جہیز کی شادیوں میں شرکت کے بائیکاٹ کی مہم - سوشیو ریفارم سوسائٹی جدہ کا اجلاس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-03-06

جہیز کی شادیوں میں شرکت کے بائیکاٹ کی مہم - سوشیو ریفارم سوسائٹی جدہ کا اجلاس

socioreforms-society-meeting-jeddah
ہندوستان و پاکستان کےمختلف شعبہ جاتِ زندگی سے تعلق رکھنے والے تقریبا پچاس سے زیادہ اہم شخصیات نے سوشیوریفارم سوسائٹی کے اس اجلاس میں شرکت کی اور حلف لیا کہ وہ ہر ایسی شادی کی تقاریب کا بائیکاٹ کرینگے جس میں لڑکی والوں سے جہیز یا رخصتی کا کھانا لیا جارہا ہو۔ چاہے وہ خوشی سے ہو کہ فرمائش کی وجہ سے۔
مہمانانِ خصوصی میں ڈاکٹر سید علی محمود، سید خواجہ وقارالدین اور محمد عباس خان صاحبان موجود تھے۔ ڈاکٹر علیم خان فلکی صدر سوشیوریفارم سوسائٹی نے اپنے کلیدی خطاب میں جہیز کی حرمت کی شرعی وجوہات اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بھیانک اخلاقی، سماجی اور معاشی نقصانات کا جائزہ لیتے ہوئے سامعین کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر انہیں قائل کردیا کہ ایسی شادیوں میں شرکت کا بائیکاٹ یقیناً اس دور کا ایک جہادِعظیم ہے جس کا عہد کرنا ہر ایک دینی اور اخلاقی فرض ہے۔ انہوں کے کہا کہ یہ کیسی منافقت ہے کہ لوگ جہیز اور اسراف کو حرام بھی کہتے ہیں لیکن اس حرام کا ساتھ دینے پر صرف اسلئے مجبور ہیں کہ اکثریت یہ کررہی ہے۔ سورہ مائدہ آیت 100 کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا خبیث اور طیب برابر نہیں ہوسکتے ۔ تعداد میں خبیث چاہے کتنا بڑا کیوں نہ ہو۔ آج جن لوگوں کی اکثریت سے لوگ مرعوب ہوکر اس حرام کو جاری رکھنے پر مجبور ہیں علیم خان فلکی نے اس اکثریت کی اخلاقی حیثیت کو پہلے دیکھ لینے پر زور دیا۔ یہ لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنی اور اپنی بیویوں کی خواہشوں کے غلام ہوتے ہیں۔ اپنی زندگی بھر کی کمائی لڑکی کے جہیز پر خرچ کرکے لڑکوں کو معمولی نوکریاں کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس رسم کو غلط ماننے کے باوجود سود پر قرض لے کر پورا کرتے ہیں اور معاشرے کو مجبور کرتے ہیں کہ ان کی دعوتوں کا قرض چکانے کیلئے دوسرے بھی ایسے ہی کریں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جہیز معاشرے سے کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ علیم خان فلکی نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان میں بس فرق یہ ہیکہ ہندوستان میں مانگ کر جہیز اور کھانا لیا جاتا ہے لیکن کراچی اور لاہور وغیرہ میں سب کچھ باٗئی ڈیفالٹ ہوتا ہے۔ ہر دو طرف لڑکی کے والد اور بھائی کنگال ہوجاتے ہیں۔ لوگ النکاح من سنتی رقعہ پر شائع کرواتے ہیں لیکن ان کی شادیان محمدالرسول اللہ کے نہیں بلکہ رام لکشمن کے دیئے ہوئے رسم و رواج کے مطابق ہوتی ہیں۔ فلکی صاحب نے قرآن ، حدیث اور صحابہ کی زندگیوں سے کئی مثالیں پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ عہدِ حاضر کی شادیاں جن میں اسراف، تبذیر، بھیک، ہندو قوم کی تقلید، رشوت اور کئی حرامکاریوں کے دروازے کھولنے والے اوامر موجود ہیں ان شادیوں میں شرکت سنّت کی توہین ہیں۔ اس سسٹم کو ختم کرنے کا واحد راستہ یہ ہیکہ ایسی شادیوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ انہوں نے اپنی تازہ تصنیف ـ"جہیز کی شادیوں کا بائیکاٹ ۔۔ اس دور کا جہادِ عظیم" بھی تمام کو پیش کیا۔
