیوار سے متصل بہتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے ۔ دراصل دو گیٹس ہوا کرتی تھیں اور مغل خاندان ان کے لوگ کشتیوں سے اتر پر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے عقبی گیٹ سے اندر داخل ہوا کرتے تھے ۔ سریندر شرما نے مزید کہا کہ ملبہ اور کچرا صاف کرنے اور دریا کو دوبارہ اس کے اصل مقام پر لانے اور اس کی عظمت رفتہ بحال کرنے کے بجائے انہوں نے ایک بڑی غلطی کی ہے جس کی وجہ سے سپریم کورٹ کی اس ہدایت کی بھی واضح خلاف ورزی ہوئی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ تاج محل اور اس کے ارد گرد کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ ناتھ کا کہنا ہے کہ حکام کو اس سارے علاقہ سے ریت صاف کرنا اور دریا کو اس کے اصل راستہ پر بہنے دینا چاہئے تھا کیونکہ عمارت کے ڈھانچہ کے لئے پانی بے حد ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اے ایس آئی نے کسی سے مشورہ نہیں کیا اور نہ اس میں356سال قدیم عمارت کے قریب پارک تعمیر کرنے کے امکانی نقصانات کے بارے میں کوئی تحقیق کی ۔
A rear side park that threatens Taj Mahal's safety
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں