کتب خانہ محمدیہ اور ممبئی کی متنشر یادیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-03-29

کتب خانہ محمدیہ اور ممبئی کی متنشر یادیں

kutubkhana-mohammadiya-mumbai
جامع مسجد ممبئی کے جواں سال مفتی محمد اشفاق صاحب نے اطلاع دی ہے کہ جامع مسجد کے ماتحت جاری کتب خانہ محمدیہ ایک طویل عرصہ بعد نئے حوصلے اور آن بان کے دوبارہ کھل رہاہے اور فرمائش کی ہے کتب خانہ کے تعلق سے اپنی منتشر یادوں کو پیش کروں ۔ اپنی یہ بساط کہاں لیکن ایسی مبارک ساعت کے موقعہ پر ہم جیسے بے توقیر چند باتوں کے ساتھ شریک ہوں تو آخر مضائقہ بھی کیا ہے؟
۱۹۷۴ء میں جب ہماری فراغت ہوئی توتایا محترم محی الدین منیری صاحب نے عید الفطر کے بعد ہمیں یہ کہ کر ممبئی بھیج دیا کہ کچھ وقت مسجد اسٹریٹ میں واقع ان کی کتابوں کی دکان ایجنسی تاج کمپنی میں دوں اور زیادہ تر وقت اپنی عربی زبان کی صلاحیت درست کرنے کے لئے ممبئی کے کتب خانوں کی چھان ماروں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے پہلے انڈو عرب سوسائیٹی لے گئے جہاں محدود تعداد میں عربی پرچے آتے تھے ، کچھ دنوں بعد نجمۃ ھبت اللہ صاحبہ یہاں پر سکریٹری کی حیثت سے ہمیں ملی تھیں ۔ پھر چرچ گیٹ میں واقع کویتی قنصل خانے کے ماتحت ثقافتی سنٹر لے گئے ، جہاں پر عالم عرب کے ہر علاقے سے اخبارات اور پرچے آتے تھے اور کثیر تعداد میں عرب طلبہ اور ممبئی آنے والے عرب حضرات مغرب بعد آتے تھے ، اس وقت سلیمان نامی قنصل خانے کے ثقافتی اتاشی اس کے انچارچ اور ہم پر بڑے مہربان تھے ، بعد میں یہیں سے عربی اخبارات اور پرچوں کے پتے لے لے کر ہم نے کتب خانہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے نام پرکئی سارے روزنامہ اخبارات الاتحاد ابوظبی ، القبس کویت ، عمان مسقط اور ڈھیر سارے ہفتہ وار اور ماہانہ مجلات جاری کروائے تھے ، کئی ایک طلبہ کے نام پر ماہانہ الوعی الاسلامی کویت اور التربیۃ الاسلامیہ بغداد بھی جاری ہو اتھا، جنہیں طلبہ بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ اس کے بعد منیری صاحب تو حج سے وابستہ سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے اور ان کی حج سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد تک ممبئی کے علمی مراکز میں گھومنے پھر نے اور یہاں کی علمی و ادبی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ہمیں مل گیا ، اس دوران ماہ محرم الحرام اور ربیع الاول بھی آگیا جو ممبئی کے مسلمانوں کے لئے اس دور میں بہت معنی رکھتا تھا ۔
انہی دنوں ہمارا کامبیکر اسٹریٹ میں اسلامی ہند کے عظیم مورخ مولانا قاضی اطہر مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ کی رہائش گاہ مرکز علمی بھی جانا آنا شروع ہوا ۔ قاضی صاحب اس زمانے میں انجمن اسلام ہائی اسکول میں دینیات پڑھاتے تھے اور احوال و معارف کے عنوان سے روزنامہ انقلاب میں روزانہ کالم لکھا کرتے تھے ، وہ ماہنامہ البلاغ میں ہمارے تایا کے شریک مدیر اور جمعیت علمائے ہند مہاراشٹر کے صدر بھی تھے۔ مرکز علمی کیا تھا ایک کمرہ ، جس کے ایک کونے پر کٹھیا رکھی ہوئی تھی ، دوسری طرف دو ایک کتابوں کی الماریاں اوردو ایک چٹائیاں جن پر دری بچھی ہوئی تھی، قاضی صاحب کی یہی کچھ کائنات تھی ، علمی مرتبہ اورمقام کی وجہ سے یہاں پر آپ سے ملنے بڑے بڑے اہل علم روز آیا کرتے تھے۔
قاضی صاحب کے مرکز علمی سے چند قدم پر ممبئی کی قدیم تاریخی جامع مسجد کھڑی تھی ،یہ مسجد ایک تالاب پر کھمبوں پر اس طرح قائم کی گئی تھی کہ تالاب میں وضو کرنے والے کا چہرہ قبلہ کی طرف ہو۔اس مسجد کی تعمیر کا آغاز ۱۷۷۵ء میں قصاب برادری کے چند لوگوں نے کیا تھا، لیکن اقتصادی زوال کی وجہ سے اس کی تکمیل کا کام کوکنی برادری کے ایک تاجر ناخدا محمد علی روگھے کے ہاتھوں ۱۸۰۸ء میں ہوئی ۔
مسجد کے مین دروازے کے دائیں طرف ایک ہال واقع تھا جس میں مسجد انتظامیہ کے ماتحت مکتبہ محمدیہ قائم تھا ، دروازے میں داخل ہوتے ہوئے پہلے سامنے سر کے اوپر ایک چو کور فریم میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب رومال نظر آتا ، جو ہم جیسے بے نواؤوں کے لئے نیک شگون بنتا۔
یہاں ایک بڑی میز تھی ، جس سے کچھ ہٹ کر ایک چھوٹی سی میز تھی ، جس کے پاس کرسی پر ایک دھان پان دبلے پتلے بزرگ بیٹھے نظرآتے ، دیکھنے میں بالکل سیدھے سادھے سے ، چہرے پر مختصر سی خشخشی ڈاڑھی ، لیکن شخصیت میں بے پناہ اپنائیت تھی ، ان کی جوانی میں جب مہارشٹر ا حکومت کا سکریٹریٹ سچیوالیہ اپنی نئی جگہ منتقل نہیں ہوا تھا تو آپ پورٹ بندر پر واقع سرکاری دفتر میں ملازمت سے وابستہ تھے ، سنا ہے اس زمانے میں بڑے خوش پوشاک ہوا کرتے تھے ، ان کے جسم پر شیروانی خوب سجا کرتی تھی ، لیکن اب رٹائرڈ ہوکر مکمل اسی کتب خانے کے لئے وقف ہوگئے تھے ، یہ تھے مخارج قرآن کے ماہر اور استاد قاری اسماعیل کاپرے ۔
سنا ہے انہیں جوانی میں ٹی بی کا عارضہ ہوگیا تھا، اس زمانے میں یہ بڑا مہلک اور متعدی مرض شمار ہوتا تھا ، لوگ مریض کے قریب آتے ہوئے خوف کھاتے تھے ، لیکن جب آپ نے خود کو قرآن سکھانے کے لئے وقف کردیا تو اللہ نے اس کی برکت سے اس بیماری سے آپ کو شفا بخشی ۔ ان کے ایک شاگرد تھے نام تھا ان کا قاسم، وہ دوران درس احتراما آپ کا جھوٹا پانی ہنسی خوشی پیتے تھے ، بعد میں انہوں نے کاتب قرآن کی حیثیت سے نام کمایا ،انہیں دو بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ سے خواب میں زیارت نصیب ہوئی تھی ،وہ کہتے تھے کہ یہ سب اپنے شیخ کے احترام و پاسداری کی برکت ہے ۔ قاری صاحب کے پاس بڑے بوڑھے تجوید سیکھنے کے لئے آتے تھے ، بھٹکل کے لوگوں میں نواب ایاز مسجد کے بزرگ امام عبد الرزاق خجندی اور ڈاکٹر سید محمد قاسم پیرزادے مرحوم قابل ذکر ہیں ۔
ممبئی میں جن علماء و اکابر نے اصلاحی تحریک چلائی ، اپنی وعظ کی مجالس سے یہاں کی فضاؤوں کو معطر کیا ان میں ایک اہم نام مولانا قاری ودود الحی نفیس لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ، ایسے قاری اور جامع الصفات خطیب روزروز پیدا نہیں ہوا کرتے، آواز میں اللہ نے بلا کا سوز اور حسن دیا تھا ، تلاوت کرتے تو ایسا لگتا کہ جیسے قرآن کا نزول ہورہا ہے ، ادبی و شعری ذوق بھی بلا کا پایا تھا ، افسو س کے ممبئی کی فضاؤوں میں ان کی تقریریں بکھر کر رہ گئیں ، کہیں ان کی ریکارڈنگ ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ آپ کی آواز میں تلاوت کے گرامافون کے ریکارڈ ایک کمپنی بنائے تھے ، اب وہ بھی ناپید ہیں ، ڈھونڈے سے نہیں ملتے ، شخصیت ایسی تھی کہ ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جانے والے اردو کے نامور خطیبوں میں آپ کا شمار ہونا چاہئے۔ یہی قاری ودود الحی صاحب کہا کرتے تھے کہ قاری کاپرے جس مجلس میں ہوں وہاں تلاوت کرتے ڈر لگتا ہے کہ کسی مخرج کی غلطی کو پکڑ نہ لیں ۔ لیکن قاری کاپرے جامع مسجد کے بزرگ امام مولانا غلام محمد خطیب کے گرویدہ اور ان کے تلفظ و انداز تلاوت پر فدا تھے ، مولانا شوکت علی صاحب کی ۱۹۷۰ء کی دہائی میں تقرری آپ ہی کے معاون کی حیثیت سے ہوئی تھی۔
قاری کاپرے کو بھٹکل والوں سے انس تھا ، یہاں کی جن شخصیات کا وہ بہت احترام کرتے تھے ان میں سے ایک مولانا محمود خیال صاحب تھے جن کی اٹھان اسی جامع مسجد کے خطیب کی حیثیت سے ہوئی تھی ، وہ مولانا شیبر احمد عثمانیؒ اور مولانا محمد انورشاہ کشمیری ؒ کے شاگردوں میں سے تھے ، انجمن اسلامیہ ہائی اسکول بھٹکل میں پڑھتے پڑھا تے زندگی گذاردی ۔ دوسری شخصیت بھٹکل میں متحدہ جماعت المسلمین کے قاضی اور اپنے دور میں فقہ شافعی کے عظیم مرجع مولانا قاضی شریف محی الدین اکرمی مرحوم کی تھی ، اکرمی مرحوم نے ایک عرصہ ممبئی کے قاضی عطاء اللہ مرگھے کے نائب کی حیثیت سے گذار ا ، اپنے علم و تفقہ کی وجہ سے عملا وہی قاضی شہر تھے ، آپ کے تفقہ کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ جامع مسجد ممبئی کے ایک قدیم خطیب بوڑھے ہوگئے اور بیٹھ کر خطبہ دینے پر مجبور ہوگئے تو ایک فتنہ برپا ہوگیا، ازہر شریف سے بھی فتوی لایا گیا جس میں خطیب معذور ہونے کی صورت میں بیٹھ کر خطبہ دینے کی اجازت دی گئی تھی ، لیکن قاضی اکرمی نے اس کے خلا ف یہ کہ کر دلیل دی کہ یہ اجازت امیر معاویۃ رضی اللہ عنہ کے لئے مخصوص تھی کیونکہ اس وقت امیر معاویہ خلیفۃ المسلمین ہونے کی وجہ سے مسلمانوں میں افضل ترین شخص تھے، خطابت جمعہ کا ان سے زیادہ مستحق شخص اس وقت روئے زمین پر موجود نہیں تھا، لیکن یہ خطیب صاحب آج ممبر پر چڑھنا چھوڑ دیں تو خطبہ دینے کے لئے ان سے زیادہ افضل افراد کی قطار لگ جائے گی ۔ لہذا افضل کی موجود گی میں مفضول کو امامت و خطابت کے لئے کھڑا کرنا درست نہیں ہے۔ اکرمی صاحب کی رائے کے آگے انتظامیہ نے ہتھیار ڈال دئے ۔
اس زمانے میں کتب خانے میں کتابو ں کی حفاظت کے لئے بڑی احتیاط برتی جاتی تھی، یہاں کتابیں بھی بڑی نادر و نایاب رکھی ہوئی تھیں ۔ اس کا اندازہ ۱۹۲۶ء میں چھپی کتب خانے کی تفصیلی فہرست سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں پر رکھی کتابیں کتنی انمول تھیں ۔ ہمیں مرکز جمعہ الماجد للثقافۃ و التراث دبی میں کام کے دوران محسوس ہوا ، یہاں ہمارے ذمے فہرستیں دیکھ میکروفیلم بنانے کے لئے قیمتی کتابوں کا انتخاب کرنا تھا، اس ناچیز کو علم کے حصول کے لئے زندگی میں کبھی سنجیدگی سے محنت کرنا تو نہیں آیا ، لیکن فہرستوں کے مطالعہ نے غیر شعوری طورپر بہت کچھ دیا ، یا دپڑتا ہے کہ ہم نے اس وقت میکروفیلم کے لئے چھٹی صدی ہجری کے خازن نامی حکیم کی زندگی میں لکھی گئی ایک طبی کتاب کو منتخب کیا تھا، اس ایک نمونے سے قلمی کتابوں کے قدردان کتب خانہ محمدیہ کے علمی ذخیرے کی ندرت اور قدر وقیمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
فہرست کتب کے تذکرے سے ممبئی میں جاملی محلے کے عظیم ناشر کتب محمد غلام رسول سورتی کی پانچسو صفحات پر محیط فہرست مطبوعات( اسعاف الراغبین )کی یاد تازہ ہوگئی ، اسی مکتبہ سے اکرمی صاحب کی کتاب( توضیح المسائل) او(ر تسہیل الفقہ )شائع ہوئی تھی، ابھی ہمیں عربی حروف کی تھوڑی شد بد ھ ہوئی ہی تھی ، باوجود اس کے نہ جانے کتنی بار اس فہرست کے صفحات پر ہم نے نظر دوڑائی ۔ اللہ نے میں بعد میں علم و کتاب سے ہماری روزی روٹی کو جو جوڑ دیا اس میں توفیق یزدی کے ساتھ اس غیر شعوری ورق گردانی سے بھی بڑی مدد ملی ۔
اس زمانے میں محمد علی روڈ اور پائیدھونی کے علاقے میں کتابوں کی بہت ساری بڑی چھوٹی دکانیں ہوا کرتی تھیں، علوی بک ڈپو ، کتابستان ، علی بھائی شرف علی کاتو لوگوں کو اب نام بھی یاد نہیں رہا ، شرف الدین کتبی اپنے بانی کے زمانے میں عربی کتابوں کے بڑے ناشر شمار ہوتے تھے ، شام و مصر کے ناشرین کتب کی طرح ، اتوار کے اتوار اس کے سامنے فٹ پاتھ پر کباڑی پرانی کتابوں کا بازار لگاتے تھے، بڑی قیمتی اور نایاب کتابیں یہاں سستے داموں ملا کرتی تھیں ، یہیں سے ہم نے( زمانہ کانپو )ر کی فائل کوڑیوں کے بھاؤ میں خریدی تھی ، ایک روزکباڑی کے یہاں عربی زبان کی ایک بہت ہی قدیم بوسیدہ کتاب ملی جس کا ابتدائی اور آخری صفحہ غائب تھا، کتاب کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ بڑے کام کی چیز ہوگی ،کتاب لے کر ہم قاضی اطہر صاحب کے پاس پہنچے ، کتاب دکھائی تو وہ حیران رہ گئے ، کہنے لگے یہ نادر کتاب کہاں سے مل گئی ، ہم نے صرف اس کا نام سن رکھاتھا ، لیکن اس کے چھپنے کا ہمیں علم نہیں تھا ، قاضی صاحب سے کتاب کانام لے کر ہم قاری کاپرے کے یہاں کتب خانہ محمدیہ پہنچے ۔
یہ کتاب( عنوان الشرف الوافی فی الفقہ و النحو و التاریخ و القوافی )تھی جو کہ در اصل عربی زبان کا ایک معجزہ ہے ۔ کتاب تو در اصل فقہ کی ہے ، لیکن تمام سطروں کے ابتدائی حروف کو اوپر سے نیچے جوڑ دیا جائے تو نحو کی ، اسی طرح درمیانی حروف کوجوڑاجائے تو تاریخ کی اور آخری حروف کو جوڑاجائے تو قوافی کی کتاب بنتی ہے ، ایک کتاب میں پانچ کتابیں،اس طرح کہ عبارتیں تما م آپس میں مربوط و بامعنی ۔ یہیں آپ نے تاریخ ابن خلکان نکال کر دی ، اس طرح ہم نے اس کتاب کو ہاتھ سے لکھ کر مکمل کیا اور ابن خلکان سے مصنف کے حالات بھی جمع کردئے ۔
قاری صاحب کو جب ہمارے ذوق کا احساس ہوگیا تو ہم پربڑے مہربان ہوگئے ، قیمتی قیمتی قلمی کتابیں دکھاتے تھے ، کتب خانے میں مخدوم علاء الدین علی المھایمی رحمۃ اللہ علیہ کی قلمی کتابوں کا وسیع ذخیرہ دیکھنے کو ملا ، جن میں تفسیر مہایمی کے کئی ایک نفیس اور مختلف رنگوں کی روشنائی میں لکھے نسخے موجود تھے ، مولانا عبد الحی حسنی رحمۃ اللہ کے بقول ہندوستان کی اسلامی تاریخ کی یہ سب سے عظیم اور خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بعد مقبول ترین شخصیت مظلوم ترین شخصیت ہے ، تفسیر مہایمی اور فقہ کی ایک مختصر کتاب کے علاوہ آپ کی سبھی کتابیں غیر مطبوعہ ہیں ، سنا ہے مہایم کی درگاہ کے کتب خانے میں ان کتابوں کا بڑا اثاثہ محفوظ تھا ، پتہ نہیں اب ان کا کیا حال ہے۔
قاری صاحب کے پاس ہی ہماری ملاقات حامد اللہ ندوی صاحب سے ہوئی ،انہی سے ہمیں چرچ گیٹ میں واقع مہاتما گاندھی میموریل اور اس وقت میموریل کے جواں ہمت وجواں سال سکریٹری ڈاکٹر عبد الستار دلوی کا تعارف کرایا۔ حامد اللہ صاحب بڑے نرم خو اور لسانیات کے بڑے عالم تھے ، میموریل کے پروجکٹ کے تحت کتب خانہ محمدیہ کی فارسی کی قلمی کتابوں کی فہرست مرتب کررہے تھے ، اس وقت تک اس فہرست کی ایک جلد زیور طبع سے آراستہ ہوچکی تھی ، دوسری پر کام جاری تھا۔بعد میں آپ نے ڈاکٹریٹ کرکے بمبئی یونیورسٹی میں لسانیات کی لکچرر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور عمر طبعی میں رٹائرڈ ہونے قبل ہی اللہ کو پیارے ہوگئے ۔آپ کے توسط سے مہاتماگاندھی میموریل کی قیمتی اور مرتب لائبریری کے دروازے ہم پروا ہوئے تھے ، یہاں کے ادبی ذخیرے سے ہمیں خوب استفادے کا موقعہ ملا تھا۔
اب ممبئی کے لوگ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ان کے والد ڈاکٹر عبد الکریم نائیک سے زیادہ جانتے ہیں ، ورنہ عبد الکریم صاحب کی سماجی شخصیت ممبئی میں بڑی معروف تھی ،اپنی جوانی میں خوب قوم کی خدمت کی ، آپ ہی کے مالی تعاون سے مولانا عبد الرحمن پرواز اصلاحی مرحوم نے مخدوم مہایمی کی سیرت کا پروجکٹ مکمل کیا تھا، اس کام کے لئے بھی کاپرے صاحب نے اس زمانے میں خوب کتب خانے کتب خانے سے خوب مدد کی ۔
مفتی اشفاق صاحب سے بر سبیل تذکرہ معلوم ہوا کہ کہ کتب خانہ محمدیہ میں اب قاری کاپرے کوجاننے والا کوئی نہیں ، انہیں یاد کرنے کے لئے صرف کسی کسی ورق پر نام لکھا ہوا رہ گیا ہے ، جس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ موصوف کون تھے ، کہاں سے آئے تھے ، کتب خانے کے اوپر جس کمرے میں قیمتی قلمی کتابیں رکھی ہوئی تھیں اور وہاں کسی کو پر مارنے کی جگہ نہیں تھی اور قاری صاحب کو ہم نے پیرانہ سالی کے باوجود سیڑھی چڑھتے اور اپنے ہاتھ سے ان قیمتی جواہرات کو ہانپتے کانپتے لاتے اولے جاتے دیکھا تھا، آپ کی رحلت کے بعد فورا خالی کر کے رہائش گاہ بنا دیا گیا تھا، اب کسی کو پتہ بھی نہیں ہے کہ وہاں کیسے قیمتی خزانے کو آنکھوں کے میل سے دور سینت سینت کررکھا گیا تھا۔
کتب خانے سے اس لاپروائی پر تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ اس دوران کئی نسلیں گذرگئی ہیں ، اس کے باوجود اگر اب اس کتب خانے کی یاد ذمہ داران کو آگئی ہے تو یہ بھی قابل تعریف امر ہے ، خدا کرے زمانے کی بے پروائی کے باوجود اب بھی قدرت کی کرم فرمائی سے پرکھوں کی امانت کا بڑا حصہ ضائع ہونے سے بچ گیا ہو ، جن ہاتھوں نے علم و دانش کی قدردانی کرتے ہوئے آج کے اس مادی دور میں باقی ماندہ امانت کی آئندہ نسل کو منتقل کرنے کی ٹھانی ہے وہ واقعی قابل مبارکباد ہیں ۔ ان کی خدمت میں ہم ہدیہ تہنیت پیش کرتے ہیں ۔ گر قبول افتد زہے عزت و شرف۔

***
Abdul Mateen Muniri
www.urduaudio.com
ammuniri[@]gmail.com
--
عبدالمتین منیری

The memoirs of kutubkhana mohammadiya mumbai. Article: Abdul Mateen Muniri

2 تبصرے:

  1. جوابات
    1. واقعی نہایت اہم اور معلوماتی مضمون ہے۔
      عبدالمتین منیری صاحب کا میں ذاتی طور پر ممنون ہوں کہ وہ براہ راست تعمیر نیوز کے لیے اپنے موقر مضامین ارسال فرماتے ہیں۔

      حذف کریں