تمام سامعین نے پوری گرمجوشی سے حلف لیا کہ وہ بائیکاٹ کرینگے، اس مہم کا ساتھ دینگے اور اپنے اپنے حلقہ احباب میں ایک ایک دعوت کرکے سب کو جمع کرینگے اور تمام کے سامنے اپنے حلف کو رکھیں گے۔ تمام نے یہ بھی عہد لیا کہ جس وقت کوئی ایسی شادی کا رقعہ لائیگا وہ اسی وقت اس کے منہ پر کہہ دیںگے کہ جو شادی اللہ کے رسول اور ان کی جماعت کے طریقے کے مطابق نہیں ہوگی وہ اس میں ہرگز شرکت نہیں کرینگے۔ کچھ سامعین ایسے تھے جو اسٹیج پر آکر اپنے عہد کا اعلان کرنے کے مشتاق تھے جن میں جاوید اسلم اعظمی، عباس خان، افضل احمد، اسلم افغانی شامل تھے۔
اجلاس میں جناب عامر صاحب بھی موجود تھے جنہوں نے ایک انوکھے انداز سے عہد لیتے ہوئے اپنے ہی لکھے ہوئے ایک ڈرامے "کیا میں دلہن بنوں گی" کا ایک آخری سین تنہا ایکٹ کرتے ہوئے پیش کیا اور کئی سامعین کو رلادیا۔ عامر صاحب جو جدہ کے ایک معروف اینکر، رائٹر اور ڈائرکٹر ہیں۔ ماضی میں کئی فلموں اور سیریل میں کام کیا ہے جہیز کے خلاف جنگ میں اول روز سے لگے ہوئے۔
عرفان قریشی صاحب نے تائید کی کہ واقعی جہیز غربت و افلاس کے بڑھانے میں سب سے اہم رول ادا کررہا ہے۔
سید خواجہ وقارالدین جنرل سکرٹری خاکِ طیبہ ٹرسٹ نے بائیکاٹ کی مہم کی تائید کی اور کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مہم میں زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو جمع کیا جائے اور اس کام کیلئے انہوں نے اپنی بھرپور مدد کا یقین دلایا۔ وقارالدین نے توجہ دلائی کہ اگر ہر شخص ہر ماہ اپنی آمدنی سے ایک فیصد بھی پس پشت ڈالنا شروع کرے تو ہر سال وہ اس رقم سے سینکڑوں غریبوں کی مدد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
محمد عباس خان صدر نور ایجوکیشن سوسائٹی نے کہا کہ جہیز کے خلاف جنگ اور نئی نسل کی کونسلنگ کے سلسلے میں وہ اور نور ایجوکیشن سوسائٹی بھرپور ساتھ دینگے۔ انہوں نے طلبا و طالبات میں جہیز کے خلاف شعور بیدار کرنے اور شادی سے پہلے اور بعد کی کونسلنگ پر اہمیت ڈالی اور اس سلسلے میں اب تک کی ہونے والی پیش قدمی کی تفاصیل پیش کیں۔
ڈاکٹر سید علی محمود نے کہا کہ جب تک سنّتوں کی تکمیل نہ صرف شادی بیاہ بلکہ زندگی کے ہر شعبہ پر جاری نہیں ہوتی تب تک اس امت کی نشاۃ ثانیہ ناممکن ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ آج امت کے لاکھوں نوجوان غربت و افلاس کا شکار ہیں صرف اسلئے کہ مانباپ بیٹیوں کی شادیوں پر تو لاکھوں لٹانے پر مجبور ہیں لیکن بیٹوں کو مدد نہیں کرتے جس کے نتیجے میں انہیں اپنے مناسب نوکریاں نہیں ملتیں اور نہ وہ کاروبار کے قابل ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپیل کی کہ جہیز کو مٹانے کیلئے ہر ممکنہ اقدام اٹھائے جائیں۔

Boycott of Dowry weddings, Socio Reforms meeting at Jeddah. Report: Saleem Farooqi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں